دو ریاستی حل ایک بڑی واردات تیار

30

دوسری جنگ عظیم کے بعد فاتح طاقتوں نے دنیا کی از سر نو بندر بانٹ کی، وسائل سے مالا مال ملکوں کے حصے بخرے کیے اور پھر ایک نکتے پر متفق ہو گئے کہ اب سب کو زیرنگیں رکھیں گے۔ کسی کو اس قدر طاقتور نہ ہونے دیں گے کہ انکے منصوبے خاک میں ملا سکے۔ قریباً تیس برس اس طرح بیت گئے ابھرنے کی آرزو رکھنے والے ممالک اور ان کے باسیوں پر کڑی نظر رکھی گئی انہیں امداد کے نام پر اپنا ہمنوا بنانے اور ترقی کرنے کے سنہرے خواب دکھا کر قرضوں میں جکڑنے کے منصوبے پر کام جاری رکھا گیا۔ انہیں یہ کہہ کر اپنے دفاع سے غافل رکھا گیا کہ انکا دفاع ہم کریں گے، وہ صرف اپنی زندگیوں کو ماڈرن بنانے اور ان سے لطف اندوز ہونے پر توجہ مرکوز رکھیں۔ انہیں یہ باور کرایا گیا کہ انکے دفاع کیلئے انہیں کسی بھی جارحیت سے بچانے کیلئے انکی اسلحہ ساز فیکٹریاں، انکے سرچ اور ریسرچ سنٹر دن رات کام کر رہے ہیں، اگلے مرحلے میں انہیں ترغیب دی گئی کہ کمزور اور مختلف خطرات سے دو چار ممالک انکا اسلحہ خریدیں ان ہی سے تربیت حاصل کریں پھر جب ان کے تیار کردہ اسلحہ کے ماڈل پرانے ہونے لگے تو اسلحہ کے ان انباروں کو ٹھکانے لگانے کیلئے اور اسلحہ سازی کو صنعت کا درجہ دینے کے ساتھ اس بات پر توجہ دی گئی کہ اسلحہ دو ایسے ممالک کو فروخت کیا جائے جن کے اختلافات انتہاؤں کو پہنچے ہوئے ہیں، اس اعتبار سے بھی دنیا کو تقسیم کیا گیا کہ کون کس ملک کو اپنے ہتھیار فروخت کرے گا۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ کوئی طاقتور ملک اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے کسی دوسرے طاقتور اور اسلحہ ساز ملک کی مارکیٹ کو تباہ نہ کرے۔ یوں جو لڑاکا جہاز بنا رہے تھے انہوں نے خود ٹینک نہ بنائے۔ جو بھاری توپیں تیار کر رہے تھے انہوں نے ’سمال آرمز‘ کی تیاری کسی اور کے حوالے کیے رکھی۔ اس طرح بحری جہاز تیار کرنے میں کچھ اور ملک جت گئے۔ کچھ ملک ایسے تھے جو الیکٹرانک اور الیکٹرانکس کے شعبوں میں کام کرتے رہے، پھر مشترکہ مفادات کے تحت جنگوں کے میدان سجائے گئے۔ انہی طاقتوں کے آلہ کار اسلحہ کے خود مختار تاجروں کی ایک کھیپ بھی مارکیٹ میں اتاری گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جو ممالک کسی بھی ایک ملک سے سفارتی تعلقات نہیں رکھتے اور اسکی مصنوعات براہ راست نہیں خرید سکتے وہ ان تاجروں کے ذریعے حربی آلات خرید سکیں، اسکی مثال اسرائیل ہے۔ اسلامی دنیا ایک طویل عرصہ تک اسرائیل سے فاصلے پر رہی اسے اسلحہ کے بین الاقوامی میدان میں لانے اور اسکا اسلحہ فروخت کرنے کرانے میں ان تاجروں نے اہم کردار ادا کیا۔ مسلمان تاجر اس حوالے سے فعال رہے اور مال بناتے رہے۔ برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے تاثر ہے کہ مسلمان اور ہندو انگریز سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ مسلمان ایک خود مختار وطن بنانے کے خواہشمند تھے جبکہ ہندؤوں کا خیال تھا کہ ہندوستان کو انگریز سے تو آزاد ہونا چاہیے لیکن انکی جد و جہد جتنی بھی تھی وہ صرف ایک آزاد ہندوستان کیلئے تھی۔ ہندو اور مسلم دو آزاد ریاستوں کیلئے نہ تھی، قائد اعظم محمد علی جناح کو یوں دو طرفہ محاذ پر جنگ کا سامنا تھا ایک انگریز سے آزادی دوسرے ہندو سے آزادی، انہوں نے یہ جنگ کامیابی سے لڑی اور دونوں مکار قوتوں کو شکست دے کر آزاد پاکستان حاصل کر لیا۔ انگریز کو جب احساس ہوا کہ وہ ہندوستان کی آزادی کو اب مزید مؤخر نہیں کر سکے گا تو پھر اس نے وہ چال چلی جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ انگریز نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر اور پنجاب کی تقسیم اس طرح کی کہ یہ مسلمانوں کیلئے سوہان روح بنی رہے۔ پورا کشمیر پاکستان کو ملا نہ پورا پنجاب، مشرقی پنجاب کے سکھوں کو پاکستان کے ساتھ چلنے کی دعوت دی گئی انکے اس دور کے ایک غلط فیصلے سے مسلمانوں اور سکھوں کو آگے چل کر بہت نقصان اٹھانا پڑا جو سب کچھ لٹا کر اب کچھ ہوش میں آئے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنا تسلط ان علاقوں پر برقرار رکھا گیا، حجاز تقسیم کے بعد بگولوں اور آندھیوں میں طویل عرصہ تک گم رہا لیکن پاکستان گرتے پڑتے سنبھل گیا۔ یہاں اپنے وسائل کو بروئے کار لا کر آگے بڑھنے کا فیصلہ ہوا۔ بڑی طاقتیں بغور ہماری سمت و طاقت کا مشاہدہ کرتی رہیں پھر جب دیکھا گیا کہ پاکستان انکی دسترس سے باہر ہو سکتا ہے تو سرحدی تنازعات کو ہوا دے کر بھارت سے پاکستان پر حملہ کرایا گیا۔ اس سے پہلے 1948ء میں کشمیر پر بھارت کو چڑھائی کرنے کی ترغیب بھی کہیں باہر سے آئی تھی۔ سترہ روزہ بھر پور جنگ جہاں ایک طرف پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش وہاں پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بھی ساتھ ساتھ چل رہا تھا، پاکستان اور بھارت کو اس جنگ سے قبل مختلف ملکوں نے خوب فوجی امداد دی۔ جنگ ستمبر کے دوران تو پاکستان کو دولخت نہ کیا جا سکا کیونکہ ”مسلم برادر ہڈ“ موجود تھی۔ پھر اس پر ضرب لگانے کیلے زبان، نسل اور کلچر کو ہتھیار بنایا گیا، اسی طرح عرب عجم کی تقسیم پیدا کی گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں عرب اسرائیل جنگ شروع کرائی گئی، بیشتر مسلمان ممالک حال مست اور مال مست بنے رہے۔ مصر کی فوجی طاقت کو شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیل اسکے متعدد علاقوں پر قابض ہو گیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو کاٹ کر بنگہ دیش بنا دیا گیا۔ یوں خطے کی ابھرتی ہوئی مسلمان قوت دو حصوں میں بٹ گئی، بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہوتا رہا مسلمان ممالک زبانی جمع خرچ کرتے رہے، پھر بیالیس ملکوں کی فوجیں اقوام متحدہ کی منظوری حاصل کر کے افغانستان کو جنگ کا میدان بنانے میں کامیاب رہیں۔ روس پسپا ہو گیا لیکن افغانستان پر امریکہ اور اسکے حواریوں کا قبضہ ہو گیا۔ روس کے خلاف جہاد میں اسلامی دنیا استعمال ہوئی لیکن امریکہ سے قبضہ چھڑانے کا وقت آیا تو صورتحال مختلف تھی۔ ان طاقتوں کا اگلا نشانہ عراق اور کویت تھے پھر لیبیا اور شام کی باری آئی۔ ایران ہر زمانے میں نشانے پر رہا، عراق اور ایران بہترین فوج رکھتے تھے پہلے دس برس دونوں کو متحارب رکھ کو کمزور کیا گیا پھر عراق پر قبضہ کر لیا گیا۔ روس ٹکڑے ٹکڑے ہوا، امریکہ افغانستان سے نکل گیا ان تمام جنگوں میں اسلحہ ساز ملکوں نے خوب اسلحہ فروخت کیا وہ گذشتہ پچاس برس سے اسلحہ فروخت کر کے اپنی معیشت چلاتے رہے ہیں۔

چین کی مسلسل اور خاموش ترقی نے دنیا کے بڑے بدمعاشوں کو حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے اب وہ دو ریاستی حل کی پالیسی پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس فلسفے پر بھی گذشتہ صدی میں کام شروع کیا اس پر عمل ہماری اور آپکی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا مگر ہم کچھ نہ سمجھے بلکہ پوری مسلم دنیا کچھ نہ سمجھی۔ بات یہاں ختم ہو جاتی تو گوارا تھا لیکن افسوس مسلمان دنیا انہی بڑے عالمی بدمعاشوں کی آلہ کار بنی رہی۔ پاکستان کا دو لخت کیا جانا، بوسنیا کی کاٹ چھانٹ، سوڈان کی تقسیم، کشمیر کی موجودہ صورت حال ہر طرف دو ریاستی حل نظر آتا ہے۔ اب اسی فلسفے کے تحت فلسطین کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام آخری مراحل میں ہے۔ وسائل سے مالا مال علاقے اسرائیل کو دیئے جائیں گے بنجر و بے آباد خطہ مسلمانوں کو ملے گا۔ مسلم دنیا کے کھڑپینچ اسے عظیم کامیابی قرار دیں گے۔ مسلمانوں پر مسلط جنگیں اسلحہ بیچنے اور ان ملکوں کے وسائل پر قبضے کی جنگیں تھیں۔ فلسطین تیل اور لیتھیم سے مالا مال ملک ہے اس کی تقسیم کا اعلان ہو چکا ہے۔

تبصرے بند ہیں.