محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان

106

تحریر:صوفیہ یزدانی

”السلام علیکم سر! یوم تکبیر کا پیکیج بنانے کے لئے آپ کا وڈیو پیغام چاہئے۔ آپ وقت بتا دیجیے ہمارے اسلام آباد کے رپورٹر اور کیمرہ مین آپ کے گھر آ جائیں گے“۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا وڈیو پیغام لینے کے لئے کراچی آفس سے فون کیا۔ان دنوں میں نجی ٹیلی وژن چینل سے وابستہ تھی۔ یوم تکبیر کا پیکیج ڈاکٹر عبد القدیر خان کے پیغام کے بغیر نا مکمل ہوتا۔ سلام کا جواب دینے اور خیریت پوچھنے کے بعد آپ نے بہت دھیمے لہجے میں کہا۔ ”میری رہائش گاہ پر میڈیا کے آنے پر پابندی ہے۔ سرکاری سیکورٹی والے انہیں آنے کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ مجھے سوالات ای میل کر دیں میں آپ کو اپنا وڈیو پیغام ریکارڈ کروا کر ارسال کر دوں گا“۔ یوم تکبیر کے حوالے سے انہیں چند سوال ای میل کر دیے۔وعدے کے مطابق دو دن کے بعد انہوں نے اپنا وڈیو پیغام ارسال کیا۔ڈاکٹر عبد القدیر کے وڈیو پیغام کے ساتھ 28مئی2021ء کے لئے یوم تکبیر کا پیکیج تیار تھا۔جس میں ایک معروف ایٹمی تجزیہ نگار کا پیغام بھی شامل تھا۔ رات تقریباً آٹھ بجے آفس سے فون آیا ”میڈم سرکاری آرڈر کے تحت یوم تکبیر کے موقع پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کوئی تحریری یا وڈیو پیغام شائع اور نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آپ کے پیکیج سے ان کا نام اورپیغام نکال دیا گیا ہے“۔ 28مئی کویوم تکبیر کا کٹا پھٹا پیکیج چلایا گیا۔جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر کا وڈیو پیغام تو دور کی بات ان کا کہیں ذکر بھی نہیں تھا۔28مئی2021ء کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کوئی بیان یا پیغام شائع یا نشر نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے ہمارے ٹی وی چینل کے لئے پیغام دیا تھا۔ اخلاقاً ان سے معذرت کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوئی۔ حکومت کا یہ حکمنامہ سمجھ سے بالا تر تھا۔

قابل فخرکارنامے انجام دینے والے افرادقوم کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے۔پاکستان کو مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بنانے والے مایہ ناز عالمی شہرت یافتہ ا یٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں۔ آپ نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے شعبے میں مختصر مدت میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیئے اور ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کے وجود اور دفاع کو محفوظ بنا دیا۔ قوم آپ کوبجا طور پر”فخر پاکستان“ اور”محسن پاکستان“ کے نام سے پکارنے میں فخرمحسوس کرتی ہے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میری پہلی ملاقات چند سال قبل کراچی میں ”رویے سائنسز کے ڈاکٹر اے کیو خان انسٹیٹیوٹ“ (ادارہ برائے ذہنی صحت، علاج منشیات و نفسیاتی مسائل) کی ایک تقریب میں ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے یہ ادارہ کراچی اور گردو نواح میں کم آمدنی والے لوگوں کے لئے قائم کیا۔تقریب ختم ہونے کے بعد آپ سے فیملی انٹرویو کے لئے درخواست کی۔ انہوں نے کہا کہ میری اہلیہ بہت کم کراچی آتی ہیں اس لئے میں فیملی انٹرویو دینے کا وعدہ نہیں کرتا البتہ میں جب بھی زیادہ دنوں کے لئے کراچی آیا تو آپ کو انٹرویو ضرور دوں گا۔ موبائل فون نمبروں کے تبادلے کے بعد میں نے ان سے رخصت لی۔انہوں نے اپنا وعدہ ایفا کیا۔ ایک دن ان کا فون آیا کہ وہ کراچی آ رہے ہیں انہوں نے انٹرویو کا وقت طے کر دیا۔ کراچی میں آپ کا قیام محمد علی سوسائٹی میں اپنی بہن کی رہائشگاہ پر ہوتا تھا۔ ان کی کراچی آمد پر بہن کی قیام گاہ کے علاقے کے چہار اطراف سیکورٹی اور ایجینسیوں کا سخت پہرہ ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان وعدے کے بہت پابند تھے وہ جو وعدہ کرتے وہ ضرور پورا کرتے تھے۔ آپ سے انٹرویو کے لئے تین بجے کا وقت مقرر تھا۔وہ اس سے پہلے ایک تقریب میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک تھے۔ تقریب ختم ہونے میں کچھ تاخیر ہوئی تو انہوں نے فون کر کے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پندرہ منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔ سیکورٹی کے انتہائی مراحل سے گزرنے کے بعد آپ سے تفصیلی بالمشافہ ملاقات میں بچپن، تعلیم، ملازمت، نجی زندگی، پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لئے کوششوں اور اسی طرح کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ محسن پاکستان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بہت خوشی اور فخرمحسوس ہو رہا تھا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ”1974ء میں بھارت نے جب پہلا ایٹمی دھماکہ کیا میں اس وقت یونیورسٹی آف لیون بلجیم سے فزیکل میٹرلجی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ میں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ پاکستان کو بھی فوری طور پر ایٹمی دھماکہ کرنا چاہئے اور اگر میری اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا تو پاکستان کا وجود ختم ہو جائے گا اور آئندہ دس سال میں مغربی پاکستان بھی باقی نہیں رہے گا اور ہندوستان اس کا تیہ پانچا کر دے گا“۔ اس خط کے جواب میں انہوں نے مجھے پاکستان آ کر اس پروجیکٹ پر کام کرنے کی دعوت دی۔ ان کی دعوت پر میں نے یہاں آ کر اٹامک انرجی کمیشن کے لوگوں کو ایٹم بم کے پروجیکٹ پر کام کرنے کی تفصیلات بتائیں اور واپس چلا گیا۔1975ء میں پاکستان آیا تو ایٹم بم پروجیکٹ پر کچھ بھی کام نہیں ہوا تھا۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بتایا تو انہوں نے درخواست کی کہ آپ واپس نہ جائیں اور یہیں رہ کر یہ کام کریں۔ میں اور اہلیہ صرف چند کپڑے اور کتابیں لے کر آئے تھے۔ میں نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا کہ میں دو تین ماہ کے بعد واپس آ جاؤں گا لیکن انہوں نے جانے سے منع کر دیا۔ میں نے اپنی بیگم سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ پاکستان کی بھلائی کے لئے کوئی کام کر سکتے ہیں تو ہم رک جاتے ہیں اس طرح ہم یہاں رک گئے“۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے دن رات پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں صرف کر دئے۔ وہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر اور مضبوط بنانا چاہتے تھے۔وہ پاکستان کے لئے بیلجیم سے اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اپنے عظیم مشن کو مکمل کرنے میں مصروف رہے۔ اللہ پاک کے فضل سے ان کا مشن کامیاب ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘ان کی سائنسدانوں اور انجینئروں کی ٹیم نے 28مئی 1998ء کو بلوچستان میں ضلع چاغی میں پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو پہلی اسلامی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنا دیا۔ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔ الحمدللہ! یہ دن تاریخ کاروشن باب بن کر ہمیشہ زندہ رہے گا۔ زندہ قومیں اپنے محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں‘ ان کی قدر کرتی ہیں اور آنے والی نسلوں کے لئے رہنما بناتی ہیں۔انہیں اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ پاکستانی عوام کی محبتوں کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ”پاکستان کے عوام نے مجھے بہت پیار اور محبت دی ہے لیکن یہاں حکمران لٹیرے، ڈاکو، چور، بے ایمان اور مغرب کے غلام ہیں۔ انہیں یہ فکر نہیں ہے کہ قدیر خان ہیرو ہے اس نے قوم کو کچھ بنا کر دیا ہے۔ انہیں صرف یہ فکر ہے کہ اگر ہم ڈاکٹر صاحب سے بات کریں گے تو امریکہ ناراض ہو جائے گا۔ انہیں امریکہ کی حمایت زیادہ عزیز ہے۔ میں نے دن رات کام کر کے پاکستان کو ایٹمی قوت بنا دیا۔ جب پاکستان آیا تو چھ ماہ کے بعد صرف تین ہزار روپے تنخواہ ملی اور بتیس سال کے بعد ملک کو ایٹمی اور میزائل قوت بنا کر ریٹائر ہوا تو صرف چار ہزار چار سو چھیاسٹھ روپے پینشن ملی تھی“۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان زندگی کی آخری سانسوں تک سیکورٹی کے حصار میں رہے۔ انہوں نے آزاد شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے لئے عدالت سے درخواست بھی کی۔ ڈاکٹر عبد القدیر کا کہنا تھا کہ عدالت والوں کے کان میں کہہ دیا جاتا ہے کہ عبدالقدیر خان کو امریکہ اٹھا کر لے جائے گا لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جب ہم بم بنا رہے تھے‘جب بنا چکے اور ایٹمی دھماکے کئے تو مجھے تو امریکہ نہیں لے گیا۔ میں تو اب بھی سیکورٹی کے بغیر رہنا اور نقل و حرکت کرنا چاہتا ہوں“۔ ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے محسن صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد خراج عقیدت پیش کرنے سے کہیں بہتر ہوتا کہ ان پر پابندیاں عائد کرنے کی بجائے زندگی میں ان کی قدر کی جاتی اور ان کے شایان شان عزت و احترام کا سلوک کیا جاتا۔

تبصرے بند ہیں.