محبت فاتحِ عالم

34

”پدرم سلطان بود“ کہنا آسان ہے، ”پسرم سلطان است“ کہلوانا اصل کام ہے۔ اپنے آباء کا تعارف بننا ایک کارِ سعادت ہے۔ سعادت مند اَولاد اپنے آبا و اجداد کا نام روشن کرتی ہے … اور وہ روشنی جو اُن کے آباء انسانیت کے لیے جلا کر گئے تھے، اسے مزید جِلا بخشتی ہے، ماضی کو حال کے قریب لے کر آتی ہے تا آن کہ مستقبل روشن تر ہوتا چلا جائے اور روشنی کا سفر جاری و ساری رہے۔ یہ لوگ قافلہِ انسانیت کے محسن ہوتے ہیں۔ رشد و ہدایت کے ان سفیروں کی موجودگی میں قافلے گمراہ نہیں ہوتے۔

چند دن قبل سویٹزر لینڈ سے ڈاکٹر سیّد عرفان مخدوم نیّر کا فون موصول ہوا۔ تعارف حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب پہلے پہل درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے، پھر فارن سول سروس میں منتخب ہو گئے اور بطور سفارت کار جنیوا میں تعینات رہے، ازاں بعد اقوام متحدہ کے اکنامک مشن میں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک عرصے تک ڈیپوٹیشن پر چلے گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اقوام متحدہ نے انہیں جانے نہیں دیا، گورے ٹیلنٹ پہچان لیتے ہیں ، یہی ان کی ترقی کا راز ہے، چنانچہ تاحال اقوامِ متحدہ کے اکنامک مشن کے ساتھ منسلک ہیں اور جنیوا ہی میں مقیم ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے دادا سیّد شاہ محمد صابری چشتی ایک ولی اللہ گزرے ہیں۔ انڈیا کے شہر جالندھر میں ریاست کپورتھلہ کے قصبے ”خانقاہ سیداں“ میں اِن کا مزار ہے۔ اس نیّر تاباں نے بتایا کہ اِن کے دادا کی ایک ڈائری، فارسی میں لکھی ہوئی، ان کے ہاتھ لگی، جس نے راہِ تصوف میں ان کے شوق کو مہمیز دی۔ بتاتے ہیں کہ جنیوا میں ایک کولیگ کے ہاں پارٹی تھی، یہ اپنے دفتر والوں کے اصرار پر چلے گئے، پارٹی کا رنگ دیکھ کر یہ اپنا رنگ بچانے کے لیے کسی بہانے سے چپکے سے واپس آ گئے۔ اُسی رات خواب میں اِن کے دادا، اِن کے نانا اور مرحوم والد تشریف لائے اور ایسی فہمائش کی یہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے اور ساری رات سو نہ سکے۔ کہتے ہیں کہ میں نے تہیہ کیا کہ باقی ماندہ عمر اسلام کی روحانی قدروں … محبت، تصوف اور معرفت … کی ترویج و ترغیب میں صرف کروں گا۔ سبحان اللہ! کیا شاندار واردات ہے، اللہ ایسی وارداتیں یورپ میں رہنے والے ہر مسلمان خاندان کے نصیب میں کرے۔ اگر ایسا کام کوئی ذمہ لگ جائے تو یورپ میں رہنا رَوا ہے، وگرنہ ناروا۔ گویا ڈاکٹر عرفان نیّر اب اکنامک مشن سے نکل کر کسی روحانی مشن میں ٹرانسفر ہو گئے ہیں۔ اب ان کا کام حسبِ نام ہو گیا ہے۔ ایں سعادت بزورِ بازو نیست!

کتاب کا پیش لفظ ہی پڑھیں تو حیرت کے دَر وَا ہو جاتے ہیں کہ انہوں نے یورپ میں رہتے ہوئے علم و عرفان کی منزلیں کس خوبی سے طے کی ہیں۔ پیش لفظ کا ابتدائی پیراگراف اِن کی معرفت ِ توحید پر دال ہے۔ دوسرا پیرا معرفت نورِ محمدی کا حال بیان کر رہا ہے۔ کتاب کا عنوان ہی تصوف کا بنیادی اصول بیان کر رہا ہے … ’’صوفیاء اور محبت … قرآن و سنّت کی روشنی میں‘‘۔

صوفیاء روحِ دین کے امین ہوتے ہیں۔ قرآن وحدیث میں درج الفاظ سے معنی کا سفر صوفیاء کی ترجمانی اور فکری معاونت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ الفاظ مقید و محدود ہیں، معانی کا قلزم لامحدود ہے … مدعا معانی کا ظہور ہے۔ دینِ اسلام کو حقیقی صورت میں دیکھنے کے لیے ان اصحابِ با صفا و با وفا کے کردار و عمل کے سوا کوئی اور صورت میسر نہیں۔

آج کے دور میں تصوف کو متنازع بنا دیا گیا ہے … ایک لبرل گروہ اسے دینِ محمدی سے ماورا سمجھتا ہے تو دوسر ا انتہا پسند اسے ماسوا قرار دیتا ہے۔ دراں حال آن کہ تصوف ہی عین دین ہے، دین کی روح ہے۔ جو شخص روح ِ دین سے متمسک ہو جاتا وہ فکری انتشار سے دور اور عملی خلفشار سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عرفان نیّر نے بہت خوب صورت بات کی جب انہوں محبت کو جزوِ ایمان کہا۔ لاریب یہ کائنات محبت کے بحرِ بیکراں میں تیر رہی ہے، اسی میں سانس لیتی ہے اور اسی سے اپنا تغذیہ حاصل کرتی ہے۔ دراصل محبت ہی قانونِ فطرت ہے۔ اس قانونِ فطرت سے انکار کرنے والے رحمانی فکر سے نکل کر شیطانی فکر میں داخل ہو جاتے ہیں —Divine thought اور Darwinian thought میں یہی فرق ہے۔ ڈارونی فکر نفرت، لالچ، چھینا چھپٹی اور خود غرضی کی پرچارک ہے۔ ڈارون کے فلسفے سے ماخوذ یہ ’’اصول‘‘ the fittest struggle for existence— survival cutthroat competition— یہ سب کیا ہے؟ یہ حادثاتی فکر کسی حادثے کی طرف ہی لے جائے گی۔ یہ رحمانی فکر سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔ رحمانی فکر محبت، بقائے باہمی، احسان اور ایثار کا نصاب دیتی ہے۔ انسانیت کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار نہیں کہ اس کی بقا کس فکر میں پنہاں ہے۔
یہ کتاب چپکے چپکے قلب میں روحانی تار چھیڑ دیتی ہے … روحانی اور قلبی پہلو اپنی جگہ، لیکن سب سے اہم علمی کاوش یہاں یہ بہم ہے کہ تعلیماتِ صوفیا کو قرآن و سنّت کی روشنی میں اس عمدگی سے بیان کیا گیا کہ ایک معرض و معترض ذہن پر بھی آشکار ہو جاتا ہے کہ تصوف قرآن و سنّت کا عین ہے، غیر نہیں۔ فکری تخریب کاری کے اِس دَورِ پُر فتن میں تصوّف کا محسن وہی ہے جو تصوّف کو قرآن و حدیث اور شریعتِ حقہ کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصف فرمایا کرتے: ’’طریقت دراصل شریعت بالمحبت ہے‘‘۔ پچھلے دنوں ہمارے دوست ذیشان دانش نے یونیورسٹی آف لاہور سے ایک ایم فل مقالہ مکمل کیا، عنوان تھا: ’’فکرِ واصف کے قرآنی ماخذ‘‘۔ معاونت و مشاورت کے لیے تشریف لائے۔ ہم نے کہا کہ دعویٰ نہیں صرف ایک آواز ہے، آپ ہمیں حضرت واصف علی واصف کی تحریر سنائیں، بفضلہ تعالیٰ ہم آپ کو ایک ایک جملے کا ماخذ بتا دیں گے کہ یہ کس آیت اور کس حدیث سے ماخوذ ہے۔ وہ روزانہ صبح آ جاتے، ہم نے آپ کی کتاب ’’کرن کرن سورج‘‘ سے آغاز کر دیا، ابھی پچاس صفحات تک ہی پہنچے تھے کہ ان کا مقالہ مکمل ہو چکا تھا۔ دراصل صوفیاء کی کوئی بات قرآن و سنت سے باہر نہیں۔ عجب نہیں کہ مثنوی مولانا روم صدیوں تک ’’ہست قرآن در زبانِ پہلوی‘‘ کہلوائی۔ علامہ اقبال نے عمر کے آخری ایام میں کس دعوے سے یہ کہا … اور قرآن میں مستغرق اس قلندر وقت کا یہ دعویٰ حق تھا … کہ خدایا! میں نے جو کچھ لکھا ہے اگر یہ قرآن سے باہر ہے تو مجھے اپنے حبیب کی شفاعت نصیب نہ کرنا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر قرآن و حدیث کی کوئی بات ہم پر نہیں کھلی تو یہ ہماری غفلت ہے، ہم اس جہانِ معانی سے سرسری گذر گئے۔ جن پر وہ معنی کھلے انہوں نے بتا دیئے، بلکہ اپنے کردار و عمل سے اس پر شاہد و متشاہد ہو گئے۔ اس باب میں باب العلم سیّدنا علی المرتضیٰ کا قول ہے: ”انسان جس چیز کا علم نہیں رکھتا، اس کا دشمن ہو جاتا ہے“۔ بس ہمیں ان نفوسِ قدسیہ کے قریب ہو کر اپنا ہی جہل دور کرنا ہے۔ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔

کتابِ مذکور میں شریعت، طریقت اور معرفت کا ایک ایسا حسین امتزاج اور بندھن قائم کیا گیا کہ یہ اپنی جگہ ایک مکمل علمی مقالہ ہے۔ ڈاکٹر سیّد عرفان مخدوم نیّر ڈھیروں تہنیت کے مستحق ہیں۔ یہ کتاب رہتی دنیا تک تصوف کے علمی مقالوں میں اپنی جگہ برقرار رکھے گی۔ رب تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ یہ نیّرِ تاباں تاقیامت فروزاں رہے اور ماہِ تمام کی صورت اپنا سفر جاری رکھے۔

تبصرے بند ہیں.