9 مئی یوم حساب، معافی مسترد، پابندی ریفرنس

59

9 مئی یوم حساب، جاتے جاتے ملزموں کے ہاتھوں میں نامۂ اعمال تھما گیا، ماسٹر مائنڈز سمیت 272 واریئرز پریشان، آرمی چیف نے انہیں ڈیجیٹل میٹروسٹس کا نام دیا۔ وزیر اعظم نے ایک سال قبل فوجی تنصیبات جلانے کے واقعات کو ریاست اور فوج کے خلاف بغاوت قرار دیا۔ بغاوت پر معافی حماقت، پی ٹی آئی ایک سال بعد بھی تضادات کا شکار، رئوف حسن اسے فالس فلیگ آپریشن کہتے ہیں۔ عمر ایوب نے منہ بھر کے دعویٰ کر دیا کہ ان واقعات میں ہمارے 15 کارکن ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ کون تھے کہاں ہلاک ہوئے کیوں ہلاک ہوئے؟ ایک سال قبل ہلاک شدگان کی تعداد 50 بتائی گئی تھی کسی ایک کا نام منظر عام پر نہ آیا۔ ”نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا“ کوئی قبر نہ کتبہ، پندرہ یا پچاس افراد کی ہلاکت ہوئی تو فلیگ آپریشن کیسے ہوا؟ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے واضح کر دیا کہ جلائو گھیرائو میں ملوث افراد کے ساتھ کوئی سمجھوتا ہو گا نہ ڈیل۔ اصل ذمہ داروں کو حساب دینا ہو گا۔ سانحہ 9 مئی کی تحقیقاتی رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کر دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق خان کا بنیادی کردار، ان کے علاوہ 34 ماسٹر مائنڈز، 52 منصوبہ ساز، 185 عملدرآمد کرانے والوں کا ذکر، 7 مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (اب لیفٹیننٹ جنرل) احمد شریف کی تہلکہ خیز پریس کانفرنس نے پی ٹی آئی اور جیل میں قید بانی کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر کہا کہ کوئی ڈیل نہ ڈھیل ہم اس سانحہ کو بھولے ہیں نہ بھولنے دیں گے۔ معاف کیا ہے نہ کرنے دیں گے۔ چہرے پڑھنے والوں نے کہا کہ ان کی باڈی لینگویج سے غیر معمولی عزم کا اظہار ہوتا تھا۔ کہا فوج انتشاری ٹولے سے کیوں مذاکرات کرے ہم مدعی ہیں سہولت کار کیا کر رہے ہیں۔ (محبت نامے لکھ رہے ہیں) بغاوت تھی ہم نے اپنوں کو سزائیں دے دیں۔ اب باہر کے حملہ آوروں کی باری ہے۔ جوڈیشل انکوائری کے لیے تیار ہیں لیکن انکوائری 2014ء کے دھرنے سے شروع ہو گی۔ جب جمہوریت اور ریاست کے پہلے ستون پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ کیا گیا۔ پولیس افسروں کو زد و کوب کیا گیا۔ اسی وقت کارروائی ہو جاتی تو ریاست کے دوسرے ستون فوج کو نشانہ نہ بنایا جاتا۔ تمام ثبوت سارے شواہد موجود ہیں۔ انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ آپ کا دل جس کے لیے دھڑکتا ہے دھڑکتا رہے سزائیں تو دینا پڑیں گی۔ بانی پی ٹی آئی صدق دل سے قوم سے معافی مانگیں اور آئندہ مثبت سیاست کی یقین دہانی کرائیں۔ منت سماجت اکارت گئی۔ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ کرانے والے مایوسی کی چادر اوڑھ کر سو گئے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، مقتدرہ والے خان کو نہیں چھوڑیں گے۔ کھیل الجھ گیا خان کے سارے راستے بند، اسٹیبلشمنٹ کا موڈ خطرناک فیصلے خوفناک ہوں گے۔ خان کے ترکش کے سارے تیر ختم، قتل اور زہر خورانی تک کے حربے آزما کر دیکھ لیے، کوئی مانے نہ مانے کپتان سیاست کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے، کھیل سے آؤٹ، سیاست میں صرف ڈرامے اور بڑھکیں کام نہیں آتیں، کچھ ضابطے اور اصول بھی ہوتے ہیں۔ خان ان اصولوں سے نابلد، حماقتوں سے ٹھنڈی ہَوا کے جھونکے لانے والے دروازے کھڑکیاں بند کر لیں گلیاں تو ”سنجی“ نہیں ہوئیں۔ ”مرزا یار“ جیل میں پڑا ہے معافی مانگنے سے بظاہر انکار، اسد قیصر نے کہا ”ہم تو اپنے باپ سے بھی معافی نہیں مانگتے“ (بے شک نا خلف اولاد باپ کو جانور کے نام سے پکارتی رہی ہے۔ ڈی این اے میں نقص) اس قسم کے سیاست دان تعمیری سیاست کیسے کریں گے۔ تیرا باپ بھی دے گا آزادی کے نعرے لگانے والے بھی سیاست کے ریگستان میں نخلستان کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق دو تین وکلا مبینہ طور پر معافی کا مسودہ لے کر جیل گئے تھے۔ خان مسودہ دیکھ کر پہلے ہتھے سے اکھڑے پھر سنبھلے دو ڈھائی گھنٹوں میں بعض ترامیم کے ساتھ معافی نامہ پر دستخط کیے۔ وکلا ”بے ضرر معافی نامہ“ لے کر ریٹائرڈ جنرل کے پاس پہنچے انہوں نے اوپر رابطہ کیا جواب ملا غلط جگہ اور غلط وقت پر آئے۔ ”ہمیشہ دیر کر دیتے ہو ہر کام کرنے میں“ 7 مئی سے پہلے معافی مانگ لیتے اپنا سا منہ لے کر واپس آ گئے خان اطلاع ملنے پر لال پیلے ”میں کیوں معافی مانگوں وہ معافی مانگیں“ خواب ہے جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ ہے۔ خان انا کے اسیر، ہٹ دھرمی کے خو گر لیکن 7 اور 9 مئی کے اعلانات کے بعد بتدریج اندر سے ٹوٹ رہے ہیں۔ تخت سے مایوس تختہ سے خوفزدہ، آخری خواہش کا اظہار مجھے نہیں تو میری اہلیہ کو وزیر اعظم بنا دو، مضحکہ خیز خواہش، مل کر آنے والوں کا کہنا ہے کہ کپتان کا مورال ڈاؤن فرسٹریشن کا شکار ہیں۔ 9 مئی کو کروڑوں افراد سڑکوں پر نہیں نکلے 24 کروڑ میں سے 8 ہزار افراد باہر آئے کیا بگاڑیں گے۔ وکلا تحریک شروع کرنے کا خواب ادھورا رہا۔ آرمی چیف کے دو ٹوک پیغام کے بعد مفاہمت اور مذاکرات کے تمام دروازے کھڑکیاں بند، کوئی تدبیر نہ ترکیب حالات کی سنگینی سمجھنے سے قاصر، سیاسی سوجھ بوجھ سے عاری، خان نے اوپر والوں سے رابطہ کے لیے سابق صدر عارف علوی کو ”اہم ٹاسک“ سونپ دیا۔ ”نا امیدی ان کی دیکھنا چاہیے“ سابق صدر اپنے 5 سالہ دور کے آخری دن تک رابطہ کی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے۔ سپریم کمانڈر رام نہ کر سکے اب سابق ہو کر کیا تیر مارلیں گے۔ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا نہیں مضبوط شہتیر چاہیے جو انہیں سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کے ذریعہ ممکنہ طور پر میسر آ سکتا ہے۔ اس طرف آنے سے انکاری، نتائج معلوم خان سمیت پی ٹی آئی کے درجنوں رہنمائوں پر تاحیات پابندی، پی ٹی آئی کو کالعدم قرار دینے کا اصولی فیصلہ حکومت الیکشن کمیشن کا ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کرے گی۔ عمر میں توسیع کا قانون بن گیا تو 2027ء اور 2032ء تک انقلاب، اقتدار، اختیار غتر بود، یہی روز و شب رہے تو دور تک دیکھنے والوں کا کہنا ہے کہ خان آئندہ دس پندرہ سال فائیو سٹار جیل میں عیش کریں گے۔ اور آئندہ سیاست کسی اور نام سے آنے والے لوگ کریں گے۔ خان کو اپنے ڈوبنے کا یقین ہو چلا ہے لیکن وہ اپنے ساتھ ”صنم“ کو بھی ڈبونے کی تدبیریں سوچ رہے ہیں، واقفان حال کا کہنا ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی لمحے کسی بھی دن کوئی بھی خبر آ سکتی ہے۔ کہانی ختم فیصلہ ہو گیا۔ ایک ستارہ شناس خاتون کا کہنا ہے کہ 20 مئی تک کچھ ایسا ہونے والا ہے جس کے دوران طاقتور اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.