جمہوری کہانی کا کھیل

60

بنگال 18 ویں صدی سے قوم پرستی پر مبنی شعور رکھتا تھا، ایک آزاد وطن کے لئے انہوں نے مسلم لیگ کو اس لئے ووٹ دیئے تھے کہ پاکستان میں یہاں مکمل سیاسی، سماجی، مذہبی آزادی ہو گی نہ کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ ان پر برٹش راج کے انداز میں حکومت کرے۔ وہاں مولانا بھاشانی، مولوی فضل حق اور دیگر بہت سی دیگر قد آور شخصیات تھیں جب انہوں نے دیکھا کہ اکثریت میں ہونے کے باوجود ان کی حیثیت مغربی پاکستان کی نو آبادی جیسی ہے۔ 19 مارچ 1954ء کو امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ بنگالی سیاست دانوں اور عوام نے اسے پاکستان کی خود مختاری اور جمہوریت پر حملہ تصور کیا۔ اسی دوران مشرقی پاکستان میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوئے جن میں حکمران مسلم لیگ کے مقابلے میں حسین شہید سہروردی، مولوی فضل حق، مولانا بھاشانی، بنگال کمیونسٹ پارٹی اور دوسری چھوٹی سیاسی جماعتوں نے ایک اتحاد یونائٹڈ فرنٹ قائم کیا۔ جگتو فرنٹ کے نام سے یاد کئے جانے والے اس اتحاد نے مسلم لیگ کو شکست دے کر بہت واضح اکثریت حاصل کی۔ 3 اپریل کو مولوی فض حق نے حکومت بنائی اور اس کے فوراً بعد ان کی حکومت اور بنگالی عوام نے 19 مارچ 1954ء کو ہونے والے پاکستان امریکہ معاہدے کے خلاف یومِ احتجاج منایا۔

یہ احتجاج امریکہ سمیت پاکستان کی ملٹری اور سول بیوروکریسی کو پسند نہیں آیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی طور پر باشعور اور قوم پرست سیاست دانوں اور عوام کی موجودگی میں وہ اپنے منصوبوں پر کامیابی سے عملدرآمد نہیں کر سکتے۔ کرنا فلی پیپر اور آدم جی جیوٹ ملز میں ہونے والے فسادات کو بہانہ بنا کر صرف 58 دن بعد 30 مئی 1954ء فضل حق حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ گورنر راج لگا دیا گیا۔ امریکہ تھنک ٹینک نے پاکستان کے حوالے سے اپنے مستقبل کے لائحہ عمل پر غور شروع کر دیا انہیں جنرل ایوب خان ہی ایسے شخص لگے جو بہت مضبوط ہیں، فوج ان کی پشت پر ہے اس لئے آئندہ انہی سے بات کی جانی چاہئے۔ یہ ساری کھچڑی اس وقت تیار ہوئی جب گورنر جنرل غلام محمد اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان فوجی امداد کے معاملات طے کرنے واشنگٹن گئے تھے۔ اوپر بیان کیا گیا براہِ راست معاہدہ بھی اسی دورے میں انجام پذیر ہوا۔ 1954ء پاکستان میں جمہوریت کی بیخ کنی کے حوالے سے بڑا اہم سال ہے۔ اسی برس ون یونٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا جسے صوبائی اسمبلیوں نے منظور کر لیا اور جو ملک کے مشرقی حصے میں نہایت اضطراب کا باعث بنا۔ ایوب خان گورنر جنرل غلام محمد اور وزیرِ اعظم محمد علی بوگرا کی مدد سے کابینہ میں وزیرِ دفاع کی حیثیت سے شامل ہو گئے۔ یوں ایک آرمی چیف وردی سمیت کابینہ کا حصہ بن گیا۔ 1955ء سے سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا حسین امتزاج ہوا پھر جس نے پاکستان میں جمہوریت کو پاؤں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا۔11 جنوری 1955ء کو 11 کروڑ ڈالر کی امریکی امداد کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔ 23 ستمبر 1955ء کو پاکستان اس دفاعی معاہدے میں شامل ہو گیا جسے بغداد پیکٹ کا نام دیا جاتا ہے اور جس میں ترکی، عراق، برطانیہ پہلے ہی شامل تھے۔ 16 اکتوبر 1955ء کو گونر جنرل غلام محمد کی بیماری کی وجہ سے سکندر مرزا گورنر جنرل کے عہدے پر فائز ہو گئے۔ فروری 1956ء میں ملک میں آئین منظور ہوا۔ گورنر جنرل کا عہدہ ختم کر کے اس کی جگہ صدر کے عہدے کو دے دی گئی۔ میجر جنرل سکندر مرزا 4 مارچ 1956ء پاکستان کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ 23 مارچ 1956 کو یومِ جمہوریہ قرار دے کر جشن منایا گیا۔ جشن منانے والوں میں سے بیشتر نہیں جانتے تھے کہ جمہوریت کو دھکیل کر دیوار کے ساتھ لگایا جا رہا ہے۔ صدرِ پاکستان جنرل سکندر مرزا نے 9 جون 1958ء کو اس وقت کے وزیرِ اعظم ملک فیروز خان نون کو حکم دیا کہ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان جن کی مدتِ ملازمت ختم ہو رہی ہے اس میں فوری طور پر 2 برس کی توسیع کر دی جائے۔ اسی بات کا جنرل ایوب خان انتظار کر رہے تھے انہوں نے 8 اکتوبر کو آئین منسوخ کر کے اسمبلیاں توڑ دیں اور ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا۔ 8 جون 1962ء کو مارشل لاء ختم کر کے جنرل ایوب خان نے اپنا آئین نافذ کر دیا۔ اس آئین کے مصنف جناب منظور قادر تھے۔ اس آئین کے نافذ ہونے کے 16 دن بعد 24 جون 1962ء کو اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے مشرقی پاکستان کے نو رہنماؤں جن میں نور الامین، شیخ مجیب الرحمان، محمود علی، حمید الحق چودھری جیسے لیڈر بھی شامل تھے نے ڈھاکہ میں منعقدہ اپنے ایک اجلاس میں جنرل ایوب خان کے آئین کو مسترد کر تے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں نئی دستور ساز اسمبلی کا مطالبہ کیا۔یہ وہ کہانی ہے جس نے اس ملک میں آمریت اور جرنیلوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی بنیاد رکھی جو اب تک کسی صورت بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی کبھی براہِ راست ہوتی ہے اور کبھی وہ پسِ پردہ عمل کر رہی ہوتی ہے۔

سردار عبدالرب نشتر قائدِ اعظم کے ساتھیوں میں سے تھے وہ اپنی سوانح عمری جسے آغا مسعود حسین نے 6 دہائیاں قبل تالیف کیا ”آزادی کی کہانی، میری زبانی“ میں فرماتے ہیں کہ مجھے شبہ ہے کہ پاکستان کی فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان سیاست میں حصہ لے رہے ہیں اور انہوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نہیں چلا سکتے، ایوب خان کی یہ سوچ نادانی پر مبنی ہے۔ اس کو معلوم نہیں کہ وہ جو کچھ بھی آج ہے محض پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان سویلین نے اپنے خون سے حاصل کیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی فوج نے کبھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اسی دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہو جائے گا۔ جو نقشہ سردار صاحب نے 6 دہائیاں قبل کھینچا تھا وہ صورتحال آج بھی اسی طرح موجود ہے۔

تبصرے بند ہیں.