تمہیں کہو کہ انداز حکمرانی کیا ہے

46

وہ قوم جس نے شعور کی آنکھ کھولتے ہی ماضی میں ڈپو سے آٹا، چینی، کپڑا لیا ہو، اِس کا حال بھی کل سے مختلف نہیں، ایک تھیلے کی خاطر قطاروں میں لگے مردو و خواتین بے چارگی کے بت نظر آتے ہیں سستے آٹے کے حصول اور چند ہزار روپے مالی امداد کے لیے جو رسوائی انہیں اٹھانا پڑتی ہے، اس ذلت کا کوئی ثانی نہیں ہے۔

جہاں مزدور کی حالت نہ بدلی ہو، خواتین اپنی بے بسی پر شکوہ کناں ہو، کروڑوں بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوں، شفاخانوں میں مریضوں کی بھیڑ ہو، سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد کم ہو، لاقانونیت کے آسیب کا بڑے شہروں میں راج ہو، شاہراہوں پر لوگ خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہو، تھانہ، کچہری میں کسی عزت آبرو کا لحاظ نہ رکھا جاتا ہو، سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی انہیں فروخت کرنے پر مجبور کر دے، بدعنوانی کا چلن عام ہو، میرٹ صرف فائلوں تک محدود ہو، صنعت کار مہنگی توانائی کا رونا روتے ہوں، ارباب اختیار بڑے جلو میں چلتے ہوں، شاہی پروٹوکول کی زد میں آتے نوجوان زندگی کی بازی ہار جائیں۔

کسان کو اپنی ہی فصل فروخت کرنے کے لیے احتجاج کرنا پڑے، زرعی ملک میں اسے بار دانہ اور کھاد کے لیے ٹرک کی لائن میں لگنا پڑے، مہنگی تعلیم متوسط شہری کے بچے کی پاؤں کی زنجیر بن جائے، ہوٹلوں، قہوہ خانوں میں کام کرتے مجبور اور بے بس بچے، کھیتوں میں مزدوری کرتی عورتیں، بچیاں، کھلے آسمان تلے زندگی کا بوجھ اُٹھاتے انسان، وڈیرے، جاگیر دار کی ناانصافی اور ہوس کا نشانہ بنتے ہاری، سرداروں کی غلامی کرتے افراد، ساہوکاروں کے اشاروں پر کام کرتے ملازم، خستہ اور بوسیدہ گھروں کے مکیں، شادی بیاہ کی فرسودہ رسومات کی بھینٹ چڑھتی لڑکیاں، گھروں میں کام کرتی ماسیاں، بے سہارا، معذور لوگ، بیوگی کا غم اٹھاتی مائیں، کسی نہ کسی آسرا کی تلاش میں یتیم بچے، مساجد، عوامی مقامات، چوراہوں پر بھیک مانگتی بچیاں، بے روزگاری کے کرب سے گذرنے والا کیا جانے کہ ”گڈ گورننس“ کیا ہوتی ہے یہ کس بَلا کا نام ہے۔ اچھی سرکار تو انہیں خواب میں بھی نہیں ملی۔
تاج برطانیہ کی آغوش میں آزادی کی آنکھ کھولنے والے شہری کوآج بھی انہیں مسائل کا سامنا ہے، جو اسے انگریز کے عہد میں درپیش تھے، کیونکہ قانون تواُسی کا نافذالعمل ہے، جمہوریت ہی اس کے دکھوں کا مداوا کر سکی ہے نہ ہی آمریت میں اسے سکھ ملا ہے۔

برسراقتدار طبقہ کے خیال میں روٹی، کپڑا، مکان، ریاست مدینہ کا نعرہ، سبسڈی کی خیرات، موٹر ویز کی تعمیر کھلی کچہریاں ہی بہتر طرز حکمرانی ہے، ترقی یافتہ دنیا کے حکمرانوں نے وسائل کا رخ اپنی قوم کی طرف پھیر دیا ہے، مسائل کے حل اور اچھی گورننس کے لیے سائنسی طرزعمل اپنایا ہے، ترقی پذیر ریاستوں میں معاملہ بالکل اس کے الٹ ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اچھی گورننس کا مطلب ریاست کا مدر پدر آزاد ہونا نہیں بلکہ بنیادی اصولوں اور قواعد کا پابند ہونا ہے، ہماری ریاست تو اس قاعدے سے کوسوں دور ہے، ہم نے ایسی طرز حکمرانی دیکھی ہی نہیں جس کا چلن سائنسی بنیاد اور حقیقی اعدادو شمار پر ہو، ریاست کے ادارے یہ بتاتے ہوں کہ انہیں اگلے پچاس برسوں میں کس کس شعبہ میں افرادی قوت درکار ہے، آبادی کتنی بڑھے گی، کتنے تعلیمی ادارے، شفا خانے بنانا ہوں گے، مقامی حکومتوں کا اچھی گورننس میں کیا مقام ہے، نصاب میں کیا جدت لانا پڑے گی، نسل نو کس فن سے آراستہ کرنا پڑے گا، کتنے گھروں کی ضرورت ہو گی، کتنی بنجر زمین آباد کرنا پڑے گی، آبپاشی کے لیے کتنا پانی درکار ہو گا، بدلتی ٹیکنالوجی کی بدولت کس طرح کی صنعتوں کا قائم لازم ہو گا، کتنی شاہراہیں بنانا لازم ہے، ٹیکس وصولی کا کتنا ہدف طے کرنا پڑیگا، انفارمیشن اور خلائی ٹیکنالوجی کس مقام پر ہو گی اور ہمارے قومی اداروں کو کیا کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے ہاں قانون اور سرکار اُس وقت حرکت میں آتے ہیں جب کوئی بڑا سانحہ قومی سطح پر ہوتا ہے، ایسی گورننس تو صرف، طاقت ور طبقہ اور مافیاز کو ”سوٹ“ کرتی ہے، اچھی طرز حکمرانی کے اجزائے ترکیبی میں ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو فیصلہ سازی میں شریک کرنا، سب کوجواب دہ ہونا، لوگوں کی تکالیف اور ضرویات کا خیال کرنا انہیں دور کرنا، اسلوب اور طریقہ کار میں شفافیت لانا، معاشرے کے کمزور ترین طبقات کی آواز کو سننا، بدعنوانیوں کا خاتمہ کرنا، اقلیتوں کو فیصلہ سازی میں شریک کرنا، عدل اور قانون کی حکمرانی کا ہونا شامل ہے، گوررننس بین الاقومی، قومی اور مقامی ہوتی ہے، یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تہذیب، تاہم اسکی شکلیں مختلف رہی ہیں۔ البتہ سول سوسائٹی طرز حکمرانی کا مزاج متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
عہد ایوبی کے پانچ سالہ منصوبے ”اکنامک ماڈل“ کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن ناقدین اس کو معاشی اور سماجی ترقی کی علامت کے بجائے معاشی ناہمواری کی نشانی گردانتے ہیں، بنگالی ماہر معیشت ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کا تعلق براہ راست جنرل ایوب خاں کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔

آدھا ملک کھونے کے بعد بھی اچھی حکمرانی عوام کو میسر آ سکی نہ ہی سماجی اور معاشی ناہمواری کا خاتمہ ہو سکا، اب تو بین الاقوامی ادارے مالی امداد دینے کو ”گڈ گورننس“ سے مشروط کرنے لگے ہیں، ان دنوں ہمارے پردھان منتری سرمایہ کاری کے مشن پر ہیں، اکنانومسٹ نے گورننس اور سرمایہ کاری کے حوالہ سے 82 ممالک کا جائزہ لیا ہے، فِن لینڈ، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ کی رینکنگ بہتر ہوئی ہے، مشرق وسطیٰ میں قطر سب سے آگے ہے، ریاست چلی نے عدم سیاسی استحکام، جرائم اور اغوا کی وارداتوں کے بڑھنے سے اپنا مقام کھو دیا ہے، وہ ممالک جنہیں سکیورٹی چیلنجز ہیں، جہاں سیاسی استحکام نہیں، قانون کی عدم حکمرانی، شفافیت، مساوات اور اتفاق رائے نہیں وہاں سرمایہ دار سوچ سمجھ کر ہی قدم رکھتا ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق تھامس پکٹی نے اپنی کتاب ”کیپٹل“ میں سرمایہ دارانہ نظام کے صد سالہ اعداد و شمار میں یہ ثابت کیا ہے کہ دنیا میں معاشی ناہمواری بڑھی ہے 80 فیصد دولت 60 فیصد کے ہاتھ میں ہے، وہ کام جو پہلے ریاست کرتی تھی اب پرائیویٹ سیکٹرز کو دیا جا رہا ہے۔ عالمی گورننس کے لیے بھی اہم سوال ہے؟

ایک طرف بیرون ملک ہجرت کرتے ذہین فطین افراد، احتجاج کرتا سوسائٹی کا ہر طبقہ، ضروریات زندگی کے حصول کے لیے لائنوں میں لگے مرد و خواتین، ہماری پسماندگی اور قرضوں کی صورت میں پی جانے والی مے، دوسری طرف وزراء کرام کی فوج ظفر موج، ریاست کے ناقص طرز حکمرانی کا پتہ دیتی ہے، جو خرابیوں کی جڑ مانا جاتا ہے، ریاست کی ترقی، بیرونی سرمایہ کاری اعلی اور شفاف طرز حکمرانی ہی سے عبارت ہے، کھاد، باردانہ، آٹے کی لائن میں لگے لوگ، سبسڈی کی خیرات مانگتے افراد ارباب اختیار سے پوچھتے ہیں کہ تمہیں کہو یہ انداز حکمرانی کیاہے؟۔

تبصرے بند ہیں.