انقلاب

60

ملک میں گندم کی ایک بمپر کراپ پیدا کرنے کے بعد اب ہمارا کسان اس کی مناسب داموں پر فروخت کے لیے دربدر بھٹک رہا ہے۔ حکومت گندم کی خریداری میں ہر قسم کے حیلے بہانے اور تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور پرائیویٹ خریدار اور آڑھتی تو صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گندم کا وہ ریٹ لگا رہے ہیں جو کسان کی پیداواری لاگت سے بھی کافی کم ہے۔

اسمبلی میں، میڈیا پر اور سماجی سطح پر حکومت کی بے حسی پر خوب لعنت ملامت کی جا رہی ہے لیکن لگتا تو یہ ہے کہ حکومتی اہلکاروں نے ٹس سے مس نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب تک انہوں نے بیان بازی سے زیادہ کچھ بھی نہیں کیا۔

جب حکومت پر الزامات کی بوچھاڑ پورے جارحانہ انداز میں جاری تھی تو ان کی جانب سے ایک سہمی ہوئی اور محتاط بات یہ بھی آتی رہی کہ اس صورتحال کی ذمہ دار صرف موجودہ حکومت نہیں بلکہ سابق نگران حکومت بھی ہے جس نے اپنے دور میں غیر ضروری طور پر گندم کی بڑی مقدار درآمد کی۔

ابتدائی طور پر تو اس بات کی کچھ زیادہ سمجھ نہیں آئی لیکن بعد ازاں جب حقائق تفصیلاً سامنے آنا شروع ہوئے تو معلوم ہوا کہ نگران دور میں دو وفاقی وزرا اور ایک سیکرٹری نے یوکرائن سے گندم کی اس غیر ضروری درآمد میں سہولت کاری فراہم کی۔بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کے وزیر تحفظ خوراک اس قسم کی حرکت کی مخالفت بھی کرتے رہے لیکن وزارت تجارت اور صنعت و پیداوار نے اس پر اصرار کیا۔ اس معاملہ کی کابینہ نے سرکولیشن سمری کے تحت منظوری دی اور بعد ازاں 3200 روپے من درآمد کی جانے والی گندم 4700 روپے من کے حساب سے فلور ملوں کو فروخت کی جاتی رہی۔

نگران حکومت میں شامل افراد کے بارے میں عمومی تاثر تو یہی ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف خود کرپشن، بے ایمانی اور اقربا پروری سے اجتناب برتیں گے بلکہ جس حد تک ممکن ہو ماضی میں ہونے والی گڑبڑ کا احتساب بھی کریں گے۔ بالخصوص سابق حکومت، میں اس قسم کی بے ضابطگیاں بلاشبہ حیران کن بھی ہیں اور افسوس ناک بھی۔اس سے بھی افسوسناک صورتحال اس وقت درپیش ہو گی جب اس تمام گڑبڑ کے ذمہ داران کے تحفظ کے لیے بڑی تعداد میں بااثر لوگ سامنے آ جائیں گے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح لوگ ایک معلم پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے بچوں کو مدرسہ میں بھیجتے ہیں اور معلم صاحب انہیں اپنی شیطانی خواہشات کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود ساتھی مولوی حضرات کسی بھی قسم کے قانون یا ضابطہ اخلاق کو روندتے ہوئے ان کے تحفظ کو پہنچ جاتے ہیں۔

گندم سکینڈل کے بارے میں تازہ اطلاعات تو یہ ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف صاحب نے نگران دور میں ہونے والی ان بے ضابطگیوں کی تحقیقات کرانے کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے اور اس سلسلہ میں ممبر پبلک سروس کمیشن میاں مشاق کو انکوائری آفیسر بھی مقرر کر دیا گیا ہے۔

ویسے تو ایک سیاسی سیٹ اپ، بالخصوص ہمارے جیسے نظام، میں اس قسم کی انکوائریاں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں۔ اول تو ان کا کوئی جلد اور واضح فیصلہ ہی نہیں آ سکتا اور اگر کسی طور آ بھی جائے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا تو دور دور تک کوئی امکان ہی موجود نہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان ہیں، کہ جن پر کرپشن، چوری اور عدت میں نکاح جیسے الزامات ثابت بھی ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ جیل میں بیٹھے ہوئے سرکاری کھاتے میں لاکھوں روپے کے مرغ مسلم اور مٹن روسٹ کھا رہے ہیں۔ بات صرف اتنی نہیں بلکہ ہر روز اسمبلی اور سینٹ میں ان کی رہائی پر بات بھی ہوتی ہے اور اس قسم کی افواہیں بھی مسلسل گردش کرتی رہتی ہیں کہ وہ ایک ڈیل کے نتیجہ میں بہت جلد رہا ہو جائیں گے۔

حالیہ پیش رفت میں بھی دو وفاقی وزرا اور ایک سرکاری اہلکار کی طرف سے گندم کی درآمد کے لیے دی گئی مبینہ طور پر غیر ضروری اجازت سے ہمارے کاشتکار، جن کی بڑی فصل ہی گندم ہے اور اسی کی آمدنی کی بنیاد پر انہوں نے پورے سال کے اخراجات کی منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے، بہت بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اب تو ان کا اشتعال عروج پر پہنچ چکا ہے اور وہ سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں اور حکومت کے ایما پر پولیس سے ڈنڈے کھا رہے ہیں، لیکن افسوس کہ نہ تو اب تک حکومت نے کسانوں کو ریلیف مہیا کرنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی کی ہے اور نہ ہی اس صورتحال کے ذمہ داران کے خلاف کسی بھی نتیجہ خیز کارروائی کی کوئی توقع ہے۔

گندم سکینڈل میں چاہے کوئی انکوائری ہو، کمیشن بیٹھے یا کوئی قانون نافذ کرنے والا ادارہ حرکت میں آئے اس کا نتیجہ بالکل واضح ہے اور میں آج بتا بھی دیتا ہوں کہ اس معاملہ میں کاشتکار کے علاوہ کسی کا بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ حکومت کے پاس اپنی نااہلیاں اور نالائقیاں چھپانے کے لیے سوبہانے جبکہ بدعنوانی یا نااہلی کا مرتکب ہونے والوں کے پاس سو عذر موجود ہیں۔ میڈیا اور اراکین اسمبلی بھی آج تو اس مسئلہ پر بات کر رہے ہیں کل یہ بات ان کے لیے غیر اہم ہو جائے گی۔

ویسے تو یہ خاصی مشکل بلکہ ناممکن سی بات نظر آتی ہے لیکن پھر بھی بطور معاشرہ ہمیں ایک ایسی ثقافتی تبدیلی پر زور دینے کی ضرورت ہے جو دیانتداری، قانون کی عملداری اور اخلاقی طرز عمل کو ترجیح دے، استثنیٰ کا مقابلہ کرے اور انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی ٹھوس کوششیں کرتے ہوئے جمہوریت کی بنیادوں کو محفوظ کرے تاکہ اس سسٹم پر عوام کا اعتماد بحال کیا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں.