تمغہ امتیاز ……باعث اِفتخار

31

بحیثیت صحافی وہ دن میرے لیے کسی عید کے دن سے کم نہیں ہوتا جب کسی بڑے صحافی، رائٹر یا صحافت کے بڑے نام یا بڑی شخصیت کو سرکاری کی طرف سے سرکاری اعزاز، ایوارڈ یا تمغہ سے نوازا جاتا ہے اور جب یہ اعزاز افتخار احمد جیسے نام کے ساتھ منسوب ہوتا ہے تو پھر بے اختیار لکھ دیتا ہوں کہ افتخار کو باعث افتخار اس کی چار عشروں پر پھیلی شاندار کارکردگی کا صلہ مل گیا…… گو یہ اعزاز کی بات ہے کہ افتخار احمد کو ان کی شاندار صحافتی خدمات کے بدلے میں گزشتہ روز گورنر پنجاب نے ان کو تمغہ امتیاز سے نواز کر ان کی جہاں صحافتی خدمات کا اعتراف کیا، وہاں ان کی صحافت کے میدان میں مزید امتیاز کر دیا…… ویلڈن افتخار احمد۔
اک او تیری اوٹ خدایا ہو نیں کج سجدا
جس دیوے نوں آپے بالیں ہور نئیں کسے نوں بجھدا

کہتے ہیں کہ زندگی ایک تلاش ہے۔ اس کے سنگ میل تو ہیں مگر منزل نہیں۔ افتخار احمد بحیثیت صحافی، بحیثیت انسان، بحیثیت دوست، بحیثیت والد، بحیثیت شوہر کئی پھیلاؤ جو چلتے دریا کی طرح بہہ رہے ہیں۔ اسی طرح افتخار احمد کی زندگی کے کئی روڈ، کئی راستے اور کئی پہلو بھی ہیں۔ شہرت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ کبھی جلدی تو کبھی دیر سے ملنے والی شہرت بھی مقدروں سے ان خوش نصیبوں کو ملتی ہے جنہیں ہم افتخار احمد کہہ سکتے ہیں۔ صحافتی ارتقاء کی داستان جسے افتخار احمد نے خود رقم کیا اور دنیا کو اس کا گواہ بنا ڈالا، اپنے ہی انداز اپنے ہی تیز و تند لہجے سے اس نے گزشتہ تین عشروں سے سب کو اپنے سحر میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کے کئی ہم عصروں نے اس کو کاپی کرنے کی کوشش کی مگر وہ افتخار احمد کو نہ پا سکے شاید قدرت بھی ہمیشہ اس کے ساتھ مہربان رہی اور احترام آدمیت میں اس کا قد بڑے قد والے لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔

میرے نزدیک وہ بیک وقت کئی اننگز کا کھلاڑی ہے، بطور لکھاری، بطور خبرنگار، بطور کالم نگار، بطور تبصرہ نگار، بطور تجزیہ نگار، بطور اینکر کہاں اس نے خود کو نہ منوایا ہو۔ اس کی ہر اننگز کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کبھی یکسانیت کا شکار نہیں ہوا۔ اس کو جب بھی دیکھا محفل دوستوں کی ہو، بات دوران گفتگو کی ہو، بات کسی پروگرام کی میزبانی کی ہو، سب نے اس کو جارخانہ انداز میں سنا اور دیکھا اور شاید یہ جارخانہ انداز اس کی بڑی شناخت بن کر باعث افتخار خود کو منوا لیا اور محدود سے لامحدود تک کے سفر میں اس نے کبھی پیمانے کو ناپا نہیں کہ وہ ایک ان تھک انسان ہے۔
تیرے گلشن کی بدولت گل بداماں ہم بھی ہیں

وہ جب کوئی تحریر تخلیق کرتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک بات ہوتی ہے کہ جیسے کوئی بڑا شاہکار، کوئی بڑا آرٹ، کوئی بڑی نظم، کوئی بڑی غزل یا کوئی بڑا گیت اس کے نام سے منسوب ہو جائے۔ وہ اپنے کہے لفظ کا گواہ، امین اور اس کا ضامن بن کر دفاع کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کی پرانی عادت ہے۔ یہاں ایک بات کا اور ذکر کرتا چلوں کہ وہ عام زندگی سے صحافتی زندگی تک بڑی وکھری ٹائپ کا بندہ ہے، اس کو نہ اپنے نام کی شہرت، نہ کوئی اور زعم ہے، ایمانداری اس کا طرہ امتیاز ہے، اس کا بڑا پن یہ ہے کہ وہ متکبر نہیں۔ کچھ لوگ ایسا سمجھتے ہیں مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت انسان ہے۔ ایسا انسان کہ دل کرتا ہے کہ اس سے ملا جائے۔ اس سے بات کی جائے۔ اس کو سنا جائے، اس کو اپنے ساتھ دیکھا جائے کہ وہ عشروں کا مسافر ہے اور آج وہ جس قافلے کا مسافر ہے وہ کہیں گھڑی پل کے لیے تو رکتا ہے مگر پھر رواں دواں ہو جاتا ہے۔

کل اور آج کی صحافت کا سب سے بڑا گواہ، سب سے بڑا نقاد، سب سے سینئر، اس نے گزشتہ چار ادوار میں کتنے اتار چڑھاؤ دیکھے، کتنی حکومتیں بنتی ٹوٹتی دیکھیں۔ جس پر اس نے ہمیشہ کھل کر تنقید کی اور سب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ یہ اس کا مقصد ہے۔ افتخار احمد ایک بشر ہے اور اس میں بہت سی بشری کمزوریاں ہو سکتی ہیں مگر اس کی صحافتی خوبیاں اتنی ہیں کہ وہاں اس کی بشری کمزوریاں دب جاتی ہیں۔ اس کے بارے عام رائے ہے کہ وہ خود پسند ہے جبکہ میرے نزدیک وہ خود پرست نہیں ہے۔ اسی لیے اس کو قدرت نے تحریر و تقریر پر مکمل عبور سے نواز رکھا ہے۔ اسی لیے وہ اپنی ذات میں ایک مکمل اخبار، ایک مکمل ادارہ اور سب سے بڑھ کر صحافت کی یونیورسٹی کی سند رکھتا ہے۔ نام کے حوالے سے میرا تعلق 1989ء میں جڑا جب میں نے شعبہ میگزین روزنامہ جنگ لاہور کو جائن کیا۔ آہستہ آہستہ جب میں افتخار احمد کے قریب ہوتا گیا تو میرے ذہن میں یہ تھا کہ بہت سخت انسان ہے۔ نہ کسی سے بات کرتا ہے ہر وقت غصے سے بولنا، لہجے میں تلخی لیے تو پتہ چلا کہ یہ اس کی عادت ہے نہ وہ تلخ انسان ہے، وہ ہے ہی ایسا پھر میں اس کے اور قریب اترا تو وہاں بہت اچھا دوست نما افتخار کو پایا…… یہاں ایک واقعہ ضروری سمجھتا ہوں تاکہ وہ ریکارڈ میں آ جائے۔ غالباً یہ 1994ء کی بات ہے۔ جنگ راولپنڈی میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا انٹرویو ہوا۔ اس کے میزبان میر شکیل الرحمن، ریذیڈنٹ ایڈیٹر جنگ راولپنڈی اور ایک دو اور نام تھے۔ یہ انٹرویو کمبائن ایڈیشن میں شائع ہونا تھا۔ اس زمانے میں مینول کام ہوتا تھا۔ ڈیزائننگ کے پراسیس کے بعد رات دو بجے کے قریب راولپنڈی آفس سے انٹرویو کا متن ملا۔ ہوا یہ کہ دوران پیسٹنگ انٹرویو کا پہلا حصہ آخری کالموں میں تو آخری حصہ پہلے کالموں میں پیسٹ ہو کر اگلے روز شائع ہو گیا۔ انٹرویو وزیراعظم پاکستان کا ہو اور وہ غلط شائع ہو جائے۔ دوران انکوائری میرے ساتھ ارشاد احمد حقانی (مرحوم) جو روزنامہ جنگ لاہور کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے اور میر خلیل الرحمن نے کیا کیا یہ لمبی کہانی ہے۔ مختصراً اسی دن غالباً افتخار احمد گیارہ بجے صبح نیوز روم سے ہوتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے مجھے دیکھا اور بلند آواز سے بولے …… ابھی تمہیں میر شکیل نے نکالا نہیں۔ آج جنگ کی تاریخ کا بڑا بلنڈر تم نے کر دیا…… پھر ہنستے ہوئے کہا آؤ میرے کمرے میں۔ روزنامہ جنگ کی طرف سے آخری چائے میں پلاتا ہوں کہ شاید آج تمہارا یہاں آخری دن ہو۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا چلیں اسی بہانے آپ نے چائے کا تو پوچھا۔ ان دنوں افتخار احمد جنگ فورم کے انچارج تھے۔ کمرے میں چائے پی، شام تک انکوائری کو فیس کیا اور ایک ہزار روپے جرمانہ کے ساتھ انکوائری کا اختتام ہوا۔ اگلے روز پھر ملے اور کہنے لگے قسمت کے دھنی ہو ورنہ……!

روزنامہ آفتاب سے صحافتی زندگی کا سفر شروع کرنے والے افتخار احمد 34 سال تک روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا آیا تو افتخار احمد نے جیو ٹی وی کے ذریعے پھر روزنامہ جنگ والی دھاک بٹھا کر ثابت کر دیا کہ وہ قلم اور مائیک کا مرد میدان ہے۔ ابھی قلم اور مائیک کا سفر رکا نہیں، زندگی کے سفر پر رواں دواں افتخا احمد کے اندر صحافت کی جو جنگ تھی بجائے بڑھتی عمر اور تجربات کے ساتھ کئی محاذوں پر لڑی جانے والی اس لڑائی میں کمی آ جاتی مگر
آتش اب بھی جواں ہے

اور آخری بات……

افتخار احمد کو تمغہ امتیاز کا جو اعزاز اسے نہیں بلکہ صحافت اور اس کی شاندار روایات کو ملا۔ میرے نزدیک صحافت کے میدان میں آج جتنے شہسوار موجود ہیں ان چند بڑے ناموں میں ایک بڑا نام افتخار احمد کا بھی ہے۔ اس کے لکھے لفظ، بولے لفظ اور اس کے افکار و خیالات و تخیلات سے سچ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ آئینے کی طرح بہت شفاف ہے…… بہت بہت مبارک ہو۔ افتخار احمد…… صدا جیتے رہو……
پھول پھر پھول ہیں …… خوبصورت مہکتے ہوئے
ان کے ہر رنگ میں اک نیا حسن……
ہر پنکھڑی میں نئی تازگی……
اب ہمارا لہو بھی شامل ہے ہر بلند آواز میں

تبصرے بند ہیں.