پاکستانی ڈرامہ او ر معیار کی بحث!!!

89

چند دن پہلے مجھے کامسیٹس یونیورسٹی میں منعقد ہ ایک سیمینار میں بطور مقرر جانے کا اتفاق ہوا۔اس سیمینا ر کا انعقاد برادرم ڈاکٹر سہیل ریاض صاحب نے یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سید اسد حسین صاحب کی ہدایت پر کیا تھا۔ سینئر صحافی طاہر سرور میر صاحب اور ایک نجی ٹی۔وی چینل کے سربراہ عرفان اصغر صاحب بھی مقررین میں شامل تھے۔ سیمینار میں ”پاکستانی ڈرامہ“ موضوع بحث تھا۔ پاکستانی ڈرامے، اس کی کہانی اور معیار کے حوالے سے اچھی تنقیدی گفتگو سننے کو ملی۔

پاکستانی ڈرامہ کے متعلق جب بھی بات ہوتی ہے، ہمیں پی۔ٹی۔وی کے ڈراموں کا حوالہ سننے کو ملتا ہے۔ یہ بات قابل فہم ہے اور قابل جواز بھی۔ ایک زمانہ میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں نے دھوم مچا رکھی تھی۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ سرحد پار بھی ان ڈراموں کا چرچا تھا۔ اکثر ہم یہ بات سنتے ہیں کہ جب پی۔ٹی۔وی سے فلاں فلاں ڈرامہ نشر ہوتا تو سڑکیں سنسان ہو جایا کرتی تھیں۔ یہ پاکستانی ڈرامے کا سنہرا دور تھا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب پی۔ٹی۔وی کے اسٹوڈیوز ویران ہو گئے۔ رفتہ رفتہ ڈرامہ زوال کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس شعبہ سے جڑے سینئر افراد سے اس زوال کی وجہ دریافت کی جاتی تو وہ بتاتے کہ وہ محنتی ایکٹر رہے ہیں، نہ ڈائریکٹر اور نہ ہی رائٹر۔ آہستہ آہستہ ڈرامہ پی۔ٹی۔وی سے نکل کر نجی شعبے کی ملکیت بن گیا۔ پرائیویٹ سیکٹر نے ڈرامے بنانے شروع کئے اور پھر دھڑا دھڑ ڈرامے بننے لگے۔ یہ صورتحال آج بھی برقرار ہے۔ پی۔ٹی۔وی کے اسٹوڈیوز ویران ہیں۔ برسوں بعد ایک آدھ ڈرامہ بنتا ہے۔ جبکہ نجی شعبے میں ہر سہ ماہی میں بیسیوں ڈرامے نشر ہوتے ہیں۔اگرچہ پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری کو ایک صنعت کا درجہ حاصل ہے، ہزاروں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہے، کروڑوں، اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہوتی ہے، اس کے باوجود ڈرامہ اکثر تنقید کی زد میں رہتا ہے۔ اس کے معیار کے متعلق بحث برسوں سے جاری ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ پاکستانی ڈرامہ بالکل بے کار شے بن کر رہ گیا ہے۔ اس کا کوئی معیار باقی نہیں رہا۔ بیشتر ڈراموں کی کہانیاں انتہائی بے سرو پا ہوتی ہیں۔ کم و بیش ہر کہانی شادی، بیاہ، پیار محبت اور طلاق وغیرہ کے گرد گھومتی ہے۔ اس کے برعکس، ایک حلقے کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈرامہ کامیابی سے اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ یہ حقیقت کے قریب ہے اور اس کا معیار بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

میری ادنیٰ رائے میں پاکستانی ڈرامہ ان دونوں نقطہ ہائے نگاہ (یا انتہاوں) کے درمیان کھڑا ہے۔ مطلب یہ کہ ہر ڈرامے کو غیر معیاری نہیں کہا جا سکتا۔ہمارے ہاں معیاری ڈرامے بھی بن رہے ہیں۔ لوگ ان ڈراموں کو دیکھتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ آج بھی بہت سے اچھے اداکار، لکھاری، ڈائریکٹر وغیرہ اس شعبہ میں موجود ہیں۔ عوام کی پسندیدگی ہی کی وجہ سے اس شعبے کو صنعت کا درجہ حاصل ہے۔ آپ ڈراموں کی ریٹنگ اٹھا کر دیکھیں، وہ ڈرامے بھی ہیں جن کی ایک ایک قسط کے views لاکھوں میں آتے ہیں۔اپنے محدود مشاہدے کی روشنی میں مجھے گمان ہے کہ یہ بھی ہماری غلط فہمی ہے کہ اب سرحد پار ہمارے ڈرامے نہیں دیکھے جاتے۔دوست احباب کے توسط سے اکثر یہ اطلاعات سننے کو ملتی ہیں کہ بھارت میں ہمارے ڈرامے آج بھی مقبول ہیں۔ دو ماہ پہلے مجھے مراکش جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہ ملک ہے جہاں پاکستانی خال خال دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں یہ دیکھ کر مجھے نہایت خوشی بلکہ فخر محسو س ہوا کہ مراکش کے مقامی ڈرامہ چینل پر پاکستانی ڈرامہ عربی ڈبنگ کیساتھ چل رہا تھا۔ رباط میں مقیم ایک پاکستانی خاندان سے ان کے گھر ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایاکہ فارغ وقت میں YouTube پر پاکستانی ڈرامے دیکھتے ہیں۔ بلکہ ایک نشست میں کئی کئی اقساط دیکھ لیتے ہیں۔ یہ باتیں لکھ رہی ہوں تو مجھے تین چار سال پہلے ملائشیا میں ایک ہندو لڑکی کیساتھ ہونے والی ملاقات یاد آگئی ہے۔ یہ بھارت نژاد ملائشین لڑکی، ایک ملائشین یونیورسٹی میں میڈیا اسٹڈیز کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ اور اس کا سارا خاندان پاکستانی ڈراموں کا شوقین ہے۔ پاکستان کے بہت سے اداکاروں کے نام لے کر اس نے بتایا تھا کہ یہ اداکار اس کو بے حد پسندہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہمارا ڈرامہ پاکستان سے باہر بھی دیکھا جاتا ہے۔ غور کیجئے کہ ڈرامہ انڈسٹری میں ہونے والی کروڑوں، اربوں روپے کی سرمایہ کاری بلاجواز نہیں ہو سکتی۔

اس تصویر کا دوسرا رخ بھی کافی حد تک درست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناقص ڈرامے بن رہے ہیں تو یقینا ایسا ہے بھی۔ مشکل یہ ہے کہ ڈرامہ چینلوں کے مالکان ان چینلوں کا پیٹ بھرنے کیلئے ڈھیروں عمدہ اور معیاری ڈرامے کہاں سے لائیں؟ سو اچھے کیساتھ ساتھ غیر معیاری ڈراموں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ معیاری یا غیر معیاری ہونے کی کسوٹی کیا ہے؟ سیمینار میں، نوجوان طالب علموں سے میں نے عرض کیا کہ یہ ڈرامے جنہیں ہم،آپ غیر معیاری کہتے ہیں ان کے views آپ عوام کی وجہ سے لاکھوں میں آتے ہیں تو ہم انہیں کیسے غیرمعیاری اور ناقص سمجھیں؟غیر معیاری ڈراموں کا معیار بلند کرنا ہے تو سب سے پہلے آپ انہیں دیکھنا بند کریں، تاکہ وہ مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔ مگر یہاں یہ حال ہے کہ ایک طرف آپ شادی، بیاہ، پیار، محبت، طلاق اور جادو ٹونے وغیرہ کی کہانیوں پر مبنی ڈراموں پر تنقید کرتے ہیں، دوسری طرف ا نہیں دیکھ دیکھ کر آپ نے انہیں مقبول ترین بنا دیا ہے۔ یہ صرف ڈراموں کا حال نہیں ہے۔ نیوز پروگراموں کی مثال لے لیجئے۔ جن دروغ گو ٹیلی ویژن اینکروں کو ہمارے سنجیدہ صحافی، صحافی کہنا بھی پسند نہیں کرتے آپ جیسے نوجوانوں نے ان کی ریٹنگ آسمانوں تک پہنچا دی ہے۔ جو سیاستدان اپنی بد کلامی اور بد زبانی کی وجہ سے کڑی تنقید کے حقدار ہیں، آپ نے انہیں ہیرو کا درجہ دے رکھا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ڈراموں کا معیار بلند ہو، حالات حاضرہ کے پروگرام معیاری ہوں، سیاست میں شائستگی اور تحمل آئے، تو سب سے پہلے آپ اپنی پسند، نا پسند پر ایک نگاہ ڈالیں اور اپنا معیار بہتر بنائیں۔ اس مجلس میں عرفان اصغر صاحب نے اپنی گفتگو میں معروف ادیب عبداللہ حسین کا نام لیا۔ افسوس کہ کسی طالب علم نے انہیں نہیں پڑھا تھا۔ طاہر سرور میر صاحب نے استاد سلامت علی خان اور چاہت علی خان کا ذکر کیا، تو طالب علم چاہت فتح علی خان سے ذیادہ واقف تھے۔اس مجلس میں ہونے والی ساری گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ عوام ناقص کہانی اور ہدایت کاری والے ڈراموں کا بائیکاٹ کریں گے تو غیر معیاری ڈرامے بننا خود بخود بند ہو جائیں گے۔

تبصرے بند ہیں.