کسانوں کو مت مارو

33

گو کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کسانوں و کاشتکاروں کے لئے کچھ سہولیات کا اعلان کیا ہے مگر گندم خریداری کا بحران ختم نہیں ہوا، نہ اس بحران کے ختم ہونے کی کسانوں و کاشتکاروں کو اس لئے زیادہ توقع ہے کہ حکومتی اعلانات کا ماضی میں حشر نشر وہ دیکھ چکے ہیں، وقتی طور پر معاملات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے کچھ سہولیات کا اعلان کر دینا ہماری حکومتوں کا پرانا طریقہ واردات ہے، ”سیاسی حکومت“ عوام کو فائدہ پہنچانے کے لئے کچھ اعلانات اگر کر بھی دے ”اصلی حکومت“ جو ہمارے بیوروکریٹس کی ہوتی ہے ان پر عمل درآمد اس لئے نہیں کرتی کہ اس میں ان کا اپنا کوئی مفاد نہیں ہوتا، عوام کا ہر مفاد اْن کے ذاتی مفاد سے متصادم ہے، عوام کے مسائل صرف اس وقت ختم یا کم ہوتے ہیں جب سیاسی حکمران اپنے اعلانات یا احکامات پر اسی طرح کا پہرہ دیتے ہیں جس طرح کا پہرہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے کاموں پر دیتے ہیں، پھر افسران کو بھی پتہ ہوتا ہے اس پر انہوں نے کوئی چوں چراں کی وہ سیدھا بلوچستان جائیں گے، میں اکثر سوچتا ہوں اس ملک کو ”ٹیکے“ لگا لگا کر، اللہ جانے کب تک زندہ رکھا جائے گا؟ جب کہ اس وقت ضرورت ایک ”بڑی سرجری“ کی ہے، اگلے روز وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال فرما رہے تھے ”نگران حکومت نے گندم کی ناجائز امپورٹ کی“، ظاہر ہے یہ ناجائز امپورٹ بغیر کرپشن کے تو نہیں کی گئی ہوگی؟، اس کرپشن سے موجودہ حکمرانوں کو شاید حصہ نہیں ملا ہوگا ورنہ چور چوروں پر الزام لگاتے ہوئے ہزار مرتبہ ضرور سوچتے ہیں، احسن اقبال کا جن نگرانوں کی طرف اشارہ ہے وہ کہیں نہ کہیں اب بھی”حکمران“ ہیں، احسن اقبال کو چاہئیے اپنے وزیراعظم شہباز شریف سے گزارش کریں وہ انہیں ان کے عہدوں سے ہٹا کے دیکھائیں، اور گندم کی امپورٹ کے شدید ترین نقصانات کے جو الزامات وہ ان پر لگا رہے ہیں اس کی صاف شفاف تحقیقات کے لئے کوئی ایسا کمیشن بنا کے دیکھائیں جو ”کمیشن“ کھا کے خاموش نہ ہو جائے، احسن اقبال کے وزیراعظم شہباز شریف یہ جرأت شاید اس لئے نہیں کریں گے کہ ان کے اور سابقہ نگرانوں کے آقا یا مالک ایک ہی ہیں، بدقسمتی سے کتی چوروں کے ساتھ ہر معاملے میں اب رلی ہوئی ہے، کسی محکمے یا ادارے میں کوئی ”واردات“ کتی چوروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، ہر مجرم کا اب یہاں اپنا ایک منصف ہے، ان حالات میں کسی کو اس کی بدکرداری، کرپشن یا ظلم کی سزا کیسے مل سکتی ہے؟، حد یہ ہے کرپشن کے قومی نقصان کا اب سوچاہی نہیں جاتا، فائدے سارے ان کے اپنے نقصان سارے اس ملک کے ہیں، یہ ”نفع نقصان“ کا نہیں صرف نفع کا کاروبار ہے جس میں ”خیر و برکت“ کے لئے یہ حج اور عمرے بھی کرتے ہیں، نگران حکومت نے گندم اگر امپورٹ کر لی تھی اور کرپشن بھی اْس میں کر لی تھی، اس کے بعد کوئی ایسی حکمت عملی ہی اپنا لی جاتی جس سے کسانوں کا نقصان کم ہوتا، کسانوں کو بتا دیا جاتا ”ہم نے اتنی گندم امپورٹ کر لی ہے اب مذید گندم کی ہمیں ضرورت نہیں رہی یا مزید اتنی گندم کی ہمیں ضرورت ہے“، تاکہ بے چارے کسان اس کے مطابق اپنی فصل کاشت کرتے اور آج انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے کہ یہ فصل کی کٹائی کے دن ہیں اور وہ یہ سوچ کر فصل نہیں کاٹ رہے کہ اتنی فصل وہ لے کے کہاں جائیں گے؟ گندم کی بین الصوبائی نقل و حمل پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ بہت دن پہلے ہو جانا چاہئیے تھا، حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا ریٹ اْنتالیس سو روپے فی من مقرر کیا ہے، پچھلے برس یہ ریٹ چار ہزار روپے فی من تھا، تب تک چونکہ کوئی واردات نہیں ڈالی گئی تھی تو کسانوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہوا بلکہ اْن کی خوشی کا عالم یہ تھا اْنہوں نے سوچا دیگر فصلوں کے بجائے وہ آئندہ گندم کی فصل ہی کاشت کیا کریں گے، پھر اچانک بیچ میں ڈاکو آگئے اور محکمہ خوراک ان کی زد میں آگیا، ابھی تو دیگر محکموں کے بارے میں ہوش ربا انکشافات بھی شاید جلد سامنے آ جائیں، اب موجودہ حکومت پنجاب نے کسانوں کے پرزور احتجاج کے بعد اْن کے لئے کچھ سہولیات کا اعلان کیا ہے، پتہ نہیں ان پر عمل درآمد ہوتا ہے یا نہیں؟، ہماری حکومتیں اور ہمارے ادارے عوام کی بھلائی کا اس وقت سوچتے ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے، یا چڑیاں کھیت چگ گئی ہوتی ہیں، ویسے چڑیوں کا تو اب نام ہی بدنام ہے، کھیتوں کو برباد کرنے کے لئے بڑے بڑے شکرے سامنے آگئے ہیں،مجھے تکلیف اس بات کی ہے ہماری سی ایم مریم نواز شریف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف ایک محکمے (پولیس) کے ساتھ سگی ماں جیسا سلوک کیا، باقی بے شمار محکموں کے ساتھ تاحال اْن کا سلْوک سوتیلی ماں جیسا ہے کہ اْن کی طرف دیکھنا بھی ابھی تک اْنہوں نے گوارا نہیں کیا، محکمہ پولیس کی وردی بھی انہوں نے پہن لی، جس طرح کی خوشامدی ٹولیاں ہر وقت ان کے ارد گرد رہتی ہیں ممکن ہے اْنہیں یہ پتہ ہی نہ چلنے دیا گیا ہو کہ ان کے اس عمل سے ان کی کتنی جگ ہنسائی ہوئی ہے، محکمہ پولیس کے اعلیٰ فنکاروں نے اتنی باریک بینی سے اپنی روایتی واردات ڈالی وہ سی ایم صاحبہ کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے صرف ایک محکمہ پولیس ہی ہے جو انہیں اس طرح کی سستی شہرت دلوا سکتا ہے جس طرح کی سستی شہرت کی وہ متمنی ہیں، اس کے بعد سی ایم صاحبہ نے مڑ کے ہی نہیں دیکھا دیگر محکمے بھی ان کی توجہ کے منتظر و مستحق ہیں، ابھی تو صرف محکمہ خوراک کی بدانتظامی کے برے اثرات سامنے آئے ہیں، دیگر محکموں پر بھی فوری توجہ اگر نہ دی گئی ہر محکمہ اْسی طرح کے بحران کا شکار ہوگا جس طرح کے بحران کا شکار آج محکمہ خوراک ہے، اس کی ذمہ داری ظاہر ہے ہم سی ایم صاحبہ پرہی ڈالیں گے کیونکہ صرف سیاسی حکمران ہی ہمیشہ سے ہمارا ”سافٹ ٹارگٹ“ ہیں، کوئی یہ نہیں دیکھتا سیاسی حکمرانوں سے زیادہ کرپشن کرنے والے، ان سے زیادہ نااہلیاں دیکھانے والے اور ان سے زیادہ بھاری تنخواہیں و مراعات وصول کرنے والے بیوروکریٹس بھی اس کے ذمہ دار ہیں، ان بابوؤں کی کرپشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے پہلے بھی ہمارے پر جلتے ہیں آئندہ بھی جلتے رہیں گے۔

تبصرے بند ہیں.