سیاسی استحکام کے بغیر معاشی کامیابی

100

آصف علی زرداری ایوان صدر میں براجمان ہو چکے ہیں سیاسی قد کاٹھ کے اعتبار اور فہم و فراست کے لحاظ سے بھی آصف علی زرداری، قصر صدارت کے شایانِ شان شخصیت ہیں انکے ساتھ منسوب غیر مصدقہ اطلاعات سے قطع نظر، وہ ایک منجھے ہوئے بزرگ سیاست دان ہیں جنہوں نے پاکستان کی نامور محترم اور قد آور بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہ کر سیاسی تربیت حاصل کی ہے پھر انکی شہادت کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کو جس انداز میں زندہ و پائندہ رکھا وہ انکی سیاسی لیاقت اور فہم و فراست کا ثبوت ہے۔ اب پیپلز پارٹی جس طرح قومی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر گئی ہے اقتدار اس کے ساتھ لپٹ رہا ہے یہ آصف علی زرداری کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ بلاول بھٹو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نوجوان سیاستدان کچھ نہیں ہے لیکن جس انداز میں نوجوان بھٹو کو عملی سیاست میں لانچ کیا گیا ہے اور 16 ماہی دور حکومت میں انہوں نے جس طرح کھل کھلا کر اپنے آپ کو منوایا ہے وہ آصف علی زرداری کی کامیاب حکمت عملی کے باعث ہی ممکن ہو سکا ہے کہ بلاول بھٹو صف اول کے قومی سیاست دان کے طور پر اپنا آپ منوا رہے ہیں۔ یہ آصف علی زرداری کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ پیپلز پارٹی دو صوبوں میں حکمران ہے مرکز میں بھی حکمران اتحاد میں شامل ہیں اور وہ خود ریاست کے محترم ترین ایوان میں دوسری مرتبہ براجمان ہو چکے ہیں۔ یہ سب باتیں اچھی ہیں۔ کہنے سننے میں اچھی لگ رہی ہیں۔ عمران خان کی پارلیمانی شکست کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے سیاسی استحکام کا تاثر دیا تھا پی ڈی ایم کی 12 جماعتیں اور تیرھویں پیپلز پارٹی نے مل کر قومی معیشت کی ڈوبتی نبضوں کو سہارا دیا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بگڑتے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی کامیاب کاوشیں کیں۔ اتحادی حکومت کے 16 ماہ کے دوران سیاسی استحکام کا تاثر پیدا ہوا تھا جسے معاشی بہتری کا ذریعہ بنایا گیا اتحادی حکومت نے قومی معیشت کو ’’بیک ٹو ٹریک‘‘ تو ڈال دیا لیکن ایسی کاوشوں نے شخصی و عوامی معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ معاشی حالات اس قدر بگڑتے چلے گئے کہ عام آدمی زندہ درگور ہو چکا ہے۔ قدر زر میں پستی اور اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بلندی نے معاملات دگرگوں کر دیئے ہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث صنعتی پیداوار کا چلتا پہیہ بھی رک چکا ہے۔ برآمدات کی منڈی میں پاکستانی مصنوعات مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ ایک طرف بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ اور دوسری طرف بلند نرخوں نے مل جل کر پیداواری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ معاشی نمو سکڑ چکی ہے، بے روزگاری عام ہے، توازن تجارت اور ادائیگیوں کا توازن شدید بگاڑ کا شکار ہے حکومتی ذرائع آمدن بھی سکڑ چکے ہیں۔ ایک عرصے سے جاری حکومتی نالائقیوں اور نا اہلیوں کے باعث سرکاری ادارے نقصانات کا شکار ہیں۔ ایسے ادارے جو حکومتی آمدنی کا ذریعہ ہونے تھے وہ سبسڈی لے کر چل رہے ہیں پاکستان ریلویز، سٹیل ملز، پی آئی اے وغیرہم جیسے نفع آور ادارے شدید خسارے میں چل رہے ہیں انہیں زندہ رکھنے کے لیے حکومت کو اربوں روپے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ دوسری طرف توانائی سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ہمارے حکمران اور پالیسی ساز اس حوالے سے عبور محض بنے بیٹھے ہیں ان میں سے کسی کے پاس خسارے کو روکنے یا کم کرنے کی کوئی سکیم یا حکمت عملی موجود نہیں ہے۔ خسارہ ہے کہ دن بہ دن بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں۔ گردشی قرضہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ہماری غیر ہموار سفارتی حکمت عملیوں کے باعث، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ بھی رکی ہوئی ہے سرمایہ دار آمادہ نظر نہیں آ رہے ہیں۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث معاشی نمو گھٹ چکی ہے روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہو رہے ہیں بلکہ پہلے سے موجود مواقع بھی گھٹتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی کے پاس کوئی پلان نہیں ہے کہا جاتا رہا ہے کہ الیکشن 2024 سیاسی استحکام لائے گا اور پھر ملک میں معاشی ترقی کا دروازہ کھل جائے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انتخابات کے بعد معاملات میں سلجھاؤ کے بجائے الجھاؤ پیدا ہو رہا ہے ریاست کو للکارنے والے جو رکے ہوئے تھے استعمال عمل کے دوران وہ فعال اور متحرک ہوتے نظر آئے اور انتخابات کے بعد وہ پوری جرأت اور قوت کے ساتھ نظام اور حکومت کے خلاف متحرک ہو چکے ہیں۔ ریاست انکے خلاف اقدامات اٹھانے کے اعلانات کے باوجود بے بس نظر آ رہی ہے۔ تاثر یہ گہرا ہو رہا ہے کہ ریاست بے بس ہوتی چلی جا رہی ہے جبکہ 9 مئی کے ملزمان خوف و ہراس کی کیفیت سے باہر نکل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اکیلی تھی اب اس کے ساتھ دیگر کئی سیاستدان بھی کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ حیران کن بات تھے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان بھی پی ٹی آئی کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جماعت اسلامی بھی نوحہ کناں ہے۔ سندھ میں پیر پگاڑا بھی انتخابی عمل پر شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے۔ ویسے تو ایک طرف انتخابات کے نتیجے میں صوبائی اور مرکزی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ وزراء اعلیٰ، وزیر اعظم صدر مملکت وغیرہ اپنے اپنے عہدوں کے حلف لے چکے ہیں۔ سینیٹ کے انتخابات ہوتے ہی پارلیمنٹ مکمل ہو جائے گی اور نظام طے شدہ انداز اور رفتار کے ساتھ آگے بڑھتا نظر آئے گا لیکن دوسری طرف سیاسی استحکام کا تاثر پیدا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت سڑکوں پر ہے۔ سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کے باوجود وہ حکومت نہیں بنا سکی اور وہ پورے عمل پر خط تنسیخ پھیرنے پر تلی بیٹھی ہے اس نے آئی ایم ایف کو بھی خط لکھا کہ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو قرض نہ دیا جائے۔ عمران خان امریکہ سے بھی درخواست کر چکے ہیں کہ مشکوک انتخابی عمل کے بارے میں کچھ کرے، یہ الگ بات ہے کہ دونوں نے ہی عمران خان کے اس مطالے کو یکسر مسترد کر کے پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات آگے بڑھانے کا اعلان کر دیا ہے لیکن عمران خان جو پہلے مزاحمتی سیاست میں اکیلے تھے، اب انتخابات کے بعد انہیں کئی اور ہمنوا بھی مل چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، جماعت اسلامی سندھ و سرحد کی قوم پرست جماعتیں انکی حلیف بن چکی ہیں۔ عمران خان اپنی مزاحمتی سیاست سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ پارلیمان کے اندر بھی اور سڑکوں پر بھی وہ احتجاج کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ سیاسی استحکام نظر نہیں آ رہا ہے۔ سیاسی مفاہمت کے بغیر معاشیات کیسے ٹھیک ہو گی عامۃ الناس کے مسائل کیسے حل ہونگے؟ کسی کے پاس پائیدار حل نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.