مریم نواز کے وزیراعلیٰ بننے پر بہت سے کالم لکھے گئے، اور لکھے جائیں گے۔ بہت تبصرے ہوئے مزید ہوں گے اور بہت سے تجزیے کئے گئے، یہ سلسلہ ایک خاص وقت جاری رہے گا۔ ان میں سے کچھ میں قلبی مسرت کے پھولوں کی مہک اور بعض میں بغض وعناد کی چنگاریوں کی تپش محسوس کی جاسکتی ہے تاہم چند کالم نگاروں نے بہت اخلاص کے ساتھ کامیابی کے گربتائے ہیں ان پر عمل کرنا یا عمل نہ کرنا مریم کی صوابدید پر ہے۔ ان تین کالم نگاروں میں حماد غزنوی اور ساجد حسین ملک سے براہ راست تعارف نہیں ہے۔ ان کے کالم پڑھ کر آدھی ملاقات ہو جاتی ہے تیسرے کالم نگار محمد بلال غوری چھوٹے بھائی کی طرح ہیں۔
برادرم حماد غزنوی نے مریم کیلئے تین چیلنجز کی بجاطور پر نشاندہی کی ہے (1) گڈگورنس، (2) ترقیاتی سرگرمیاں بشمول عوامی مسائل کے حل کی جدوجہد، (3) پارٹی کی مؤثر تنظیم سازی، بے شک یہ چینلجز دشوار گزار گھاٹی کی طرح ہیں لیکن مریم نے ان پر قابو پالیا تو پنجاب کی کامیاب ترین وزیراعلیٰ کا اعزاز ان کے گلے میں ڈائمنڈ کے ہارسے بڑھ کر زینت دے گا۔ انہیں نوازشریف اور شہباز شریف کی صورت اپنائیت بھر پور رہنمائی بھی حاصل ہوگی اس لئے کامیابی کی توقع وابستہ کرنا خلاف حقیقت نہیں ہے۔
برادرم محمد بلال غوری کی تجویز کا خلاصہ یہ ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ”چاند“ نکلے گا تو دنیا خود دیکھ لے گی بلکہ دنیا کو نکلنے والا ”چاند“ دکھانا پڑتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب (ن) لیگ کا میڈیا سیل ایک کامیاب ترین سیلز مین کی طرح اپنی یہ ”پروڈکٹ“ لوگوں میں مقبول کرسکے (ن) لیگ میں عرفان صدیقی، پرویز رشید، احسن اقبال، مریم اورنگ زیب، عظمیٰ بخاری سمیت میڈیا کی اہمیت اورتقاضوں سے شناسائی رکھنے والوں کی موجودگی مؤثر اور بالخصوص نوجوانوں کے اذہان میں ارتعاش پیدا کرنے والا میڈیا سیل کیوں نہ بناسکی شاید (ن) لیگ کی اعلیٰ قیادت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کی تاریخ جو میگا پراجیکٹس مکمل کئے گئے، نواز شریف دور میں آٹا 35 روپے کلو، چینی 52روپے کلو، پٹرول 96 روپے فی لیٹر، دودھ 85 روپے اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کو قابل برداشت سطح پر رکھا گیا تھا عوام اس کی تحسین ووٹ کی صورت کریں، ایسی توقع رکھنا یقیناً جائز ہے لیکن عمران نے کروکچھ نہ کرنے کا شور زیادہ مچاؤ کے فارمولہ پر عمل کیا اور صبح گیارہ بجے کسی ترقیاتی منصوبے، کسی فلاحی سرگرمی پر غورخوض کیلئے ماہرین کا اجلاس بلانے کی بجائے بلاناغہ اتوار سمیت سوشل میڈیا کارکنوں سے ملاقات اور انہیں آج کے بیانیہ کی لائن دی گئی۔ نتیجہ سامنے ہے، کسی کو یاد نہیں عمران دور میں ملک کی کیا حالت تھی لوگ بالخصوص نوجوان ”بیانیہ“ کی رو میں بہہ گئے، یاد رہے دشمن کا مقابلہ اس جیسے ہتھیاروں سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس لئے برادرم محمد بلال غوری کی تجویز پر ضرور غور کیا جانا چاہئے۔
جناب ساجد حسین ملک نے بہت اچھی تجاویز پیش کی ہیں جو یقیناً قابل غور اور لائق عمل ہیں لیکن ان کی ایک تجویز جو مجھے سب پر بھاری لگی وہ صرف رمضان میں ہی پورا سال اشیائے خوردونوش کی قیمتوں، ذخیرہ اندوزی کے حوالے سے بازار کے ساتھ منڈیوں میں مؤثر مانیٹرنگ کا نظام اور فعال پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے قیام کی تجویز ہے۔ ملک میں بے شک مہنگائی ہے مگر اتنی بھی نہیں ہے جتنی عوام کو بھگتنی پڑ رہی ہے اس کی ایک نہایت ادنیٰ سی مثال میرا ذاتی تجربہ ہے الیکٹرانک یا ڈیجٹیل کاونٹر جسے عام طور پر تسبیح کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کراچی صدر کے دکاندار نے اس قیمت سوروپے نزدیک موجود ٹھیلے والے نے 80روپے، شاہ ٹاؤن روڈ پر واقع چائنہ بازار کے نام سے دکاندار نے 150روپے اور گلشن حدید لنک روڈ پر واقع بڑے مارٹ کے سیلز بوائے نے 200 روپے قیمت بتائی، اس سے اتنی مہنگائی کیوں ہے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، اس لئے اگر فعال مؤثر پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہوں آخرت کی جوابدہی کے احساس کے ساتھ مستعدی اور دیانت داری سے کام کریں تو مہنگائی یقیناً ختم نہیں ہو گی لیکن قدرے قابل برداشت ضرور ہو جائے گی اگر مریم اس پر توجہ دے تو پنجاب کے لوگوں کو فوری طور پر کچھ نہ کچھ ریلیف کی صورت بن سکتی ہے۔
میں کیونکہ اندرون سندھ ہوں اس لیے ساجد حسین ملک کی یہ تجویز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی نذر بھی کرتا ہوں۔ منڈیوں میں آنے والے مال واجناس کی مانیٹرنگ اور فعال پرائس کنٹرول کمیٹیوں سے تاجروں، آڑھتیوں اور دکانداروں کی من مانیوں پر زد پڑے گی لہٰذا ان کی جانب سے شدید ردعمل مختلف صورتوں میں سامنے آئے گا ان کی جانب سے مریم نواز کی مخالفت کا طوفان اٹھے گا عمران کی ”سیاسی دانش“ کے طفیل پی ٹی آئی کی شناخت سے محروم ہونے والے حامد رضا کی علماء کونسل کے ارکان سے گزارش ہے وہ سیاسی میدان میں مریم نواز کی جتنی مخالفت کرسکتے ہیں کریں لیکن اگر وہ عوام کے سچے خیرخواہ ہیں تو مریم کے خلاف جس مفروضہ طوفان کی بات کی گئی ہے مریم کو نقصان پہنچانے کیلئے اس کی حمایت نہ کریں تاکہ پنجاب کے عوام کیلئے ریلیف کا کچھ نہ کچھ سامان ہوسکے اس گزارش کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ کیونکہ ان کے قائد کی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسے حربے اختیار کئے جائیں جن سے عوام زیادہ سے زیادہ مشکلات کا شکار ہو کر مخالف حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تاکہ اس حکومت کے خاتمہ اور ان کے دوبارہ اقتدار کی راہ ہموار ہو جائے، پہلے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے پی ٹی آئی حکومت کے وزراء خزانہ سے خط لکھوانے کے بعد اب پاکستان کو قرضے کی فراہمی روکنے کیلئے آئی ایم ایف کو خود خط لکھنا اسی حکمت عملی کی پیش رفت ہے پی ٹی آئی کے وابستگان کو جائزہ لینا چاہئے یہ حکمت عملی ”حب الوطنی اور عوام دوستی“ کے کس معیار پر پورا اترتی ہے۔
17فروری 2014 ء کے براہ راست کا اقتباس یہ بھی عجیب ہے عمران سے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا ”ہم کوئی غلام ہیں“ جس پر امریکہ نے غصے میں آکر اس کی حکومت کو تحریک عدم اتحاد کے ذریعہ ختم کرادیا اس کا ثبوت ”سائفر“ کی صورت میں جلسہ عام میں لہرا کر امریکہ کو ساری دنیا کے سامنے ”بے نقاب“ کردیا امریکہ کا سازشی چہرہ یا کردار سامنے آ گیا یا مظہر العجائب اب وہی امریکہ پی ٹی آئی کے ساتھ ”دھاندلی“ پر تشویش کا اظہار کر رہا ہے امریکہ قومی سلامتی کے جان کربی نے باقاعدہ پریس کانفرنس میں اس تشویش کا اظہار کیا اس کا مطلب ہے پی ٹی آئی کو ”دھاندلی“ کے ذریعہ اقتدار میں آنے سے روکنے پر امریکہ تشویش میں مبتلا ہے، اگر پی ٹی آئی یا عمران سے ایسی محبت ہے تو ”سائفر“ کے ذریعہ اس کی حکومت گرانے کی کیا ضرورت تھی۔
دوسرا اقتباس۔ ”ادھر حکومت گرانے کی حدتک دشمنی کرنے والے امریکہ سے عمران نے دوبارہ حکومت بنانے میں مدد مانگی ہے۔ عمران نے بیرسٹر سیف کی وساطت کے بھیجے گئے پیغام میں امریکہ سے درخواست کی ہے کہ ”جس طرح پی ٹی آئی کو انتخابات سے آؤٹ کیا گیا ہے اس پر امریکہ کو سخت آواز اٹھانی چاہئے جو لوگ بھی اس میں ملوث ہیں ان سے کہے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے کہ وہ اس کا سدباب کریں“۔ میر کا شعر بہت مرتبہ پڑھا اور سنا مگر حقیقی مفہوم اب سمجھ میں آیا ہے۔
میر کتنے سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اس عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
بچپن میں کھیل کے دوران کسی ساتھی سے نقصان ہو جاتا تو اسے کہا جاتا ”یہ تو ہی پورا کر“ لہٰذا امریکہ سے ”تلافی“ کا مطالبہ بنتا تو ہے۔
تبصرے بند ہیں.