لندن اور لاہور کا فرق

53

کچھ کہانیاں بڑی مماثلت رکھتی ہیں کہتے ہیں کہ برطانوی سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر ایک دفعہ لندن کی 10 ڈاؤننگ سٹریٹ جو کہ ان کی سرکاری رہائش گاہ تھی وہاں سے واک کے لیے باہر نکلے تو سڑک پر لندن کی مشہور سرخ رنگ کی پبلک ٹرانسپورٹ ان کے پاس سے گزری جسے دیکھ کر ٹونی بلیئر کو غصہ آگیا جس سے ان کا موڈ بہت خراب ہوا لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر نظر دوڑائی اپنی شرٹ کے کالر کو جھٹکا دے کر اوپر کیا اور زور دار قہقہہ لگایا۔ کہانی کا پس منظر یہ ہے کہ ٹونی بلیئر نے اپنے کیریئر کے آغاز میں لندن پبلک ٹرانسپورٹ میں ملازمت کے لیے اپلائی کیا مگر انہیں نہیں رکھا گیا تھا اس لیے سرخ بس کو دیکھ کر انہیں غصہ آیا تھا مگر پھر انہوں نے سوچا کہ یہ تو ان کے لیے بہتر ہوا وگرنہ اگر وہ لندن پبلک ٹرانسپورٹ میں ملازم ہوتے تو آج ملک کے وزیر اعظم کیسے بن سکتے تھے پھر انہوں نے ایک نظر بس پر ڈالی اور دوسری وزیراعظم کی سرکاری رہائش پر اور پھر خوش ہو گئے اس میں ان کی انا کی تسکین کا وافر سامان موجود تھا ۔ البتہ یہ ایک اتفاقیہ واقعہ تھا۔

اس کے برعکس محترمہ محترمہ نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلا چھاپہ جس ادارے پر مارا ہے اس سے ان کی ذاتی شناسائی بہت پرانی ہے اور وہاں کے در و دیوار سے ان کی تلخ و شیریں یادیں وابستہ ہیں۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ نے میو ہسپتال کا اچانک دورہ کیا اور ڈاکٹروں اور عملہ کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کے ذیلی ادارے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں محترمہ نے 2 سال ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی مگر یہ تعلیم آپ نے ادھوری چھوڑ دی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے والد میاں نواز شریف پہلی دفعہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تھے اور مریم نواز کا میڈیکل کالج میں داخلہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز کے ذاتی کوٹے پر ہوا تھا جہاں وہ آرمی میڈیکل کالج سے مائیگریشن کرا کر کنگ ایڈورڈ میں پہنچ گئیں جو میرٹ میں سب سے پہلے نمبر پر تھا۔ نوازشریف کے سیاسی مخالفین نے اس واقعہ کو سکینڈل کی شکل دے دی جس کی بازگشت اب بھی کبھی کبھی سنائی دیتی رہتی ہے ۔ اس وقت ڈاکٹر یاسمین راشد وہاں بطور پروفیسر تعینات تھیں۔ یہ سب حسن اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے البتہ مریم نواز نے اچھا کیا کہ وہاں جا کر کسی کو معطل کیا نہ کسی کو جیل بھیجا اور نہ کسی کا اے سی اتروایا۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ میو ہسپتال پر اپنا پہلا غیر اعلانیہ دورہ کرنے کے پیچھے ان کی انا کی تسکین کارفرما تھی کیونکہ یہ وہ ادارہ تھا جس کے اس وقت کے ارباب حل و عقد نے مریم کے لیے نرم گوشہ رکھنے یا انہیں سفارش پر پاس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اس میں محترمہ کی تسکین کا سامان موجود ہے کہ اگر وہ اس وقت ڈاکٹر بن کر کسی ہسپتال کو جوائن کر لیتیں تو آج زیادہ سے زیادہ کسی ایک شعبے کی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہوتیں۔ مریم نواز اور ٹونی بلیئر دونوں کی کہانیوں میں ایک مماثلت ضرور ہے مریم نواز پلاننگ کے تحت پورے پروٹوکول سے وہاں پہنچی تھیں اور ادارے کی انتظامیہ کو بالواسطہ باور کرا دیا تھا کہ اب روک سکو تو روک لو۔

مریم نواز کا طرز سیاست اپنے والد سے کافی مختلف ہے۔ نوا زشریف کم بولتے ہیں فن تقریر میں ان کے اندر برجستہ پن یا جوش خطابت یا لفاظی نہیں ہوتی وہ لکھے ہوئے نوٹ پر زیادہ انحصار کرتے ہیں ان کے برعکس مریم نواز بہت زیادہ Vocal ہیں فن تقریر میں مہارت رکھتی ہیں اور جوش خطابت میں مخالفین کے خلاف اشتعال انگیزی اور بہت زیادہ اونچی آواز جو کئی دفعہ شور و غوغا کی حد تک چلی جاتی ہے۔
میاں نوا زشریف کی اس معاملے میں اپروچ زیادہ اچھی ہے۔ وہ جتنا کم بولتے ہیں ان کی بیٹی اتنا ہی زیادہ بول جاتی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ میاں صاحب انہیں تقریر کے معاملے میں الفاظ کی مقدار اور معیار اور دھیمے پن کا مشورہ ضرور دیتے ہوں گے۔ اصل میں یہ کام ان کے تقریر نوشت کا ہے کہ وہ ان کو بتائیں۔ شاید ان کے تقریر محرر چاہتے ہیں کہ عوام میں دھاک بٹھائی جائے تو درحقیقت اس کے لیے تو عملی طور پر نتائج دینا ہوں گے۔

کہا جا رہا ہے کہ مریم نواز کی حکمرانی کی تربیت کے لیے اکیلی مریم اورنگ زیب کافی نہیں ہو گی لہٰذا پرویز رشید اور رانا ثنا اللہ کو بطور خصوصی مشیر تعینات کیے جانے کی خبریں گرم ہیں یہ دونوں حضرات ان کے والد کے بھی مشیر رہ چکے ہیں ۔ یہ دونوں شخصیات مریم کی سیاسی وراثت کا حصہ ہیں لیکن ان کو دیکھ کر دربار اکبری کے ثقہ بند تاریخی مشیران بیربل اور ملا دو پیادہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جو اپنی دانائی میں مشہور تھے مگر ان کا مسئلہ یہ تھا کہ پیشہ ورانہ رقابت کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے اور اکثر و بیشتر شہنشاہ اکبر کی متضاد مشورہ دیتے تھے پرویز رشید اور ثناء اللہ کا بھی یہی مسئلہ ہے کہ یہ مشیر تو بہت اچھے ہیں مگر ن لیگ بھی جانتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے ایک تصادم اور ٹکراؤ کا سوفٹ عنصر ایک دائمی حقیقت ہے۔ اس لیے شاید ایک کو سینٹ میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ لہٰذا اگر وزیراعلیٰ پنجاب کے خصوصی مشیر کی آسامی ایک ہوئی تو پرویز رشید کے چانسز زیادہ ہیں۔

مریم نواز کے لیے پنجاب کی حکمرانی کے سلسلے میں شہبا زشریف ماڈل موجود ہے لیکن وہ اس کو فالو نہیں کرنا چاہتیں اس کی مثال یہ ہے کہ رمضان سبسڈی پیکیج کے لیے شہباز شریف کا سستے رمضان بازاروں کا دیرینہ اور سالہا سال سے چلنے والے منصوبہ بند کر دیا گیا ہے اس سال سستے بازار نہیں لگیں گے بلکہ 30 ارب روپے کی پوری کی پوری خطیر سبسڈی عوام کو نہیں صرف غریبوں کو مفت راشن دینے پر لگائی جائے گی۔ اس پر بہت سے تحفظات ہیں۔ ملک میں غربت کا خاتمہ غریبوں میں پیسے بانٹنے سے ممکن نہیں اس کے لیے Human Capital کو کار آمد بنانا ضروری ہے جبکہ ہم اپنی قیمتی ہیومن کیپٹل کو بھکاری بنانے پر زور دے رہے ہیں اور چیئریٹی کو فروغ دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ رمضان تو گزر جائے گا اس کے بعد ان مفت پر پلنے والے غریبوں کا کیا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.