میڈم چیف منسٹر… مانیٹرنگ بہت ضروری ہے!

32

محترمہ مریم نواز شریف نے پنجاب کی پہلی منتخب وزیرِ اعلیٰ کا منصب سنبھال لیا ہے۔ وہ بلا شبہ مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہیں ملک کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل صوبے کی پہلی خاتون وزیرِ اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ان کے انتخاب کو بمشکل تین چار دن ہوئے لیکن انہوں نے اپنی حکومت کو چلانے کے لیے جس جانفشانی ، محنت اور مستعدی سے کام کرنا شروع کیا ہے اس سے بجا طور پر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پنجاب میں گُڈ گورننس (مثالی حکمرانی) قائم کرنے میں جہاں کامیاب ہوں گی وہاں عوام کے مختلف طبقات کو جو گونا گوں مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے ان کو رفع کرنے میں بھی کامیاب رہیں گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشکلات اور مسائل کے پہاڑ کھڑے ہیں ۔ ہر سطح اورشعبے میں خواہ وہ سرکاری ، درباری اور حکومتی شعبے ہوں یا عوامی اور معاشرتی شعبے ہوں ، بگاڑ اتنا بڑھا اور پھیلا ہوا ہے کہ ان کا تدارک کرنا آسان نہیںہو گا۔ لیکن نیت صاف ہو، کچھ کر گزرنے کا جذبہ اور ولولہ ہو ، بلند ہمتی، حوصلہ مندی، مستعدی، ہمدردی اور بلند فکر و سوچ زادِ راہ ہوں اور مخلص ، با کردار اور عزم و ہمت کے مالک ہمراہیوں کا ساتھ حاصل ہو تو پھر راستے کی مشکلات اور رکاوٹیںکچھ حیثیت نہیں رکھتیں۔ ان کو ایک ایک کرکے دور کیا جا سکتا ہے۔

محترمہ مریم نواز شریف پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ بنی ہیں تو اس کے لیے وہ عرصے سے ذہنی طور پر وہ تیا ر تھیں۔ لہذا یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ انہیں اس بلند منصب کو سنبھالنے کی صورت میں جن مشکلات ، مسائل ، چیلنجز اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا ہے وہ ان سے تقریباً آگاہ ہو ں گی۔ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی سرکاری مصروفیات کا جو آغاز کیا ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ درپیش مشکلات ، مسائل اور چیلنجز سے کماحقہ آگاہ ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے ان کے حل کے لیے اپنی ترجیحات کا تعین بھی کر رکھا ہے۔ بطورِ وزیرِ اعلیٰ اپنے انتخاب کے بعد اسمبلی کے ایوان میں انہوں نے جو تقریر کی ہے اور اگلے دن پنجاب سیکرٹریٹ میں اپنی مصروفیات کے دوران اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے جو خطاب کیا ہے ، اِن سے ان کی ترجیحات اور مسائل و مشکلات کو دور کرنے کے لیے ان کے مضبوط ارادوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کا اظہار سامنے آتا ہے۔ بطورِ وزیرِ اعلیٰ اپنے انتخاب کے بعد اپنے پہلے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ محفوظ اور معاشی طور پر مضبوط پنجاب میرا خواب ہے۔ کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی ہو گی۔ مہنگائی کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں گے۔ ـنگہبانـ کے نام سے سستا رمصان پیکیج دیں گے اور پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعال کریں گے۔ بطورِ وزیرِ اعلیٰ حلف اٹھانے کے بعد اگلے دن انہوں نے پنجاب سول سیکرٹریٹ کا دورہ کیا ، جہاں اعلیٰ انتظامی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جذبہ خدمت سے سر شار، دیانتدار افسروں کو سلیوٹ کرتی ہوں۔ میرٹ کی خلاف ورزی کروں گی نہ ہونے دوں گی۔ کوئی سیاسی بھرتی نہیں ہو گی۔ عوام کے مسائل کا فوری حل چاہیے۔

وزیرِ اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف کے یہ خیالات جن سے ان کے حکومتی امور چلانے کے حوالے سے عزم اور لائحہ عمل کی عکاسی ہوتی ہے یقینا قابلِ قدر ہیں۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ ان پر تیزی سے عمل در آمد ہو۔ یقینا اس سے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئیں گے۔ اس موقع پر میری طرح کے کسی کم مایہ شخص کی طرف سے محترمہ وزیرِ اعلیٰ کو کو ئی مشورہ دینا یا کوئی تجاویز پیش کرنا چھوٹا منہ بڑی بات سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم ایک بزرگ شہری کی حیثیت سے جس نے اللہ کریم کی طرف سے عطا کردہ طویل حیات مستعار میں بہت اونچ نیچ دیکھ رکھی ہے اور جس کی ایک ہی خواہش ہے کہ وطنِ عزیز مصائب وآلام کے گرداب سے نکل آئے اور عوام الناس کے مختلف طبقات کو ہر ممکن سہولیات میسر آ سکیں، کچھ گزارشات پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کمر توڑ مہنگائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور بد عنوانی ، رشوت ستانی، میرٹ کا قتلِ عام، اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی زوال کے سائے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ صحتِ عامہ کی سہولتوں اور معیاری تعلیم کا حصول خواب وخیال کی حیثیت رکھتے ہیں ۔امن و امان کی ابتر صورتِ حال اور حکومتی اداروں کی کار کردگی کی زوال پذیری سب کے سامنے ہے۔ ان کے علاوہ بھی بے شمار مسائل اور مشکلات ہیں جن سے نمٹنا اور عہدہ بر آ ہونا اعلیٰ حکومتی اکابرین کی ذمہ داری بنتی ہے۔ محترمہ مریم نواز شریف کی سربراہی میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اوراتحادیوں کی حکومت قائم ہوئی ہے تو یقینا عام لوگوں کی توقعات ہیں کہ حکومت ان تمام مسائل و مشکلات کو حل کرنے میں فعال کردار ادا کرتی نظر آئے ۔ اس کے لیے سب سے بڑھ کر ذمہ داری وزیرِ اعلیٰ محترمہ مریم نواز شریف پر عائد ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنے حکومتی امور چلانے کے لیے اپنے لائحہ عمل اور اپنی تر جیحات کا تعین کر رکھا ہے۔ وہ اپنی فعال ٹیم کے ساتھ ان پر یقینا عمل در آمد کریں گی اور وقت کے ساتھ ان کے مثبت نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ پھر بھی نچلی سطح یا گراس روٹ لیول پر کچھ ایسے چھوٹے چھوٹے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن سے بہتر نتائج کی توقع ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہونے والا ہے، اس موقع پر ہمیشہ مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور نا جائز منافع خوری کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ حکومتی سطح پر رمضان پیکیج، سستے رمضان بازاروں کا انعقاد، آٹے کی مفت تقسیم وغیرہ جیسے اقدامات ہمیشہ سے ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ اربوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں لیکن بہتر انتظامات اور مانیٹرنگ نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو تے۔ محترمہ مریم نواز شریف نے اس بار ماہ رمضان کے لیے "نگہبان” کے نام سے رعایتی پیکیج یا سہولتی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ ضرور شروع کیا جائے لیکن اس کے ساتھ دو تین عام سے اقدامات کر دیے جائیں تو حوصلہ افزا نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ فرض شناس اور ذمہ دار حکومتی اہلکاروں کی نگرانی میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو فعا ل کرکے مانیٹرنگ اور کڑی نگرانی کے لیے نا جائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کی راہ روکی جائے۔ یہ کام گراس روٹ لیول سے اوپر کی سطح تک کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ سستی اور معیاری اشیائے خور و نوش اور پھلوں اور سبزیوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ ظلم نہیں ہے کہ پالک، شلجم ، مولی، گاجر، سبز مرچیں، دھنیا، ساگ، آلو اور ٹماٹر وغیرہ جیسی عام سبزیاں اور کنو، لیموں، مالٹے، کیلے اور امرود جیسے پھل جو مقامی طور پر وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں اور دیہات و قصبات اور مضافاتی علاقوں سے گاڑیوں میں بھر بھر کر بڑے شہروں کی منڈیوں اور دکانوں تک پہنچائے جاتے ہیں، رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ان کے نرخوں میں دگنا بلکہ تین گنا تک اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ فعال پرائس کنٹرول کمیٹیاں اور سرگرم انتظامی اہلکار و افسران کڑی نگرانی اور مانیٹرنگ سے اس اضافے کو روک سکتے ہیں۔

رمضان مبارک میں مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کو روکنے کے لیے یہ ایک مثال پیش کی گئی ہے ورنہ چیک اینڈ بیلنس، سزا و جزا، نگرانی اور مانیٹرنگ کا اطلاق ہر شعبے اور محکمے میں کیا جا سکتا ہے۔ پولیس، تھانہ کچہری، محکمہ مال، تعلیم اور صحتِ عامہ کے شعبوں میں اس سے حوصلہ افزا نتائج حاص کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سرکاری محکمے میں کام چوری ایک وبا کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں، ہسپتال ہوں ، دفتر ہوں وقت کی پابندی کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اساتذہ کرام جو قوم کے معمار گردانے جاتے ہیں ان کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ نو نہالانِ قوم کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری پوری کرنے کے بجائے ادھر اُدھر کی سر گرمیوں میں زیادہ حصہ لیتے ہیں جس کی بنا پر تعلیمی معیار روبہِ انحطاط ہے۔ فعال چیک اینڈ بیلنس ، مانیٹرنگ اور کڑی نگرانی سے اس کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ یہاں میاں محمد شہباز شریف کے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوسرے دور (2008-13) کی مثال پیش کی جا سکتی ہے کہ مانیٹرنگ اور کڑی نگرانی کے ذریعے جہاں امتحانی مراکز، تعلیمی اداروں اور تعلیمی بورڈز میں نقل اور بوٹی مافیا کے خاتمے میں کامیابی حاصل کی گئی وہاں محض کاغذات میں قائم جعلی (گھوسٹ) سکولوں کا کھوج لگا کر قومی خزانے کو بھی بھاری نقصانات سے بچایا گیا۔ اس کے ساتھ مختلف محکموں بالخصوص تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی مختلف آسامیوں پر تقرری کے لیے نیشنل ٹیسٹنگ سسٹم کے تحت تحریری امتحان میں حاصل کردہ نمبروں اور تعلیمی قابلیت کو بنیاد بناتے ہوئے میرٹ پر تقرریوں کو یقینی بنایا گیا۔ اب بھی اس طرح کے اقدامات کرنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ صوبے بھر میں گنتی کے دانش سکولوں کا قیام کافی نہیں بلکہ ہزاروں شاید لاکھوں کی تعداد میں جو تعلیمی ادارے موجود ہیں ان میں تعلیمی سہولیات کی فراہمی اور معیاری تعلیم کو یقینی بنا کر ان کو دانش سکولوں کے برابر لانا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.