بھٹو ریفرنس

48

انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے یا دکھائی بھی دینا چاہیے یہ محاورہ کم از کم میں نے تو پہلی بار محترمہ بے نظیر بھٹو کی زبانی سنا اور وہ اخبارات میں شائع بھی ہوا۔ مجھے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی کہانی دو کے پہاڑے کی طرح یاد ہے۔ وہ قوم کی انتہائی اکثریت کے محبوب ترین رہبر تھے۔ جب ان کی حکومت ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا گیا تو کالج کے دن شروع ہو چکے تھے۔ لوگ سچ سننے کے لیے بی بی سی پر سیربین رضا علی عابدی صاحب کا پروگرام سنا کرتے تھے۔ آج کل میڈیا کا ایک طوفان ہے مگر تب تو یعنی ضیا کے دور میں گھٹن تھی کہ جیسے قبر کے حالات سنائے جا رہے ہوں۔ گریٹ بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کے دنوں میں چودھری اعتزاز احسن صوبائی وزیر تھے اور انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی تھی جس کا اعلان جس جگہ سے کیا وہاں سے ملک کے آئندہ حالات کی خبر آج تک ملتی ہے۔ جناب بھٹو کے مقدمہ کے ریفرنس سماعت جاری ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ صاحب چیف جسٹس آف پاکستان ایک تاریخ ساز چیف جسٹس ہیں مگر افسوس کہ ایک فتنہ اور وائرس ایسا پھیلا ہے جیسے کرونا۔ اس میں بڑے چھوٹے، نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ اس فتنے کا وائرس نوجوانوں اور خواتین میں زیادہ پھیلا ہے۔ یہ سیدھا دماغ پر حملہ کرتا ہے۔ میرے چند ایک جاننے والے تو یادداشت بھی کھو بیٹھے ہیں جو ضیا سے جنرل باجوہ تک بانی پی ٹی آئی کی سہولت کاری، ججوں کے مخصوص بنچوں کے فیصلے بھول گئے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت براہ راست دکھا کر انصاف اور وکالتیں تک ہوتی دکھا دیں۔ چودھری اعتزاز احسن انتہائی غیر متعلقہ بات کو درمیان میں لے آئے کہ رحم کی اپیل کا فیصلہ ہوئے بغیر پھانسی نہیں دی جا سکتی تھی۔ عدالت اور تمام لوگ ششدر ہو کر رہ گئے کہ بھٹو نے رحم کی اپیل کی تھی۔ ملک غلام جیلانی بہت ہی اہم شخصیت تھے ان کی دیرے داری، مہمان نوازی، تعلقات کی شہرت امریکہ کیا پینٹاگان تک تھی۔ تب کے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے جج اکچر وہاں پائے جاتے تھے۔ اعتزاز احسن بھی وہیں پائے جاتے۔ جنرل ضیا نے تو شاہ خالد سے مرزا اسلم بیگ کی موجودگی میں خانہ کعبہ میں وعدہ کیا تھا کہ میں بھٹو کو پھانسی نہیں دوں گا، مگر وعدی توڑ دیا۔ سوائے مٹھائی بانٹنے والے انسانی شکلوں بسنے والے گریٹ بھٹو کے مخالفین کے قوم کی 80 فیصد آبادی ان کی زندگی کے لیے اپیل اور دعائیں کر رہی تھی۔

چودھری اعتزاز احسن کے موقف اور دلائل کی تو جناب رضا ربانی نے اگلے ہی لمحے تائید کرنا مشکل قرار دے دی، پھر صاف صاف انکار کر دیا اور چودھری اعتزاز احسن کو بھی پاؤں پہ پلٹتے سنا دیکھا گیا۔ گویا انصاف ہی نہیں وکالتیں ہوتی ہوئی بھی دکھائی دیں۔ گریٹ بھٹو کے مقدمہ میں بنیادی فورم ٹرائل کورٹ آف سیشنز کے حق سے محروم کیا گیا۔ مجھے یاد ہے گریٹ بھٹو صاحب سپریم کورٹ میں تین دن ذاتی طور پر پیش ہوئے اور اپنا بیان دینا شروع کیا تو ایک جج نے کہا کہ مقدمہ پر فوکس کریں بین الاقوامی معلومات اور نقاط پر ہم آپ جتنا علم نہیں رکھتے۔ اس پر گریٹ بھٹو نے کہا کہ اگر کوئی مجھے کہے کہ میں سندھی نہیں، کوئی کہے میں سیاسی نہیں فلاں نہیں تو میں برادشت کر لوں گا مگر مولوی مشتاق نے فیصلے میں لکھا ’’بھٹو نام کا مسلمان ہے‘‘۔ ان کا بغض دیکھیں، انہوں نے میرے ایمان پر فیصلہ دیا، جس پر انوارالحق شیخ نے کہا ’’یہ الفاظ ہذف کر دیتے ہیں‘‘۔ یہ کیسی دیواریں تھیں وہ 4 جج بھٹو صاحب کیا کہہ رہے اور وہ کیا سمجھ رہے ہیں۔ وہ بغض اور عناد پر بات کر رہے تھے اور وہ فقرہ ہذف کر رہے تھے۔ گریٹ بھٹو نے سپریم کورٹ میں ایک واقعہ سنایا ’’ایک سوالی وڈیرے کے پاس گیا کہ میری مدد کریں۔ وڈیرے کی نیت نہیں تھی، اس نے کہا کہ میری روایت ہے کہ میں داڑھی پہ ہاتھ پھیرتا ہوں جتنے بال ہاتھ میں آئیں اتنی اشرفیاں سوالی کو دے دیتا ہوں اور اگر داڑھی کا کوئی بال ہاتھ میں نہیں آیا تو تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ سوالی نے کہا کہ وڈیرا سائیں یہ ہاتھ بھی آپ کا تھا اور داڑھی بھی آپ کی تھی۔ ذرا ایک مرتبہ ہاتھ مجھے پھیرنے دیں۔ اگر کوئی بال باقی رہ گیا تو پھر بات کریں۔‘‘ وہ کہنا چاہتے تھے عدالتیں بھی ضیا کی ہیں، فیصلے بھی ضیا کے ہیں، سازش بھی امریکی اور بین الاقوامی ہے، مجھے انصاف کہاں سے ملے گا۔ مجھے یاد ہے بھٹو صاحب نے ایک تقریر میں جو پی این اے والوں کو جواب دیا کہ میں ’’راسخ العقیدہ سنی مسلمان ہوں‘‘۔ یہ بیان میں نے خود پڑھا۔ ان کی پھانسی کے بعد جس طرح تصور کر لیا کہ خطنے ہوئے ہیں کہ نہیں، ابھی اور کیا چاہیے کہ گریٹ بھٹو سے بغض ہی نہیں، نفرت عداوت اور خوف بھی تھا جس کا عالم یہ کہ مقدمہ تو تاریخ کے دھبے دھونے کے لیے ہے۔ گریٹ بھٹو کون سا قبر سے اٹھ کر گھوڑے پر بیٹھ کر اپنا انتخابی نشان تلوار پکڑ کر آ جائیں گے، البتہ وہ زندہ ہیں کارناموں کی وجہ ان کے نام پر ان کی جماعت کو کئی بار حکومت ملی۔ گریٹ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد آتش فشاں رسالہ شائع ہوا تھا جس میں پاؤں کے نشانات قبر کی طرف جاتے دکھائے گئے جس کا مطلب تھا کہ بھٹو خود قبر میں اتر گئے، اسی لیے تو انہوں نے سپریم کورٹ میں کہا ’’اگر ہم مجرم تھے تو ہمارے پاس جیل میں مفاہمت کے لیے جرنیل کیوں آئے‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ساری رات میری بارک کی چھت پر بوٹوں والے پریڈ کرتے ہیں بس یہی چند دن ناغہ ہوا ہے کہ سو سکوں تاکہ عدالت میں فریش نظر آؤں“۔ سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد میرے بڑے بھائی پا جی اعظم بٹ صاحب کے دوست تھے، ایک زمانہ گواہ ہے ان کے ساتھ ہمارے گھریلو مراسم تھے۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ اگر میں بتا دوں کہ کیا مظالم تھے اور بھٹو صاحب سچ کہہ رہے تھے تو دنیا میں ضیا حکومت کی کیا عزت رہ جاتی۔ دراصل بھٹو صاحب کی قربانی ملک کے لیے تھی۔ اس کی وجوہات کے لیے کئی کتابیں درکار ہیں۔ اب اتنا ہے کہ کسی سیاست دان کو سزائے موت نہیں ہو گی ورنہ میاں نوازشریف کو بھی ہوتی، چونکہ سندھ سے لیڈر ابھی پھانسی لٹکایا مگر دفنایا نہیں گیا تو پنجاب کا لیڈر کیسے دفنا پاتے؟ گریٹ بھٹو صاحب موت کے لیے جیل گئے عمران اقتدار اور زندگی کے لیے جیل میں ہے۔ اس کو یقین ہے میں مضبوط ہوں چار پانچ بارکیں، ایک بیڈ روم دوسری ڈرائنگ تیسری جم، چوتھی باتھ روم اور یہ جیل کاٹی جا رہی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو تو شاید ناہید خان یا کوئی اور عبایوں میں خط چھپا کر لیا دیا کرتی تھیں اور موصوف آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف خط لکھ رہے ہیں۔ گریٹ بھٹو کے لوگ اپنے بدن جلا کر احتجاج کرتے اور جانیں قربان کرتے۔ اس کے لوگ نہتی پولیس پر پٹرول بم چلا رہے ہیں۔ محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو بازوؤں اور سر سے پکڑ کر پولیس وین میں پھینکا گیا، سر پر ڈنڈے مارے گئے، 22 ٹانکے لگے۔ سیدھے فائر کیے گئے اور علیمہ خان؟ دور نہ جائیں ماضی قریب میں نیازی نے جو ن لیگ کے ساتھ کیا، جو مریم کے ساتھ کیا، جو فریال تالپور کے ساتھ کیا سب کے سامنے ہے۔ سوال تو صرف یہ ہے کہ سیشن کورٹ فورم سے محروم رکھا، 109 یعنی اعانت جرم میں کسی کو سزائے موت ہوئی؟ 3/4 ججز یعنی ایک کی برتری پر انتہائی سزا دی جا سکتی تھی؟ کیا جج اقرار نہیں کر چکے کہ وہ زیر اثر تھے؟ پرویز مشرف کی ضمانت پر فیصلہ دیا گیا، اکبر بگٹی قتل میں کہ صدر کیا وہاں بندوق لیے کھڑے تھے؟ تو میں نے سوچا عوام کا لاڈلا اور گریٹ بھٹو کیا موقع پر شوٹر دکھائی دیئے۔ پہلے دن سے آج تک گریٹ بھٹو کے خلاف بغض ختم نہ ہو سکا مگر قاضی صاحب کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے انصاف ہی نہیں وکالتیں ہوتی ہوئی بھی دکھا دیں۔

تبصرے بند ہیں.