الیکشن کے بعد جو موجودہ حکومتی سیٹ اپ پر بہت سے خدشات اور یقینا تحفظات بھی ہوں گے لیکن یہ سمجھ لیں کہ اس میںسیاسی اور معاشی دونوں طرح کی مجبوریاں شامل ہیں ۔ آپ کو یاد ہے کہ عمران خان کو بھی 2018 میں اکانومی میں بہتری کے لئے لایا گیا تھا اور ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بہت زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا تھا کہ خان صاحب کے آتے ہی بیرونی سرمایہ کاروں کی لائنیں لگ جائیں گی اور مراد سعید کی وہ تقریر کہ جس میں وہ حکومت میں آنے کے بعد دوسرے دن دو سو ارب ڈالر لا کر ان میں سے ایک سو ارب ڈالر قرض والوں کے منہ پر مار رہے تھے لیکن ما سوائے ملک و قوم پر تاریخ کا سب سے زیادہ قرض چڑھنے کے اور کچھ نہیں ہوا۔ ایک بات تو بڑی واضح ہے کہ اس وقت پاکستان کو جن معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اس میں کسی بھی ایسی حکومت کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ جو ملک میں سیاسی اتھل پتھل کا سبب بنے خیر بات اگر اکانومی کی کریں تو آپ یہ دیکھیں کہ ابھی چاروں اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے ارکان نے حلف اٹھایا ہے تو عالمی سطح پر سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے اور ان کی دلچسپی پاکستان میں بڑھ گئی ہے اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ عالمی سطح پر پاکستانی ڈالر بانڈ بہتر قرار دیا جا رہا ہے اور بنک آف امریکہ نے پاکستان کے ڈالر بانڈ کا درجہ مارکیٹ ویٹ سے بڑھا کر ہیوی ویٹ کر دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بلوم برگ کے مطابق پاکستان کی ریٹنگ جو گذشتہ ایک سال سے کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی بلکہ دیوالیہ ہونے کی تلوار سر پر لٹک رہی تھی اس میں بہتری کے واضح امکانات ہیں اور اپریل میں بروقت ادائیگی کے بعد ان بانڈز کی خریداری مزید بڑھے گی اور آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے بعد مزید بہتری کے امکانات ہیں ۔ اب آپ کو اندازہ ہوا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط کیوں لکھا گیا ہے۔
خط میں آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر 30% قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے آڈٹ کو یقینی بنایا اور پاکستان کو مالی سہولت دینے سے پہلے گڈ گورنس سے متعلق شرائط رکھے ۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف تحقیقاتی ادارے کا کام کرے ۔ کوئی بھی اہل شعور ان مطالبات کی حمایت کیسے کر سکتا ہے ۔عمران خان نے یہی کام 2022 میں کیا تھا اور اس وقت بھی اپنے تھوڑے سے مفاد کی خاطر ملک و قوم کے مفاد کو دائو پر لگا یا گیا اور آپ کو یاد ہو گا کہ جب تک ان تمام
جماعتوں کی سیاست کا بیڑا غرق نہیں ہو گیا تھا اس وقت تک آئی ایم ایف نے معاہدہ نہیں کیا تھا ۔اس دوران تمام عرصہ پاکستان پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہی تھی ۔ اب بھی پاکستان نے آنے والے دنوں میں بین الاقوامی سطح پر ادائیگیاں کرنا ہیں جن میں چین نے تو دو ارب ڈالر کو رول اوور کر دیا ہے لیکن اور بھی ادائیگیاں ہیں ۔ دوسرا آئی ایم ایف سے ڈالر ملنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں آپ کی اکانومی اور آپ پر اعتماد بڑھتا ہے ۔ خان صاحب کے دور میں تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لیا گیا ۔ کیا اس وقت کی حزب اختلاف نے آئی ایم ایف یا بین الاقوامی سطح پر 2018کے انتخابات کا کسی سے واویلا کیا تھا کہ یہ توآر او کے الیکشن تھے یا خان صاحب ایک دھاندلی زدہ الیکشن سے وزیر اعظم بنے ہیں ۔ خان صاحب دوسروں کے لئے تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ ان کے دور کی حزب اختلاف سے اگر کوئی غیر ملکی سفیر بھی ملاقات کر لے تو ان پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا فتویٰ صادر کر دیتے ہیں لیکن خود ان کے لئے ہر بات جائز اور حلال ہو جاتی ہے ۔ ہمیں سوچنا چاہئے کہ اگر آئی ایم ایف سے قرض نہیں ملتا اور ملک خدا نخواستہ دیوالیہ ہونے کی طرف جاتا ہے تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہو گا اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ تحریک انصاف کو مزید عوامی مقبولیت مل جائے لیکن ملک اور قوم کا جو نقصان ہو گا وہ کیسے پورا ہو گا۔
موجودہ سیٹ اپ کی سب سے زیادہ ضرورت معاشی استحکام کے لئے ہے اس لئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر کبھی معاشی استحکام نہیں آتا۔ سوچیں کہ اگر موجودہ سیٹ اپ کے بجائے عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوتے تو پھر کیا ہوتا۔ 2018 سے پہلے مسلم لیگ نواز کی حکومت تھی لیکن انھوں نے عمران خان کے 2014 کے دھرنوں کے باوجود بھی ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی بلکہ وہ تو اس قابل ہی نہیں تھی کہ عمران خان کے خلاف کچھ کر سکتی اس کے بر عکس وڈے میاں صاحب کو نا اہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد جیسے ہی خان صاحب اقتدار میں آتے ہیں تو نواز لیگ کی آدھی سے زیادہ قیادت جیل میں نظر آتی ہے اور یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا ۔اس وقت ان دونوں بڑی جماعتوں اور مولانا فضل الرحمن کے سوا خان صاحب کی کسی سے کوئی مخالفت نہیں تھی اور باقی تمام قابل ذکر جماعتیں ان کی اتحادی تھیں۔ اب ان میں سے بیشتر جماعتیں پی ڈی ایم کی حکومت میں جا کر خان صاحب کی گڈ بک سے خارج ہو چکی ہیں اور ان کا اسٹیٹس بھی خان صاحب کی نظر میں نواز لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی جیسا ہے لہٰذا اب صورت حال اس سے بھی کہیں زیادہ مخدوش ہو چکی ہے اس لئے کہ اب مخالفت کا دائرہ کار سیاست اور صحافت سے نکل کر ریاستی اداروں تک پھیل چکا ہے۔ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ سب کو پتا ہے ۔ اس سارے منظر نامہ میں اگر عمران خان وزیر اعظم بن جاتے تو سوچیں کہ کیا صورت حال ہوتی اور سیاست دانوں کو تو چھوڑ دیں سوچیں کہ کہاں کہاں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی اور ملک میں کس قدر انارکی پھیلتی اور یہاں تک کہ ملک خدا نخواستہ اگر دیوالیہ بھی ہو جاتا تو عمران خان نے حسب سابق اس کی ساری ذمہ داری اپنے مخالفین پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جانا تھا لیکن ناقابل تلافی نقصان ملک و قوم کا ہو جانا تھا ۔
تبصرے بند ہیں.