مایوسی کے سائے

31

پنجاب، سندھ، کے پی اور بلوچستان صوبائی اسمبلیوں میں تقاریب حلف وفاداریاں اور حکومت سازی کے عمل کے اجرا کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی ممبران کے حلف اٹھانے کے بعد سپیکر ڈپٹی سپیکر اورقائدایوان کے انتخابات شروع ہو چکے ہیں الیکشن 2024 کے انعقاد کے بارے میں شکوک وشبہات کی ایک پاور فل مہم نے انتخابی عمل کے دوران گہما گہمی کو کمزور رکھا لوگوں میں وہ زور شور اور بھاگ دوڑ دیکھے میں نہیں آئی۔ منفی پروپیگنڈے کے زیر اثر معاملات میں گرما گرمی پیدا نہ ہو سکی۔ انتخابی عمل، پولنگ مجموعی طور پر پر امن اور نارمل رہی لوگ بڑے منظم اور پر سکون انداز میں پولنگ سٹیشنوں تک پہنچے اور اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دیا۔ دشمن تھوڑی دیر کے لئے نامراد ہوگئے جو انتخابات ہونے کے حوالے سے شک و شہبات پھیلا رہے تھے انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ ریاست پاکستان نے ایک آئینی فریضہ پورا کر دکھایا۔ گنتی اور نتائج کے عمل کے دوران معاملات میں بگاڑ نظر آنے لگا۔ انتخابات کے اس مرحلے پر معاملات حقیقتاً گڑبڑ نظر آنے لگے۔ نتائج پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور یہ کچھ اسطرح ہوا ہے کہ جیتنے والے بھی نوحہ کناں نظر آئے۔ ویسے اب معاملات کچھ آگے بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ صوبائی اسمبلیاں اور قوی اسمبلی فعالیت کی طرف بڑھتی جارہی ہیں لیکن انتخابی نتائج نہ ماننے والے بھی خوب فعال نظر آرہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق پیر پگاڑا اور ایسی قد آور سیاسی شخصیات انتخابات کو جعلی قرار دے رہی ہیں عمران خان اور ہمنوا تو بلند آہنگ میں شور شرابا کر رہے ہیں آئی ایم ایف کو خط لکھا جا چکا ہے کہ کیونکہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اسلئے دھاندلی کی تحقیقات کی ہونی چاہئے اور پاکستان کو قرض بھی نہیں دینا چاہے کیونکہ جعلی حکومت اسے استعمال کرنے کی مجاز بھی نہیں ہے اور صلاحیت بھی نہیں رکھتی ہے۔ چیف الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف بھی محاذ گرم کردیا گیا ہے، عمران خان اور ہم نواپہلے کی طرح پاکستان کو دشمن طرز فکر وعمل کامظاہرہ کر رہے ہیں۔

انکی سوچی سمجھی پالیسی ہے کہ موجودہ نظام چل نہ سکے عوام کو ریلیف نہ مل سکے مسائل میں اضافہ ہو،حکومت ناکامی ہو، افراتفری پھیلے اور عمران خان و ہمنوا ایک بار پھر بھر پور قوت کے ساتھ نہ صرف سیاسی منظر پر چھا جائیں بلکہ اقتدار پر قابضین ہو جائیں۔ ویسے مجموعی نقطہ نظر بھی ایسا ہی ہے کہ عوام جس کو حق نمائندگی دیں اسے اقتدار میں ہونا چاہئے۔ بادی النظر میں تو یہ درست معلوم ہوتا ہے جمہوریت کا تقاضا بھی یہی ہے کچھ ایسا ہی 1971 کے انتخابات میں بھی ہواتھا شیخ مجیب الرحمان ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود مشرقی پاکستان میں قطعی اکثریت کے ساتھ انتخاب جیت گئے تھے وزارت عظمیٰ ان کا حق تھا لیکن انہیں نہیں دیا گیا۔ ملٹری ایکشن کے نتیجے میں ہندوستان کو فوجی مداخلت کا جواز ملا اور اس نے ایجی ٹیشن اور مشرقی پاکستان کو ہمارے سے کاٹ پھینکا۔ پاکستان سمٹ گیا۔ اب بھی ایسا ہی ہوتانظر آرہا ہے۔ عمران خان ایک باغی کے طور پر جیل میں ہیں لیکن ایک پاپولر لیڈر کے طور پر سیاسی میدان کے اہم کھلاڑی بن چکے ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والی سیاسی شخصیات رواروی میں انکے حق نمائندگی کی حمایت کر رہی ہیں ایسی سیاسی جماعتیں جن کی اسمبلی میں ایک بھی سیٹ نہیں ہے وہ بھی جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپ رہی ہیں۔ دوسری طرف معروف سیاسی جماعتیں اور شخصیات سیاسی میدان میں کمزور ہوتی نظر آرہی ہیں۔ عمران خان نے اپنے نفرت انگیز اور منفی بیانیے کے ذریعے نہ صرف عوام میں مقبولیت حاصل کررکھی، نو جوانوں کو اپنی شخصیت کے سحر میں گرفتار کر رکھا ہے بلکہ مخالفین کا ناطقہ بھی بندکررکھا ہے روایتی اور جغادری سیاست دان، کمزور ہو تے نظر آرہے ہیں اور عمران خان کے منفی لیکن موثر بیانیے کے بالمقابل، کوئی سیاسی جماعت ایسابیا نیہ تشکیل دینے میں کا میاب نہیں ہو سکی ہے جو ووٹرز کو اپنی طرف کھینچ سکے۔ الیکشن 2024 کے نتائج نے بھی یہ بات ثابت کردی ہے کہ عمران خان ایک پاپولر لیڈر ہے اسے عوام میں پذیرائی حاصل ہے اور وہ نظام کے خلاف اور اس نظام کے پروردہ اور مفاد یافتہ طبقات کے خلاف شمشیر برہنہ ہے۔

عمران خان نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور حکمرانی کے دوران اپنے مخالفوں کے خلاف جس طرح کارروائیاں کیں انہیں دیوار سے لگایا، انہیں بے توقیر کیا وہ ایک تاریخ ہے اور پھر حکومت سے نکالے جانے کے بعد اس نے جس منفی لیکن موثر طرز فکر و عمل کا مظاہرہ کیا وہ بڑا خطرناک ثابت ہوا ہے عمران خان نظام کے لئے بھی ایک خطرناک عامل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ الیکشن 2024 کے نتیجے میں جس سیاسی وحدت کی توقع کی جا رہی تھی۔ سیاسی ہم آہنگی کودیکھا جا رہا تھا وہ تو ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہی ہے۔ انتخابات نے سیاسی افتراق و انتشار کو اور بھی بڑھاوا دیا ہے انتخابات سے پہلے، مزاحمتی سیاست میں عمران خان اکیلے ہی کھڑے نظر آتے تھے لیکن انتخابات کے بعد انکے ساتھ بہت سے سیاستدان کھڑے ہو چکے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ایک ایجی ٹیشن کا سماں بنا ہوا ہے۔ عمران خان للکار رہا ہے، پھنکار رہا ہے کھل کھلا کر نظام کو ناکام بنانے اور گرانے کی کاوشیں کررہا ہے۔ دوسری طرف سیاستدان ہیں پیپلز پارٹی، ن لیگ، ایم کیو ایم اور دیگر سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہیں جو اقتدار کی بندر بانٹ اور توڑ پھوڑ میں مصروف ہیں۔ یہ لوگ جس طرح معروف سیاست ہیں جس طرح اقتدار کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ دست بہ دست اور شیر و شکر ہوتے نظر آرہے ہیں اس سے عامتہ الناس میں کوئی بہت اچھا تاثر پیدا نہیں ہو رہا ہے۔ عمران خان کے تابڑ توڑ حملے اپنی وقعت بڑھاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کسی حکمران سیاسی جماعت کے پاس عوام کو ریلیف دینے اور معاشی استحکام کا کوئی پلان نہیں ہے قرض کی ادائیگی اور آئی ایم ایف کے چنگل سے نجات پانے کا کوئی شارٹ ٹرم یا لانگ ٹرم پلان نہیں ہے۔ سیاستدان اپنی کشش کھورہے ہیں نواز شریف جسطرح سیاسی منظر سے محو ہو چکے ہیں وہ بھی پریشان کن بات ہے انتخابات سے قیل ایک تاثر یہ بھی تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں نواز شریف بر سر اقتدار آئیں گے اور قوم کو معاشی بحران سے نکالنے کی سبیل کریں گے لیکن انتخابی نتائج اور اپنوں کی سیاسی ریشہ دوانیوں کے باعث وہ فعال سیاسی منظر سے بھی غائب نظر آرہے ہیں۔

سیاسی منظر دھندلا ہے افراتفری بڑھ رہی ہے عمران خان اور انکے ہمنواٹھونک بجا کر میدان میں آچکے ہیں انہوں نے اپنے منفی سیاسی رویوں سے توبہ نہیں کی ہے بلکہ وہ ٹکراؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کا اعلان بھی کر چکے ہیں 9مئی کے بعد انہیں جو قدم پیچھے ہٹانا پڑے تھے اور اب آگے بڑھاتے نظر آ رہے ہیں ڈر خوف کی فضا سے نکل رہے ہیں۔ ففتھ جنریشن وار اگلا قدم اٹھا چکی ہے تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ کیونکہ حکومت ڈلیور نہیں کر پائے گی اور ایک دو سال میں گر جائے گی۔ ویسے حالات بھی ایسے ہی ہیں ہماری معاشی صورتحال قطعاً درست نہیں ہے اورعوام کاکچومر نکل چکا ہے معیشت کو ٹھیک کرنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا جا رہاہے۔اس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ قرضوں کا بو جھ بڑ ھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ بجلی گیس اور پیٹرول کی قیمتیں کسی قائدے کلیے کے بغیر بے لگام ہو کر بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں عام اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ نئی حکومت کو سب سے بڑے بحران یعنی رمضان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بحران اسلئے کہ رمضان ہمارے ہاں ویسے ہی مہنگائی کا طوفان لاتا ہے جاری حالات میں طوفان تو پہلے ہی مچاہواہے اسمیں اضافہ اسے سونامی میں بدل دے گا اور عوام اس میں فنا ہو سکتے ہیں۔ حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں آ رہی ہے مارکیٹ کمیٹیوں کا جو نظام تھا وہ ہمارے سابقہ حکمران پہلے ہی تباہ کر چکے ہیں۔ عوام کی شنوائی ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام جاری ہے۔ ناکامی و نامرادی کا تاثر نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ پھیلایا جا رہا ہے۔ باقی اللہ خیر کرے۔

تبصرے بند ہیں.