دوست دوست نہ رہا

184

ایک پڑھے لکھے، دھیمے لب و لہجے کے نوجوان امیر بلاج ٹیپو کے قتل کی کچھ مذید تفصیلات سامنے آئی ہیں، اس قتل کی انکوائری سی آئی اے لاہور پولیس کے پاس ہے۔ اس کے سربراہ ایک دلبر و دلیر پولیس افسر کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت علی ملک ہیں۔ جہاں وہ ایک بہت اچھے مقرر، ادیب اور دانشور ہیں وہاں انہیں اپنے پروفیشن میں بھی کمالات حاصل ہیں۔ وہ آج کل تھوڑا کم بولتے ہیں جبکہ ہم انہیں زیادہ سننا چاہتے ہیں۔ آوازوں کی آلودگی میں کوئی آواز تو ایسی ہو جو دل کو دلیری، سکون اور اطمینان دے، امیر بلاج ٹیپو مجھے اپنے بیٹوں کی طرح عزیز تھا، کسی محفل میں اس سے کبھی ملاقات ہو جاتی وہ کبھی انکل کبھی بھائی جان کہہ کے مجھے مخاطب کرتا، اس نوجوان میں بڑی عاجزی تھی، میں عاجزی و انکساری پسند کرتا ہوں مگر اس کی عاجزی سے مجھے ڈر لگتا تھا۔ میں سوچتا تھا کسی روز یہ بغیر سکیورٹی گارڈز کے اپنے دشمن کے پاس نہ چلا جائے، جا کے اْس سے کہے ’’انکل میں آگیا ہوں آپ نے جو بدلہ مجھ سے لینا ہے لے لیں، خاص طور پر اس بات کا بدلہ مجھ سے ضرور لیں میں اپنی عدالتوں سے انصاف حاصل نہیں کر سکا، اور اس بات کا بدلہ بھی ضرور لیں میں پڑھ لکھ گیا ہوں اور اب کسی سے دشمنی نہیں رکھنا چاہتا ‘‘ اسے دوستیاں بڑی پسند تھیں، ہر وقت دوستوں کی محفلوں میں رہنا اس کا اسی طرح کا شوق تھا جس طرح اسے اچھی گاڑیاں رکھنے کا شوق تھا اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا اچھا کھانے پینے کا شوق تھا، اور اچھی خوشبوؤں کا شوق تھا ، وہ خود ایک ’’خوشبو ‘‘ کی طرح تھا، ’’وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا، مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا ‘‘ مسئلہ اب اس کے بچوں کا ہے جو بقیہ عمر کے لئے باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے، مسئلہ اب اس کی بیوہ کا ہے جو بقیہ عمر کے لئے شوہر کی محبت سے محروم ہوگئی، مسئلہ اب اس کے بھائیوں کا ہے جنہیں اس کی موجودگی میں یتیمی کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا، مسئلہ اب اس کی ماں کا ہے جس کی دنیا دوسری بار اجڑی ،پہلی بار تب اجڑی تھی جب اس کا سہاگ اجڑا تھا، اور مسئلہ اب اس کے ان مخلص دوستوں کا ہے جو اسے دیکھ دیکھ کے جیتے تھے، اگر اس کا ایک یار’’یار مار‘‘ نکل آیا اس کا مطلب یہ نہیں اس کے باقی یار بھی ایسے تھے، اس کے قتل کا سوگ پوری دنیا میں منایا گیا ، مجھے لگا پوری دنیا اس کی دوست ہے، جہاں تک اس کے ’’یار مار‘‘ احسن شاہ کا تعلق ہے مجھے ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا کوئی شخص اس قدر’’بد نسلا‘‘ ہو سکتا ہے وہ اپنے ایک ایسے دوست کے قتل میں سہولت کار بنے جو دوست اسے اپنے وجود کا حصہ سمجھتا تھا، وہ اپنے بھائیوں کی بات ٹال دیتا مگر احسن شاہ کی کہی ہوئی ہر بات اس کے لئے’’حرف آخر‘‘ ہوتا تھا، اسے کیا خبر تھی ایک ’’سانپ‘‘ بلکہ ایک سور اس نے پالا ہوا ہے، ایک سانپ بھی اگر اس نے پالا ہوتا وہ بھی اسے اس طرح ڈنک نہ مارتا جس طرح اس کی سانسوں میں بسنے والے اس کے یار نے اسے مارا، یقین کریں میں ابھی تک اس یقین میں مبتلا ہوں ہماری پولیس شاید اپنے کسی روایتی انداز کے مطابق اس قتل کو کوئی اور رنگ دینا چاہتی ہے، اس کے باوجود کہ سی آئی اے لاہور پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے مجھے کچھ ایسی تفصیلات (آف دی ریکارڈ) بتائیں جو ابھی تک کوئی وی لاگر سامنے نہیں لا سکا، جو دل کو دہلا دینے والی ہیں جس میں سارے شواہد ہیں کہ گھٹیا پن کے کس پرلے درجے تک وہ پہنچا، میں اب بھی یہی سوچتا ہوں ہماری پولیس کسی غلط فہمی کا شکار ہے جو جلد دور ہو جائے گی، مجھے اب بھی یہی لگتا ہے بہت جلد امیر بلاج ٹیپو کسی بڑے افسر کے خواب میں آ کر کہے گا ’’میرا یار ایسا نہیں، اسے چھوڑ دیں‘‘، پولیس اسے شواہد دکھائے گی، وہ پھر بھی یہی کہے گا ’’آپ کے شواہد غلط ہیں میرا یار ٹھیک ہے‘‘۔ دونوں کی دوستی کا یہ عالم تھا میں سوچتا ہوں قبر میں امیر بلاج ٹیپو کی جب آنکھ کھلی ہوگی سب سے پہلے اپنے ارد گرد اس نے احسن شاہ کو ہی ڈْھونڈا ہوگا ، اس احسن شاہ کو جو اس کے قتل میں سہولت کاری کر رہا تھا، وہ عمرے پر بھی ایک پلان کے مطابق گیا اچانک گیا، ایک طرف وہ خانہ کعبہ میں بیٹھ کر اپنے دوست امیر بلاج ٹیپو کو لمبی زندگی کی دعاؤں کی کالز و میسجز کر رہا تھا دوسری طرف اس کی زندگی ختم کرنے کی سہولت کاری کر رہا تھا، ایک طرف وہ مدینہ منورہ میں روضہ رسولؐ میں بیٹھ کر اپنے دوست امیر بلاج ٹیپو کی ’’حاضریاں‘‘ کروا رہا تھا دوسری طرف اس کے دشمنوں کے پاس حاضریاں لگوا رہا تھا، انہیں انفارمیشن دے رہا تھا کہ کب امیر بلاج ٹیپو نے شادی پر پہنچنا ہے اور اس کے بعد کہاں کہاں جانا ہے تاکہ دشمن اسے مارنے کی منصوبہ بندی میں کسی صورت میں ناکام نہ رہے، اف خدایا، مجھے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کوئی شخص یہ سازش خانہ کعبہ اور روضہ رسولؐ میں بیٹھ کے کر سکتا ہے، فرمایا گیا ’’ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘، گویا انسانیت کے قتل کی سازش ایک بدبخت نے وہاں بیٹھ کے کی جو انسانیت سے محبت کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔

امیر بلاج ٹیپو کے قاتل کے گرفتار باورچی علی اصغر نے انکشاف کیا ’’امیر بلاج ٹیپو کا ایک دوست قاتلوں سے ملاقاتیں کرتا تھا ، اس نے آخری ملاقات 6 فروری کو کی تھی، اس باورچی سے پوچھا گیا ‘‘اگر اس کے دوستوں کی تمہیں تصویریں دکھائی جائیں تم اس دوست کو پہچان لو گے ؟‘‘، اس نے کہا ’’بالکل پہچان لوں گا‘‘، اس کے بعد پولیس نے مقتول امیر بلاج ٹیپو کے بھائی سے کہا ’’مقتول کے سارے دوستوں کی تصویریں بھجوائی جائیں ‘‘، وہ سب تصویریں اسے دکھائی گئیں، اس نے کہا ’’ان میں وہ دوست نہیں ہے‘‘، پولیس نے مقتول کے بھائی سے پوچھا ’’کوئی دوست رہ تو نہیں گیا جس کی تصویر آپ نے نہ بھجوائی ہو ؟‘‘، اس نے کہا ’’کوئی نہیں رہ گیا، البتہ ایک احسن شاہ ہے جو اس کا دوست ہے مگر وہ ہمارا فیملی ممبر ہے اس پر شک کی کوئی گنجائش نہیں بنتی‘‘، پولیس نے کہا ’’آپ ٹھیک کہتے ہوں گے مگر اس کی تصویر بھیجنے میں کیا حرج ہے ؟‘‘، اس کی تصویر جب باورچی نے دیکھی اس نے فوراً کہا ’’یہی وہ دوست ہے جو پچھلے کچھ عرصے سے قاتلوں سے رابطے میں تھا اور ملک سہیل نامی ایک شخص کے ہمراہ ان سے ملاقاتیں کر رہا تھا ‘‘، یقین کریں یہ کالم لکھتے ہوئے لفظ میرا ساتھ نہیں دے رہے، میرا دل ویران ہے ، میرا جی چاہتا ہے سب دوستوں سے خود کو پرے کر کے اکیلا کسی جگہ جا کر ماتم کروں، سب دوست احسن شاہ جیسے نہیں ہوتے مگر جو کچھ اس بدنسلے نے کیا دوستی کے رشتے سے اعتبار ہی اٹھ گیا، کوئی دوست اگر سازش اور کمینگی کے آخری مقام پر پہنچ جائے اس سے وہ دشمن ہزار درجے بہتر ہے جو سینے پر وار کرتا ہے پیٹھ پیچھے چھرا نہیں گھونپتا، دوستوں پر مان اور اعتبار اب کون کرے گا، ہم کہا کرتے تھے’’یہ دعا مت کرو دشمن مر جائے یہ دعا کرو دوست زندہ رہے‘‘، ایک بار کسی نے ایک انٹرویو میں مجھ سے پوچھا تھا ’’آپ کو دوست اور بھائی میں کون سا رشتہ پسند ہے ؟‘‘، میں نے جواب دیا ’’مجھے دوستی کا رشتہ پسند ہے کیونکہ دوست تو بندہ خود بناتا ہے جبکہ بھائی بننے بنائے مل جاتے ہیں ‘‘، اب اگر کسی نے مجھ سے پوچھا میرا جواب مختلف ہوگا ، احسن شاہ نے صرف اپنے دوست کو قتل نہیں کروایا دوستی کے رشتے کے اعتبار کو قتل کروایا ہے ، اب کون اپنے دوستوں پر اعتبار کرے گا ؟ مان کرے گا ؟ کوئی پوچھے تو سہی اس ظالم سے ،اتنا دکھ تو لوگوں کو امیر بلاج ٹیپو کی موت پر نہیں ہوا جتنا اس کے ایک ’’دوست ‘‘ کی بیوفائی و بے حیائی پر ہوا ۔
دوست دوست نہ رہا پیار پیار نہ رہا
زندگی ہمیں تیرا اعتبارنہ رہا

تبصرے بند ہیں.