عمران کا قد بھی تو بڑا ہو!

55

چکوال سے آزاد امیدوار کی حیثیت میں پی ٹی آئی کے ہارنے والے کالم نگار (ن) لیگ کے ہاتھوں دوسری مرتبہ شکست پر رنج و غم سے آلودہ غصہ کا اظہار نہ کریں تو اور کیا کریں، موصوف کو زندگی میں ایک بار پھر اسمبلی پہنچنیکا شرف حاصل ہوا۔ دلچسپ بات ہے وہ بھی 1997ء کی پنجاب اسمبلی میں (ن) لیگ کے ٹکٹ پر ، یہ بھی حقیقت ہے رات کے ’’مشاغل‘‘ کے آمرات دن میں کچھ نہ کچھ اثر دکھاتے ہیں اس استدلال کے قربان جایئے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر اس حلے سے آپ خود جیت جائیں تو الیکشن منصفانہ قرار پائے۔ اسی حلقے سے اسی (ن) لیگ کے ٹکٹ پر دوسرا جیت جائے تو الیکشن میں دھاندلی ، اور ’’رات کے سوداگروں‘‘ کا کمال ، کالم نگار نے جو بزعم خود جمہوریت ، انسانی حقوق اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں۔ شجر جمہوریت کی جڑیں کھودنے کے لئے ان کی پارٹی پارلیمینٹ میں کیا کردار ادا کرنے کے عزائم رکھتی ہے موصوف نے خود اس کی نشاندہی ان الفاظ میں کر دی ہے۔ ’’ اب اور اس جماعت (پی ٹی آئی) کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے لیکن نہ چاہتے ہوئے اور رات کے جلوئوں کے ہوتے ہوئے بھی قومی و پنجاب اسمبلی دونوں ہیں اچھی خاصی نشستیں جیت لی ہیں اب کیا وہ آسانی سے اگلوں کو جینے دیں گے۔ تمام مہربانیوں کے باوجود 100 کے قریب نشستیں قومی اسمبلی میں ہیں یعنی تگڑی اور پرجوش اپوزیشن ہو گی۔ جناب شہباز شریف کو سمجھ آ جائے گی۔حکومت کیسے کرنی ہے۔

ظاہر ہے علماء اتحاد کونسل میں (پی ٹی آئی کے سابق وابستگان) اپوزیشن میں رہ کر یہی کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام نے بشمول چیئرمین صاحب حکومت میں رہ کر بھی یہی کچھ کیا تھا یعنی کسی کارکردگی کی بجائے ’’چور ، ڈاکو‘‘ کا غل غپاڑہ کرنے میں ہی پونے چار سال گزار دیئے۔البتہ ذہن میں یہ سوال ضرور بلبلاتا ہے کہ مہنگائی، بیروز گاری، گیس اور بجلی کے بلوں سمیت وہ کون سا ریلیف ہے جو پاکستان کے غریبوں کو ملا۔ 1947ء سے 2024ء تک سب سے زیادہ قرضے لے کر عوام کو اس سے چنگل میں پھنسانے والی عمران حکومت کے دور میں کون سے ترقیاتی منصوبے ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی میں۔ اضافہ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اس کے باوجود اگر پاکستانیوں کی بڑی تعداد اسے ووٹ سے نوازتی ہے تو ان کا جمہوری حق تو ہے لیکن حقیقت پسندانہ اپروچ تو سوالیہ نشان ضرور بنے گی۔ اٹھارہ سال سے پچیس سال کے نئے ووٹر جن کی اکثریت عمران کے سحر میں مبتلا کر دی گئی ہے اس سحر کے زیر اثر جذبات کے حصار سے خود کو چند لمحے نکال کر یہ جائزہ لیں کہ عمران کے پونے چار سالہ دور حکومت میں صرف دو ، تین کام کون سے ایسے ہوئے جن سے پاکستان اور پاکستانی قوم کو حقیقی فائدہ پہنچا ہے۔ ان کاموں کے حوالے سے اگر میری بھی رہنمائی کر دی جائے تو مہربانی ہو گی۔

میرے ضلع بھکر سے متصل ضلع سے تعلق رکھنے والے دانشور کالم نگار نے بھی نواز شریف کو قد بڑا کرنے کا ’’ہنر مندانہ‘‘ مشورہ دیا ہے۔ ’’وہ شکست مان کر اپنا قد بڑا کر سکتے تھے‘‘ دوسری بات یہ کی ’’ اور کہا جا رہا ہے لاہور والی سیٹ انہیں جتوائی گئی تا کہ انہیں پیشمانی نہ ہو کہ لاہور ہی نے انہیں ریجکٹ کر دیا‘‘ یہ 2024ء کے انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی کے پروپیگنڈہ کو آگے بڑھانے کے مترادف ہے کیونکہ ’’کہا جا رہے ہے ‘‘ سے بات واضح ہے کہ یہ بات کون کہہ رہا ہے۔ کالم نگار جتنے باخبر ہیں اس لئے یہ تو نہیں سمجھا جا سکتا کہ وہ تاریخ کی اس گواہی سے بے خبر ہیں۔ نواز شریف اپنے بڑے پن کا کھلا مظاہرہ کر چکے ہیں ۔ 2013ء کے الیکشن میں (ن) لیگ اور جمعیت علماء اسلام نے سادہ اکثریت سے زیادہ نشستیں حاصل کر لی تھیں مولانا فضل الرحمن گواہی کے لئے بفضل تعالیٰ حیات ہیں خدا عمر خضرؑ عطا کرے کہ ان کے بار بار اصرار کے باوجود نواز شریف نے کہا کہ کے پی کے میں عمران نے سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے۔ انہیں حکومت بنانے کا موقع دے دیا جائے اس طرح کے پی کے میں پی ٹی آئی کی حکومت کا قیام ممکن ہو سکا تھا۔ اس پر مولانا کا اظہار ناراضگی بھی آن ریکارڈ ہے۔ چلیں قومی اسمبلی میں نہ سہی (جبکہ عملاً اکثریت ہے) پنجاب اسمبلی میں تو (ن) لیگ کو واضح اکثریت حاصل ہوئی ہے۔ کالم نگار اپنے ممدوع کو بھی پنجاب میں (ن) لیگ کی فتح تسلیم کر کے قد میں اضافے کا مشورہ دیدیں۔

بہت سیدھا فارمولہ ہے کسی فرد قوم ، ادارے یا حکومت کی ماضی کی کارکردگی اس کے مستقبل کی کارکردگی کو اعتبار کی مالا پہناتی ہے۔ پی ٹی آئی کی پونے چار سال کی حکومت کے ماتھے پر کامیابی کا جو ’’جھومر‘‘ سجا ہوا ہے یہ اہلیت کا وزن کرنے کے لئے کافی ہونا چاہئے ۔

ویسے الیکشن سے پہلے ہی ’’کیا کرنا ہے‘‘ اس کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی اور گلی محلوں کی سطح تک کارکنوں کو سمجھا دیا گیا چنانچہ ملک بھر میں پی ٹی آئی زیادہ تر حامی وکلاء کی جانب سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کا جو واویلا کیا جا رہا ہے کیا یہ ’’دھاندلی‘‘ کے نتیجے میں اچانک ردعمل ہے یا ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت سوچی سمجھی کارروائی ہے ۔ 8 فروری کے الیکشن سے قبل 4 جنوری 2024ء کو ’’وکلا ء گردی ، ذہنی اختراع یا حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے براہ راست کا ایک اقتباس چشم کشا ہے ۔ جو یوں ہے۔

کچھ عرصہ قبل شاہ فیصل ٹائون کراچی کے وسیم صدیقی سے تعارف ہوا۔ ان کے ڈرائنگ روم میں ان کے بائیس تیئس سالہ کزن شکیل سے بھی بات چیت ہوئی۔ وسیم صدیقی (آئی ٹی انجینئر) ایم کیو ایم کے پرجوش حامی ہیں ، ہنستے ہوئے چٹکی لی یہ (شکیل) پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا کا ورکر ہے ۔ میری تنخواہ سے کہیں زیادہ ہاتھ مارتا ہے۔ شکیل نے کہا ’’دیکھیں ہمارے ستر اسی فیصد لوگوں کو استحکام پاکستان پارٹی میں بھیج دیا گیا ہے۔ خاصے روپوش ہو گئے ہیں۔ باقی کی گرفتاریوں کا خدشہ ہے۔ اس کا مطلب ہے ہمیں الیکشن سے آئوٹ کر دیا جائے گا۔ مگر ہم نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں اگر ہم نہیں تو تم بھی نہیں ، فرض کیا ہمارے لوگ نہیں جیتیں گے مگر وہ دوسروں کی جیت خراب تو کر سکتے ہیں ۔ تصور کیا جائے کراچی سے پشاور تک ہر پولنگ سٹیشن سے دھاندلی کا شور اٹھے، بائیکاٹ کی خبریں چلتیں ، احتجاجی مظاہرے شروع ہو جائیں۔ عدالتوں میں نتائج رکوانے کے لئے سٹے آرڈرز کی درخواستیں دائر کر دی جائیں۔ الیکشن کمیشن اور ٹربیونلز میں عذر داریاں داخل کر دی جائیں تو ایسے الیکشن کو کون صحیح مانے گا ۔ اس کام کے لئے وکیل امیدوار سے بہتر کون ہو سکتا ہے‘‘۔ یہ پی ٹی آئی کا واقعی ’’وکلاء گردی‘‘ کا منصوبہ ہے یا شکیل جیسوں کے ذہن کی اختراع ہے جب تک ایسا کچھ ہو نہ جائے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تا ہم یہ قابل غور ضرور ہے‘‘

الیکشن کے بعد ملکی منظر نامے پر نظر ڈالی جائے ، جو کچھ ہو رہا ہے یہ شکیل جیسوں کے ذہن کی اختراع ہے یا باقاعدہ پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کا مظاہرہ ہے ۔

تبصرے بند ہیں.