کمشنر چٹھہ، آر اوز اور الیکشن دھاندلی

66

کوئی مانے نہ مانے راولپنڈی کے سابق کمشنر لیاقت چٹھہ نے حالیہ الیکشن میں دھاندلی کے الزامات پر سرکاری مہرتصدیق ثبت کر دی ہے، دھاندلی ہوئی اور کیسے ہوئی، یہ تو الیکشن کی رات ہی پتہ چل گیا تھا، اب یہ کوئی راز رہا ہی نہیں، ہونے والی دھاندلی تو خود پکار پکار کر کہ رہی ہے،
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمار ا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

پنجاب کے ہزاروں سرکاری افسران جن کے توسط سے انتخابی عمل مکمل کیا گیا،ان کی غالب اکثریت شاید اس دھاندلی عمل کا حصہ نہیں مگر آر اوز ، ڈی آر اوز ، ان کے کمشنرز اور اس سے اوپر کے افسران کی اکثریت کے متعلق کہا جاسکتا ہے ، وہ بہت کچھ جانتے ہیں ،لیاقت چٹھہ نے جو کچھ کہا وہ بہت سے اور افسروں نے بھی دبے لفظوں میں کہا مگر انہیں تبدیل کر دیا گیا یا ان کی آواز دبا دی گئی۔

لیاقت چٹھہ کو اب پی ٹی آئی یا کسی اور کا وفادار بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر صوبائی سروس سے تعلق رکھنے والے اس افسر نے ہر حکومت میں اچھا کام کیا ، انہوں نے میاں شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ میں وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں بھی کام کیا اور ان کی ڈیوٹی حمزہ شہباز شریف کے ساتھ تھی اور یہ ان کے سب سے قریبی افسر کہلاتے تھے ،اب انہوں نے جو کہا ہے اسکی مزید وضاحت تو وہ خود ہی کریں گے۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ الیکشن ہونے سے پہلے الیکشن کمیشن،چیف الیکشن کمشنر اور سسٹم کے متعلق جو باتیں ہو رہی تھیں، میرے جیسے لکھنے اور کہنے والے جو لکھ اور کہ رہے تھے ،آج ایک کمشنر نے وہی سب کچھ کہ دیا ہے۔میں نے الیکشن سے پہلے اور فوری بعد جو لکھا تھا ،ان میں سے کچھ اقتباسات قند مکرر کے طور پر آج دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔

”پاکستان میں انتہائی متنازعہ انتخابی عمل کے بعد چیف الیکشن کمشنر جناب سکندر سلطان راجہ اپنا نام تاریخ میں انمٹ کالی سیاہی سے لکھوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں، ان کا دور پاکستان کی انتخابی تاریخ کا سیاہ باب کہلائے گا۔ آٹھ فروری کو منعقد ہونے والا یہ ایک ایسا الیکشن تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس میں ووٹنگ نو فروری تک جاری رہی، جس کی وجہ سے اکثر نتائج انتہائی تاخیر سے جاری کرنا پڑے۔ عوام کی طاقت کو سلام کہ وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود معروف نشانات اور پارٹیوں والوں کے مقابلے میں غیر معروف نشان والے آزاد منش امیدواروں کو اکثریت دلانے میں کامیاب ہو گئے اور یوں ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے۔ یہ ایک ایسا الیکشن تھا جس میں امیدواروں اور ووٹروں کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کے لئے بے پناہ محنت اور جدوجہد کی گئی، آر اوز نے بھی خوب ساتھ دیا مگر بعض مقامات پر کچھ سر پھرے آر اوز نے بھانڈا بھی پھوڑ دیا“۔

میں نے الیکشن کے روز اپنے کالم میں لکھا” آج پاکستان کی جمہوری تاریخ کا ایک اور اہم دن ہے ،الیکشن ہو رہے ہیںمگر لوگ تذبذب کا شکار ہیں ،ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں ،اس کے باوجود کہ ان کی ان کی سوچوں پر پہرے ہیں،ان کو بھٹکایا جا رہا ہے،کبھی کسی سروے کے ذریعے ، کبھی کسی وڈیرے کے ذریعے مگر لوگ ووٹ کو ایک مقدس امانت اور فریضہ سمجھتے ہیںاس لئے اپنا ووٹ اور امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں،انہوں نے ووٹ ضرور ڈالنا ہے۔ ابراہم لنکن نے جمہوریت کو عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اورعوام کے لیے کہا تھا،ہم امریکہ کی مانتے ہیں اس لئے ابراہم لنکن کی بات پر یقین کر بیٹھے ،تاہم یہ تعریف پاکستان کی خود غرض، جوڑ توڑ والی، کنٹرول شدہ جمہوریت کے ورژن سے بالکل متصادم ہے، یہاں جمہوریت ہمیشہ سے اشرافیہ کے مفادات سے ہم آہنگ نظر آتی ہے۔پاکستان میں جمہوریت کسی قدیم، آفاقی روایات کی پیروی کرتی نظر نہیں آتی، ہمارے ہاں سیاسی مجبوریوں کے مطابق اس کی شکل اور عادتیں تبدیل ہو جاتی ہیں،اس کا کردار اور ارادے کو بدلنے والا نظام متحرک ہو جاتا ہے، وہ ادارے اپنا کام بھول جاتے ہیں جو جمہوری شفافیت برقرار رکھنے کے لئے عوام کے ٹیکس کاٹ کر قائم کئے گئے۔آج ہونے والے انتخابات کو جانے مورخ کیا عنوان دے گا لیکن جو اسے بھ±گت رہے ہیں ان کے لئے یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں، مسلم لیگ نواز کے سوا سبھی جماعتیں لیول پلئینگ فیلڈ طلب کر تی رہیں ،جو گزرے کل میں ساتھی تھے انہیں سمجھا بجھا لیا گیا جو معتوب ہیں وہ آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ دعائیں اور بد دعائیں اسی سمت سفر کرتی ہیں“۔

”پاکستان میں جمہوریت اور اس کو طاقتور بنانے کے لئے قائم ادارے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں ، حالیہ انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر دیکھا گیا کہ سرکاری مشینری کچھ سیاسی جماعتوں کے لئے لیبر کا کام کرتی رہی، سرکاری مشینری کچھ جماعتوں کے امیدواروں کے بینر اور پوسٹر اتارنے کا کام دیانتداری سے انجام دیتی رہی۔ معتوب جماعت کو شکایت ہے کہ اس کے دس ہزار کارکن حراست میں ہیں، امیدوار اور ان کے ساتھی انتخابی مہم کے لئے جونہی باہر نکلتے پولیس گرفتار کرنے پہنچ جاتی۔ آخر میں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں تو لچکدار رویہ اختیار کرنے لگیں لیکن پی ٹی آئی نے لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ جاری رکھا، اس مطالبے پر کارروائی کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے، الیکشن کمیشن کا یہ رویہ تاریخ میں اچھا یا برا نقش ہو رہا ہے۔سوال تو یہ بھی ابھرتا ہے کہ اگر آئینی ادارے جمہوریت کی شفافیت اور لیول پلئینگ کے متعلق اپنا کردار ادا نہ کرسکیں تو شہروں کا پڑھا لکھا، معاشی طور پر خود انحصار طبقہ اور ناخواندہ دیہی آبادی کی سیاسی ضروریات ایک ہو کر سیاست کو الٹ پلٹ دیں تو پھر کیا ہو گا؟ پھر موجودہ حالات میں آنکھیں بند کر کے کام کرنے والا الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟اگر الیکشن کمیشن نے ایسے ہی انتخابات کرانے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کو خدا حافظ“۔

”دوسری طرف حالیہ الیکشن کی شفافیت پر بہت زیادہ سوالات اٹھ رہے ہیں ،یوں تو آج تک پاکستان میں کوئی الیکشن ایسا نہیں ہوا جس کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور نہ اٹھا ہو ، آٹھ فروری کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملک بھر میں مختلف سیاسی جماعتیں احتجاجی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں، احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے نتائج میں نہ صرف تاخیر کی گئی بلکہ مبینہ طور پر رد و بدل بھی کیا گیا۔ الیکشن ہونے سے پہلے سب کی سوالیہ نظریں اس بات پر تھیں کہ انتخابات ہوتے ہیں یا نہیں، اب انتخابات ہو چکے تو وہی سوالیہ نظریں اور زیادہ گہری ہو چکی ہیں، سوال یہ ہے کہ حالات اب کیا جہت اختیار کر سکتے ہیں؟ مگر دھاندلی کی گونج مسلسل بڑھ رہی ہے“۔
آخر میں مزاحیہ شاعر سید سلیمان گیلانی کی دھاندلی کے حوالے سے ایک نظم ،جو ان دنوں زبان زد عام ہے ، کے دو شعر،

یہ کھیل رچایا جاتا ہے کیا بولیں کس کے ایما پر
مینڈیٹ چرایا جاتا ہے کیا بولیں کس کے کہنے پر
شفاف الیکشن دنیا میں ایسے بھی کرایا جاتا ہے
کچھ دھاندلی پہلے پولنگ سے کچھ دھاندلی بعد میں کرنی ہے

تبصرے بند ہیں.