انتخابات کے آفٹر شاکس، دھرنے، قومی حکومت

69

8 فروری کے الیکشن کے نتائج سبھی کے لیے غیر متوقع، منقسم مینڈیٹ، کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہ مل سکی۔ جیتنے والے بھی اپنے کئی برج الٹے جانے سے مایوس، نواز شریف کے قریبی اور با اعتماد دوست ہی ہارے یا ہرائے گئے الیکشن میں ہارنے والے مشتعل، دھرنے، قومی شاہراہیں بند، ریلیاں، بلوچستان سندھ اور خیبر پختونخوا میں جلاﺅ گھیراﺅ، احتجاج، تنازعات، الزامات، دعوے، پشاور میں خطرناک اعلانات اور سانحہ 9 مئی دہرانے کی دھمکیاں، عین موقع پر کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے پُر سکون پانیوں میں یہ کہہ کر پتھر دے مارا کہ راولپنڈی ڈویژن میں دھاندلی ہوئی ہم نے پچاس پچاس ہزار جعلی ووٹوں سے امیدواروں کو جتوایا، فارم 45 سے پتا چل جائے گا۔ انہوں نے اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ میں صبح کی نماز کے بعد خود کشی کرنا چاہتا تھا پھر سوچا کہ حقائق سے میڈیا کو آگاہ کر دوں، مجھ پر اوورسیز پاکستانیوں کا دباﺅ تھا مجھے پنڈی کے کچہری چوک میں پھانسی دی جائے۔ کمشنر راولپنڈی کو فوری طور پر گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اعلیٰ سطح تحقیقات کا حکم دے دیا۔ لیاقت علی چٹھہ نے اپنی بد عنوانی اور دھاندلی میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی ملوث قرار دیا۔ کہا کہ ان کے حکم پر ہارے ہوئے امیدواروں کو جتوایا۔ گویا فیروز ناطق خسرو کے مطابق ”جو ووٹ دوسروں کے تھے آپس میں بٹ گئے چشم زدن میں سارے نتائج الٹ گئے“ الیکشن کمیشن نے ان الزامات کی فوری تردید کی اور کہا کہ کمشنر راولپنڈی آر او تھے نہ ڈی آر او، ان کا الیکشن میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔ تردید سے بات نہیں بنے گی۔ خوفناک طوفان اٹھا ہے بات دور تلک جاتی نظر آ رہی ہے۔ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے؟ کچھ پتا نہیں، 29 فروری تک کے 10 دن انتہائی اہم بعد کے ہنگامہ خیز ہوں گے۔ ابھی سے مارشل لاءاور ایمرجنسی کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ پنڈ وسیا نہیں، تباہی کے منصوبے تیار۔ عجیب انتخابات ہوئے ہیں کہ 60 فیصد امیدوار پہلے عدلیہ پھر الیکشن کمیشن کی طرف بھاگے، اتنے امیدوار نہیں تھے جتنی شکایات آ گئیں، کوئی ایک پارٹی بھی تن تنہا حکومت سازی کے قابل نہ رہی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اور دیگر آزاد ارکان کی تعداد 92، مسلم لیگ ن کے 79، پی پی 54، ایم کیو ایم 17، جے یو آئی (ف) 4، ق لیگ 3 اور آئی پی پی کے 2 ارکان منتخب ہوئے۔ وفاق میں حکومت سازی کے لیے 169 ارکان درکار، ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کی نشستوں کی تعداد 156، مخصوص نشستوں کے ساتھ 206 بنتی ہے۔ اسی طرح پنجاب میں حکومت سازی کے لیے 186 نشستیں چاہیے۔ یہاں ن لیگ خوش قسمتی سے بلا شرکت غیرے آسانی سے حکومت بنا سکتی ہے۔ بدلتے موسم اور ہَواﺅں کی سمت دیکھ کر آزاد پنچھی نئے پرانے گھونسلے تلاش کر رہے ہیں۔ بیشتر کی اڑان ن لیگ کی طرف ہے۔ دیگر ممالک میں ایسی صورتحال درپیش ہو تو دوبارہ الیکشن کرا دیے جاتے ہیں اور ملک کی دو یا تین پارٹیوں کے لیڈروں سے کہا جاتا ہے کہ وہ الیکشن کے دوسرے راﺅنڈ میں 51 فیصد حمایت حاصل کر کے وزیر اعظم یا صدر بن جائیں، ترکی کے انتخابات میں یہی ہوا ہے لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں، ما شاءاللہ 174 پارٹیاں ہیں۔ ”کتنے سیاستدان پکڑو گے ہر گھر سے سیاستدان نکلے گا“ ایک الیکشن پر 47 ارب خرچ ہوئے دوسرے پر 55 ارب خرچ ہوں گے۔ ”لوگ آسان سمجھتے ہیں الیکشن لڑنا“ جان جوکھوں کا کام ہے کتنی جانیں گئیں اب تک جا رہی ہیں۔ 22 فروری کو نتائج مکمل ہوں گے 3 دن میں آزاد ارکان اپنے ٹھکانے ڈھونڈیں گے۔ آزاد رہے تو قانون سازی میں ووٹنگ سے محروم رہیں گے۔ 29 کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں حلف کے بعد سپیکر اور وزیر اعظم کا انتخاب ہو گا کوئی امیدوار 169 ووٹ حاصل نہ کر سکا تو رن آف الیکشن کے ذریعے زیادہ ووٹ لینے والا وزیر اعظم بن جائے گا۔

الیکشن کے فوری بعد کیا ہوا؟ دلچسپ کہانی، 8 فروری کو پولنگ کا وقت ختم ہوتے ہی ٹی وی چینلز پر ”واریئرز“ نے مورچے سنبھال لیے ایک گھنٹے بعد نتائج جیبوں میں لیے ”مجاہدین“ میدان میں کود پڑے، 2 فیصد، 5 فیصد پولنگ سٹیشنز کے غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کا جوش و جذبہ سے اعلان، ہر جگہ آزاد امیدوار آگے، ماحول بن گیا یا بنا دیا گیا۔ ہر حلقہ کے نتائج کے ساتھ تبصرے تجزیے، مافی الضمیر کا برملا اظہار، یوں لگا ملک میں انقلاب آ گیا۔ 9 بجے رات تک 10 فیصد پولنگ سٹیشنز کے نتائج بھی موصول نہیں ہوئے تھے مگر پی ٹی آئی کے 129 آزاد امیدوار آگے ن لیگ کے پیچھے، اعلانات نے ن لیگ کے حلقوں میں مایوسی بڑھا دی، ن لیگ والے جشن منانے کے لیے ہاتھ پاﺅں سیدھے کر رہے تھے امیدوں پر اوس پڑی تو ہاتھ پاﺅں ڈھیلے پڑ گئے، میاں نواز شریف نے وکٹری سپیچ جیب میں ڈالی اور گھر روانہ ہو گئے۔ ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر اس کی صبح شہباز شریف کو بلایا اور انتہائی غصہ میں کہا ”ہمیں حکومت نہیں بنانی جا کر بتا دو“ پیغام بھیج دیا گیا۔ اسی اثنا میں بلاول کی پریس کانفرنس نے رنگ میں بھنگ ڈال دی کہ ہم اپوزیشن میں بیٹھیں گے، شہباز شریف نے بھی اسی قسم کی پریس کانفرنس میں واضح کر دیا کہ جس کے پاس اکثریت ہو حکومت بنا لے، آصف زرداری نے شہباز شریف سے رابطہ قائم کیا ”کی کری جاندے او حکومت بنانی اے“ منگل تک کا ٹائم ہے ورنہ اوپر سے وزیر اعظم آ جائے گا“، نواز شریف کا ایک ہی موقف تھا کہ صرف پنجاب حکومت تک محدود رہو ورنہ 16 ماہ کی حکومت والا حشر ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی دروازہ بند، جاﺅ کھیلو جنہوں نے آپشن دیا ہے وہ جانیں، سمجھانے بجھانے پر آمادہ ہوئے اپنے پُر جوش حامیوں سے خطاب میں حکومت بنانے کی امید کا اظہار کیا تاہم چہرہ بدستور ستا رہا، اگلی شام تک آنے والے نتائج کسی حد تک حوصلہ افزا تھے۔ رابطے شروع ہو گئے اور 12 اور 13 فروری کی درمیان شب 6 جماعتی اتحاد تشکیل پا گیا گویا ”یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا“ جبکہ پی ٹی آئی والے ”محو نالۂ جرس کاروان رہے“ چودھری شجاعت کے گھر آصف زرداری نے 6 جماعتوں کے لیڈروں کے سامنے ایک بار پھر ”کھپے“ کا نعرہ بلند کیا اور شہباز شریف کو وزیر اعظم کا امیدوار نامزد کر دیا۔ شہباز شریف نے مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کیا۔ نواز شریف نے دامن سمیٹ لیا، وزیر اعظم نہیں ہوں گے اب ”لگ پتا جائے گا“ میڈیا بریفنگ سے واپس پلٹنے والوں نے کہا قومی حکومت بن جائے گی لیکن جب تک بنی رہی جان پر بنی رہے گی۔ کیا 16 ماہ والی حکومت کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ کیا ملک میں ہن برس رہا ہے۔ من و سلویٰ کی بارش ہو رہی ہے؟ سب کے علم میں ہے کہ اس وقت ملک میں صرف 13 ارب ڈالر کا زر مبادلہ موجود ہے جبکہ جون میں قرضوں کی مد میں 24 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ آئی ایم ایف سے نئے معاہدے میں سخت ترین شرائط کا سامنا ہو گا۔ نگراں جاتے جاتے گیس، بجلی، پیٹرول کی قیمتیں بڑھا کر آخری کیل ٹھونک گئے۔ قیمتیں مزید بڑھیں گی۔ مہنگائی میں اضافہ ہو گا عوام دعائیں نہیں سوشل میڈیا پر سکھائی گئی گالیاں دیں گے سب سے زیادہ دباﺅ پنجاب پر ہو گا۔ رد عمل بھی یہیں سے آئے گا۔ لوگ 4 روپے کی روٹی، 50 روپے کلو چینی، آٹا پیٹرول سستا، مفت بجلی مانگیں گے۔ پی ٹی آئی کے 116 ارکان جینا حرام کر دیں گے۔ دھاندلی کا شور، بے ہنگم نعرے، آئے دن ہنگامے، ہاتھا پائی پیپلز پارٹی نے وزارتیں لینے سے انکار کر دیا ان کے بجائے صدر، سپیکر اور پارلیمانی سیکرٹریز کا مطالبہ، گالیاں کھائے ن لیگ پیپلز پارٹی باہر بیٹھ کر جلیبیاں کھائے گی اور سیاست چمکائے گی۔ پارلیمنٹ میں جو تم پیزار، مولانا فضل الرحمان آستینیں چڑھائے بیٹھے ہیں۔ ”بگڑے بگڑے میری سرکار نظر آتے ہیں“ پی ٹی آئی والوں سے ملاقات ہو گئی بگڑے نام کے بجائے حضرت مولانا کہلانے لگے بات بنی نہیں، اپوزیشن میں آ گئے تو جینے نہیں دیں گے۔ پی ٹی آئی کے اسد قیصر ابھی مولانا کے گلے لگے ہیں گلے پڑیں گے تو پتا چلے گا۔ دھرنے تحریک کی شکل اختار کر گئے تو مشتعل کارکن گملے نہیں کچھ اور توڑیں گے ان کے ساتھ قوم یوتھ ہوئی تو حالات بگڑیں گے۔ ”پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں ہو گئے“ ساتھ چل پائیں گے؟ لگدا تے نئیں پر شاید، غصہ اور مایوسی میں کیے گئے فیصلے نقصان دہ ہوتے ہیں۔ ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ خان صاحب سیاست سے آﺅٹ ہوئے نہ مستقبل قریب میں ہوتے نظر آتے ہیں۔ حضرات نیم دروں نیم بروں پالیسی پر کاربند ہیں یعنی ”چلمن سے لگے بیٹھے ہیں“ سانحہ 9 مئی کے فیصلے میں تاخیر سے واقعہ کی سنگینی پر سے عوام کا یقین متزلزل ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انہیں باورکرا دیا گیا ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ قومی حکومت اور ذمہ داران جلد خان کو جیل سے نکال کر مذاکرات پر مجبور ہوں گے۔ امریکا اپنا ”فرض“ ادا کرے گا۔ خان صاحب حال مقیم اڈیالہ جیل اپنے جارحانہ موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے۔ انہوں نے کے پی کے کے لئے علی امین گنڈا پور اور پنجاب میں میاں اسلم کو وزیر اعلیٰ کے امیدوار نامزد کر کے اپنی پالیسی کا اظہار کر دیا ہے۔ دونوں امیدوار سانحہ 9 مئی میں ملوث ہیں ”اور کیا چاہیے بیان کے لیے“ پی ٹی آئی کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ ملک 71ءیا 77ءکی طرف جا رہا ہے؟ سو بات کی ایک بات مفاد پرستی پہلے بھی تھی ایثار نہیں تھا حالات نہیں بدلے مفاد پرستی اب بھی ہے ایثار نظر نہیں آتا، حالات نہیں بدلیں گے۔

تبصرے بند ہیں.