مریم نواز شریف: امیدیں اور توقعات!!

59

اللہ پاک محترمہ بے نظیر بھٹو کی مغفرت فرمائے۔ وہ ہماری سیاسی تاریخ کا بڑا نام ہیں۔ انہیں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ آپ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں۔ محترمہ کی سیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، تاہم یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا ایک روشن اور نرم تاثر ابھرا۔ ہم جانتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ خواتین کے حوالے سے تو ہمارا تاثر کافی منفی ہے۔بیرون ملک جائیں یا پاکستان میں غیر ملکیو ں سے ملیں تو ہمیں اس تاثر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چندسال پہلے ملائشیا میں میری ملاقات ایک امریکی خاتون پروفیسر سے ہوئی۔ یہ تحریک انصاف کا دور تھا اور مریم نواز شریف اس زمانے میں زیر عتاب تھیں۔

ڈاکٹر جین کا خیال تھا کہ پاکستان میں خواتین کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ میں نے ڈاکٹر جین کو پاکستان کی نامور خواتین کا حوالہ دیا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی مثال دی ، جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں ایک آمر جنرل ایوب خان کا بہادری سے مقابلہ کیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا تذکرہ کیا ، جنہوں نے آمر ضیاالحق کے خلاف مزاحمت کی اور دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔میں نے ڈاکٹر جین کو بتایا تھا کہ آج کل پاکستا ن میں ایک خاتون لیڈر مریم نواز شریف کافی متحرک ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کبھی پاکستان کی وزیر اعظم بن جائیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر جین کافی متاثر ہوئی تھیں ۔انہوں نے میری گفتگو میں مذکور خواتین کے نام اپنی چھوٹی سی ڈائری میں درج کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ انہیں پاکستانی خواتین کے بارے میں یہ معلومات نہیں تھیں۔

چند دن پہلے پاکستان مسلم لیگ(ن) نے مریم نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے نامزد کیا تو مجھے امریکی پروفیسر سے ہونے والی یہ گفتگو یاد آ گئی۔ سیاسی پسند ، نا پسند سے قطع نظر ، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ منتخب ہونا ایک منفرد اور تاریخی اعزاز ہے۔ پاکستان میں خواتین کے لئے آگے بڑھنا اور اعلیٰ عہدوں تک پہنچنا، مردوں کی نسبت خاصا مشکل کام ہے۔ ہماری خواتین سیاست میں متحرک ہونے کے باوجود نمایاں عہدوں پر کم کم دکھائی دیتی ہیں۔ان حالات میں مریم نواز شریف وزارت اعلیٰ کی مسند سنبھالتی ہیں تو پاکستان کا ایک روشن چہرہ دنیا کے سامنے آئے گا۔ دنیا میںپاکستان کا مثبت تاثر ابھرے گا۔

مریم نواز شریف نے یہ مقام راتوں رات حاصل نہیں کیا ہے۔ یہاں تک آنے میں انہیں برسوں لگے ہیں۔ 2013 کے عام انتخابات سے پہلے مریم نواز شریف نے پارٹی کی میڈیا کمپین کی نگرانی کرتی رہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوئی تب بھی وہ میڈیا کمپین کے معاملات دلچسپی سے دیکھا کرتی تھیں۔ پانامہ لیکس کا ہنگامہ شروع ہوا تو مریم نوزا اپنے والد کے شانہ بشانہ رہیں۔ انہیں عدالتی پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ منفی میڈیا کوریج کا سامنا کرنا پڑا۔ اپنے والد نوازشریف کے ساتھ جیل جانا پڑا۔ اس زمانے میں مسلم لیگ (ن) پس منظر میں چلی گئی تھی۔( ن) لیگی کارکن مایوسی کا شکار ہو تھے۔ پارٹی کا موؤقف دینے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ مریم نواز ہی تھیں، جنہوں نے مسلم لیگ(ن) میں جان ڈالی۔ کارکنوں کو متحرک کیا۔ نوازشریف کے بیانئے کو زندہ رکھا۔ جان ہتھیلی پر رکھ کربڑے بڑے جلسے کئے۔ بے خوفی سے مخالفین کے لتے لئے۔ انہیں پسپائی پر مجبور کیا۔مخالفین تنقید کرتے ہیں کہ مریم نواز شریف کو یہ نام او ر مقام صرف اپنے والد کی وجہ سے ملا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم کی وجہ شہرت نواز شریف کی بیٹی ہونا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز شریف نے یہ مقام محنت اور بہادری سے حاصل کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تنقیدی اور دلیرانہ تقاریر کے ذریعے میڈیا کی توجہ حاصل کی۔ پارٹی اور پارٹی ورکروں کو متحرک کیا اور crowd puller بن کر سامنے آئیں۔ مسلم لیگ (ن) کے حامی اس بات سے افسردہ ہیں کہ نواز شریف نے خودوفاقی حکومت سنبھالنے کے بجائے اپنے بھائی شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لئے نامزد کر دیا ہے۔ نواز شریف کو چاہنے والوں کے لئے مریم نوازشریف کی یہ نامزدگی باعث مسرت ہے۔

مریم نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنتی ہیں تو یہ ایک بھاری بھرکم ذمہ داری ہو گی۔ انہوں نے اس سے پہلے کوئی سرکاری عہدہ نہیں سنبھالا۔ یقینا انہیں اپنے والد میاں نواز شریف اور اپنے چچا میاں شہباز شریف کی رہنمائی اور سرپرستی حاصل رہے گی۔ اس کے باوجود پنجاب جیسے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ کا بوجھ اٹھانا کوئی آسان کام نہیں ہو گا۔ ایک خاتون سربراہ حکومت ہونے کے ناطے ان سے اضافی توقعات وابستہ ہو جائیں گی۔ خصوصی طور پر خواتین یہ امید رکھیں گی کہ خاتون وزیر اعلیٰ ان کے مسائل اور معاملات کے حل پر خاص توجہ مرکو ز کریں۔پنجاب کی خواتین کو زیادہ سے زیادہ حقوق دینے کے لئے قانون سازی ہو۔ منظور شدہ قوانین کا عملی نفاذ ہو۔خواتین کو آگے بڑھنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر آئیں۔ہمارے ہاں خواتین کی ٹرانسپورٹ کے بہت سے مسائل ہیں، امید کی جائے گی کہ وہ مسائل حل ہوں۔

ہماری پولیس اور تھانوں کی صورتحال سے ہم بخوبی آ گاہ ہیں۔ مرد بھی تھانوں میں جانے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ کسی عورت کو تھانے اور تھانہ داروں سے واسطہ پڑجائے تو اس پر کیا گزرتی ہو گی۔ مریم نواز اگر پولیس اور تھانہ کلچر بہتر بنا سکیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔شہباز شریف اپنے زمانہ وزارت اعلیٰ میں اسکولوں اور ہسپتالوں کی طرف خاص توجہ دیا کرتے تھے۔ خواتین تو یوں بھی اپنے بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی حساس ہوتی ہیں۔ امید ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ مریم نواز سرکاری اسکولوں کی حالت زار بہتر بنانے پر توجہ دیں گی۔ ٹھوس عملی اقدامات کے ذریعے ان لاکھوں بچوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کریں گی جو ابھی تک اسکولوں سے باہر ہیں۔ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ خواتین کی صحت کے مسائل سے بھی آگہی رکھتی ہیں۔ ہمارے دیہات صحت عامہ کی سہولیات سے محروم ہیں۔ خواتین کو زچگی کے دوران طویل فاصلے طے کر کے ہسپتالوں تک جانا پڑتا ہے۔ یہ اور دوسرے صحت عامہ کے مسائل اپنے حل کے لئے مریم نواز کی توجہ کے منتظر ہوں گے۔ امید ہے کہ مریم نواز کی کابینہ میں خواتین کی نمائندگی زیادہ ہو گی۔ وہ نوجوان چہروں کو بھی آگے لائیں گی۔ شعوری ،لاشعوری طور پرمریم نواز شریف کا موازنہ ان کے چچا شہباز شریف سے کیا جائے گا، جو بطور وزیر اعلیٰ ہر دم متحرک رہتے تھے۔ مریم نواز نے کم و بیش ایک عشرے سے سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔گزرے برسوں میں وہ کافی متحرک رہی ہیں۔ امید ہے کہ بطور وزیر اعلیٰ بھی وہ تحرک کا مظاہرہ کریں گی۔ مریم نواز اس امتحان میں کامیا ب ہوتی ہیں تو ان کے لئے کامیابی کے مزید دروازے کھل جائیں گے۔

دعا ہے کہ پنجاب سمیت تمام صوبے ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کریں۔ ہمارے ملک کو اس بے یقینی اور بے برکتی سے نجات ملے ، جس نے اسے گزشتہ کئی برس سے گھیر رکھا ہے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.