بوکاٹا!

42

شِشترو، کُپ، تِیرا، شَرلہ، پَری، جاپانی گُڈا، مَچھلہ، تُکل، مچھر اور پھَپھڑ دان۔ اس سے پہلے کہ مبادا آپ اس غلط فہمی کا شکار ہوں کہ یہ سب الفاظ کسی جادو ٹونے یا منتر کے ہیں۔ میں واضح کر دوں کہ یہ ہمارے وقتوں میں اُڑائی جانے والی پتنگوں اور گُڈے گُڈیوں کے نام ہیں۔ اُس زمانے میں لگ بھگ فروری کے یہی دن ہوتے تھے جو زندہ دلانِ لاہور کے لیے بہار کی نوید کے ساتھ بسنت کا تہوار لے کر آتے۔ سنہری دھوپ میں چھتوں پر صاف شفاف آسمان میں اُڑتی رنگ برنگی پتنگوں کے پیچ لڑاتے اور بوکاٹا کی آوازوں کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالنے والوں کا تہوار۔ بسنت کے اُس روز صبح سویرے ہی آسمان چھوٹی بڑی پتنگوں اور گُڈیوں سے سج جاتا جس میں دوپہر تک آسمان پر پتنگوں اور گُڈیوں کا ایسا ”گھڑمس“ مچ جاتا کہ پھر یہ امتیاز کرنا مشکل ہو جاتا کہ کس کا پیچا کس کے ساتھ ہے۔ ایسا نہیں کہ بسنت پہ سبھی گُڈیاں اُڑانے والے پیچ ہی لڑاتے ہوں ان پتنگ بازوں کے درمیان کٹی پتنگیں لوٹنے والے کچھ ”چمیڑو“ بھی ہوتے تھے۔ یہ ”چمیڑو“ مضبوط ریشمی ڈور سے ایک چھوٹے سائز کا گُڈا اُڑائے سارا دن جہانگیر ترین کے جہاز کی طرح کٹنے والی پتنگوں کو چمیڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے رہتے۔ جیسے ہی کوئی پتنگ کٹتی چمیڑو اسے بڑی مہارت سے چمیڑ کر باحفاظت اپنی چھت پر اُتار لیتے۔ ان کے علاوہ پروفیشنل قسم کے کچھ زمینی لٹیرے بھی ہوتے تھے جو گلی محلوں اور سڑکوں پر بانس کے اونچے اونچے ٹانگھوں سے کٹی ہوئی پتنگیں اور ڈوریں لوٹتے تھے۔ اس لوٹ کھسوٹ میں کبھی کبھار یہ زمینی لٹیرے ایکسیڈنٹ یا آپس کے لڑائی جھگڑوں میں ڈنڈے سوٹے اور چاقو چھریاں چلنے سے اچھے خاصے “پَھٹڑ“ بھی ہو جاتے تھے۔ اتفاق دیکھیں کہ اب انہی دنوں میں جن میں کبھی بڑے زور شور سے بسنت کا تہوار منایا جاتا اور آپس میں پیچ لڑا کر ایک دوسرے کی پتنگیں کاٹی اور لوٹی جاتی تھیں آج سے محض دو دن بعد آٹھ فروری کو ملک بھر میں عام انتخاب ہونے جا رہے ہیں۔ جس میں مختلف پارٹیاں اور آزاد امیدوار آپس میں پیچ لڑانے اور ایک دوسرے کی ڈوریں کاٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ ویسے تو بسنت اور الیکشن میں کوئی خاص قدر مشترک نہیں ہے مگر نجانے کیوں اس بار مجھے عام انتخاب اور بسنت کے ماحول میں کچھ کچھ مماثلت لگ رہی ہے۔ فروری کی مماثلت کے علاوہ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ملک میں پہلی بار ایسے انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت سے مختلف انتخابی نشانوں پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ اس سے موجودہ الیکشن میں بھی بسنت والے دن کی طرح پتنگوں اور گُڈے گُڈیوں کے ”گھڑمس“ جیسی عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ الیکشن کا دن سر پر آ گیا ہے لیکن سیدھے سادے عام ووٹر کو ابھی تک یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ اس کی پسندیدہ پارٹی کا نامزد امیدوار کونسا ہے۔ جس سے ایک امکان یہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ مبادا اس ”گھڑمس“ کا فائدہ اُٹھا کر مقابلے والے دن یا بعد میں ان بڑی اور مضبوط سیاسی پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کو کوئی ”شَرلہ“ یا ”شُرلی“ بو کاٹا نہ کر دے۔ اُدھر کچھ آزاد امیدواروں کے ریچھ اور گدھا گاڑی جیسے انتخابی نشانوں نے بھی الیکشن کے ماحول میں ایک الگ ہی قسم کی دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے۔ اس قسم کے دلچسپ انتخابی نشان کے حامل بعض امیدواروں کے گذشتہ سیاسی ریکارڈ اور اُن کی حالیہ سیاسی پوزیشن کو دیکھیں تو اُن کو ملنے والا انتخابی نشان، انتخابی نشان سے زیادہ عبرت کا نشان دکھائی دیتا ہے۔ سیاست سے ذرا سی دلچسپی رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ انتخابات میں انتخابی نشان اور اس کی بنیاد پر بنائے جانے والے انتخابی نعروں کی امیدوار کی ہار جیت میں کس قدر اہمیت ہوتی ہے۔ ان نعروں کا ایک مقصد جہاں اپنے کارکنوں کا لہو گرما کر اپنی الیکشن مہم میں جان ڈالنا ہے وہاں اس کا دوسرا مقصد اپنے ووٹروں کو یہ حفظ کرانا بھی ہوتا ہے کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو جتانے کے لیے الیکشن کے دن انہیںکس نشان پر مہر لگانی ہے۔ گذشتہ روز سوشل میڈیا پر قومی اسمبلی کے آزاد امیدوار رانا ارشد جن کا انتخابی نشان ریچھ ہے کی ایک ایسی ہی دلچسپ ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جس میں رانا صاحب کی قیادت میں ایک ریلی کے دوران اُن کے سپورٹرز کو بڑے بڑے جوش و خروش سے اُن کے سامنے یہ نعرے لگاتے دیکھا جا سکتا ہے ’’دیکھو دیکھو کون آیا رِچھ آیا رِچھ آیا‘‘۔ ویڈیو میں لمبے چوڑے لحیم شحیم جثے کے ساتھ کانوں تک بھورے بالوں والی ٹوپی اور لانگ کوٹ پہنے رانا صاحب ان نعروں کے جواب میں اپنے سپورٹروں کو دیکھ کر جس والہانہ انداز میں ہاتھ ہلا رہے ہیں اس سے پتا چل رہا ہے کہ ریلی کے شرکاء ہی نہیں رانا صاحب خود بھی ’’رِچھ‘‘ کو پوری طرح انجوائے کر رہے ہیں۔ جب سے میں نے یہ ویڈیو دیکھی ہے مجھے بینگن، ہارمونیم، چمٹا، چارپائی، حقہ، وائلن جیسے انتخابی نشانوں کے حامل آزاد امیدواروں کا خیال آ رہا ہے کہ وہ ان انتخابی نشانوں کے ساتھ کس انداز میں اپنی الیکشن کمپین کرتے ہوں گے۔ خاص طور پر اپنے چودھری پرویز الٰہی جو اس بار تحریک انصاف کے صدر اور نامزد امیدوار کے طور پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور اُن کا انتخابی نشان گدھا گاڑی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اپنے چودھری صاحب ابھی تک تو جیل میں ہیں لیکن اگر وہ آزاد ہوتے تو اُن کی موجودگی میں کسی ریلی یا جلسے میں انہیں دیکھ کر اُن کے سپورٹرز نے ’’دیکھو دیکھو کون آیا‘‘ کے ساتھ کیا نعرہ لگانا تھا۔ بہرحال جی یہ بڑے لوگوں کی آپس کی باتیں ہیں اور بڑے لوگوں کی باتیں ہوں یا بُرے لوگوں کی باتیں ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔ ان کے آپس کے مقابلے ہیں جن میں کوئی جیتے گا اور کوئی ہارے گا۔ اس کے بعد جیتنے والا ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈال کر اپنی جیت کا جشن منائے گا جبکہ ہارنے والا کھلے دل سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے بجائے ہمیشہ کی طرح دھاندلی کا رونا روئے گا جس سے ملک سیاسی ہی نہیں معاشی اور دفاعی عدم استحکام کا بھی شکار ہوتا ہے۔ پچھلے پون صدی سے اب تک یہی ہوتا آیا ہے اور پتا نہیں آئندہ بھی کب تک ہوتا رہے گا۔ آپ لوگوں سے بس اتنی سی گزارش ہے کہ انتخابات میں آپ اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق اپنی پسندیدہ پارٹی اور امیدوار کا ساتھ ضرور دیں۔ مگر خدارا اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ اس سیاست بازی میں آپ کے کسی غلط جملے یا عمل سے خدانخواستہ ملک کے اجتماعی مفاد کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ایسا نہ ہو کہ آپ کے اپنے یار دوست، محلے دار یا عزیز رشتے دار ہمیشہ کے لیے ’’بوکاٹا‘‘ ہو جائیں۔

تبصرے بند ہیں.