خالقِ کائنات نے دنیا کے اس نظام میں حضرتِ انساں کے لیے آسانیوں اور آمائشوں کا ایک طویل سلسلہ رکھ دیا، جو انسان کے عمل اور ردِ عمل کی جانچ کرتا ہے۔ دنیاوی زندگی کے یہ امتحانات اس لیے رکھے گئے کہ انسانوں کو آزمایا جا سکے کہ اس فانی دنیا میں آ کر کیسا عمل کرتے ہیں۔ مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر اف تک نا کرنا صبر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے کیونکہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور صبر کرو بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق تکالیف پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ دنیا اضداد کے جوڑوں سے استوار کی ہے۔ ہر چیز میں یہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے، رات کے بغیر دن کا تصور بے معنی ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے، بالکل اسی طرح بے شمار آسانیاں ایسی ہیں کہ مشکلات کے بغیر ان کا حصول ناممکن ہے۔ صبر و توکل ایک عظیم نعمت ہے جو بلند بختوں کو نصیب ہوتی ہے، صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولو العزم کی خصلت ہے۔ آزمائش پر صبر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بشارت کا ذریعہ ہے۔ ربِ ذوالجلال اپنے بندوں کو خوشحالی، تنگی، عزت، آسانی اور مشقت میں مبتلا کر کے ان کی آزمائش کرتا ہے، جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کی آزمائش کی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”کیا لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کی بھی آزمائش کی جو ان سے پہلے گزرے“۔ مشکلات اور آزمائشیں ایمان اور یقین کی گہرائی اور پختگی پرکھتی ہیں۔ خالقِ دو جہاں اپنے محبوب بندوں کو ان کے ایمان کے مطابق آزمائش میں ڈالتا ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ ثواب میں اضافہ مصیبتوں کے ساتھ ہے اور فرمایا کہ اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں کسی نا کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اور جو راضی رہتا ہے، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور جو ناراض ہو جاتا ہے، اس کیلئے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے۔ دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب و عقاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بنائی گئی اس دنیا میں اصول یہ ہے کہ ایک خوبی پیدا کرنے کے لیے یا کوئی نعمت عطا کرنے کے لیے وہ مشکلات سے بشر کو گزارتا ہے اور اس طرح کی ہر مشکل اور آسانی میں دراصل مومن کے لیے آسانی ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور ضرور آزمائیں گے ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کر کے) نقصان میں مال و جان کے اور آمدنیوں کے اور خوش خبری دو صبر کرنے والوں کو، وہ (صبر کرنے والے) کہ جب پہنچتی ہے، انہیں کوئی مصیبت، تو کہتے ہیں، بے شک، ہم اللہ ہی کے ہیں اور بے شک، ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، دراصل یہی وہ لوگ ہیں کہ ان پر ہیں عنایتیں ان کے رب کی اور رحمتیں بھی اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں“۔ ان آیات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اسے مختلف چیزوں کے ذریعے ضرور بالضرور آزمایا جائے گا اور جو ان آزمائشوں پر صبر کرتے ہوئے پورا اترے گا، اسے رحمت و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ غربت و امارت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں ہیں، کچھ کو وہ ذات دے کر آزماتی ہے تو کچھ کو محروم رکھ کر، دونوں سے ہی اللہ تعالیٰ ناراض نہیں ہوتا بلکہ عین ممکن ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش نہ آتی ہو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو۔ وہ قارون کی طرح بے حساب خزانوں کا مالک تو ہو مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں نا پسندیدہ ہو، اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ فیصلہ ہو چکا ہو کہ اسے دنیا میں ہی سب کچھ دے دلا کر فارغ کر دیا جائے اور آخرت میں بس دوزخ ہی اس کا ٹھکانا بنے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ”مرد مومن کو جو بھی دکھ درد، جو بھی بیماری و پریشانی، جو بھی رنج و غم اور جو بھی اذیت و تکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے“۔ امتحان اور آزمائشیں دنیا میں نظام الٰہی کا حصہ ہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کی تخلیق بھی آدم کو آزمانے کے لیے کی ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: وہ ذات جس نے موت اور حیات کو بنایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں اچھا ہے۔ (الملک ۶۷:۲)
ہماری اس دنیا کی حقیقت فقط اتنی سی ہے کہ یہ جنت اور دوزخ میں جانے کے لیے امتحان گاہ ہے۔ اس دنیا میں پیدا ہونے والا کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جسے آزمایا نہیں جائے گا۔ احادیث مبارکہ کے مطابق تکالیف پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: ”جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان، مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا فرماتا ہے، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتا ہے، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہنچاتا ہے۔ رب العالمین صبر اور توکل اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“۔ رسول اللہﷺ اعلانِ نبوت کے بعد 13 سال مکہ میں رہے، اس پوری مدت میں آپ کو اور آپ کے جانثاروں کو سخت ترین اذیتیں پہنچائی گئیں۔ حضرت ابراہیمؑ دعوتِ حق کی پاداش میں اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور ہوئے، عراق سے روانہ ہوتے ہوئے سوائے ان کی زوجہ حضرت سارہؑ کے کوئی بھی ان کے ساتھ نہ تھا، پھر مصر میں ایک بڑی ابتلا سے گزرے، لیکن آپ آزمائش کی گھاٹی سے اس شان سے پار ہوئے کہ آج مسلمان اپنے پیغمبر کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیمؑ پر بھی درود و سلام بھیجتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”ہو سکتا ہے کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو اور اسی میں تمہاری بھلائی ہو، اور ممکن ہے کہ تم ایک بات کو پسند کرو لیکن وہ تمہارے لیے بہتر نہ ہو“۔ بقول شاعر
راہِ حق میں تجھے ہستی کو مٹانا ہو گا
دیکھنا پھر تیری ٹھوکر میں زمانہ ہو گا
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: جس نے صرف دنیا ہی کی زندگی اور اس کی زینت (نعمتوں اور شان و شوکت) کو چاہا تو ہم دنیا ہی میں ان کے عملوں کا اجر پورا پورا انہیں دے دیں گے، اور اس میں ان کے لیے ذرا بھی کمی نہ کریں گے۔ یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہ ہو گا، دنیا میں جو نیکیاں انہوں نے کی ہوں ضبط ہو جائیں گی اور ان کے اعمال اکارت جائیں گے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ دہرا اثر رکھتا ہے، بندۂ مومن کے لیے اس میں خیر ہی ہوتا ہے لیکن صرف اس ہی صورت میں جب انسان مطلوب رویہ پیش کرے۔ جن کے نصیب میں ہدایت لکھ دی گئی ہو تربیتی منہج کے ذریعے خالقِ دو جہاں انہیں بچا لیتا ہے، چنانچہ وہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.