ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

17

سعودی عرب اس وقت تبدیلیوں کی زدمیں ہے سیاسی، سماجی، ثقافتی، معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ مذہبی اقدارسب سے زیادہ محمدبن سلمان کے نشانے پر ہیں، معتدل مذہبی بیانیے کو فروغ اور رواداری کی آڑمیں یہ سب اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ بات دیکھنے میں آرہی ہے کہ غیر مسلم حرمین شریفین میں خصوصا مدینہ منورہ اور مسجد نبوی میں بے تکلف گھوم پھر رہے ہیں، وی لاگ بنارہے ہیں، کچھ غیر مسلم عورتیں تو غیر مناسب لباس میں آزادانہ گھومتی نظر آتی ہیں، اب غیرشادی شدہ غیر ملکی جوڑے مکمل آزادی کے ساتھ ہوٹل میں کمرے حاصل کررہے ہیں جبکہ سعودی خواتین کوبھی ہوٹلوں میں کمرے حاصل کرنے کی آزادی دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اب گلیوں میں مطوع نامی مذہبی پولیس نظر نہیں آتی جن کا مشن ’برائی کو روکنا اور نیکی کو فروغ دینا‘ تھا ۔

سعودی ہر سال 70 ارب ریال باہر کے ملکوں میں چھٹیاں منا کر خرچ کرتے تھے۔ اب ان کے لیے سعودی عرب میں ہی دبئی یا لندن کی طرح سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں، کیوں کہ سعودی عرب اپنے آپ کو دنیا کے لیے ترقی پسند ثابت کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی آمدن جو زیارت مقدسہ سے حاصل ہوتی ہے اور تیل کی مصنوعات پر انحصار کم کر کے دیگر ذرائع آمدن پیدا کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے اس نے کئی سال پہلے ویژن 2030 دیا۔ اب یہ ویژن آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ اس ویژن میں بڑی آمدن کا ذریعہ سیاحت اور اسباب تعیش کو ترجیح بنایا گیا ہے۔ اسی وژن کے تحت سینما، جوا خانے، شراب شباب، موسیقی کے کنسرٹس، کھیلوں کا انعقاد وغیرہ کو خوب فروغ دیا جا رہا ہے۔

اسی ویژن کا کمال ہے کہ سعودی حکومت نے مدینہ منورہ میں داخلی راستوں پر ’غیر مسلموں‘ اور مسلمانوں کے لیے مختص راستوں پر مسافروں کی رہ نمائی کے لیے لگائے گئے بورڈز پر اصطلاحات تبدیل کر دیں۔ زائرین کی رہنمائی کے لیے لگائے گئے گائیڈ بورڈز پر ’غیر مسلم‘ کی جگہ ’حدود حرم‘ کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔ غیر مسلم کا لفظ سعودی حکومت کی روشن خیالی پر بھاری پڑھ رہا تھا ۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

تازہ واردارت یہ ہے کہ مشرکین کے لیے بھی مدینہ منورہ کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، تقریبادو سال قبل ایک یہودی کومکہ مکرمہ اور دیگر مقدس مقامات پرداخل کیاگیاتھا ۔انڈین وزیر سمرتی ایرانی نے اپنے بقول مدینہ کا تاریخی سفر کیا اور وہ مسجدِ نبوی، جبلِ احد اور مسلمانوں کی پہلی عبادت گاہ سمجھی جانے والی مسجدِ قبا گئیں۔ انڈین ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ مدینہ میں کسی غیر مسلم وفد کا استقبال کیا گیا ہو۔ان کے ساتھ انڈیا کے جونیئر وزیرِ خارجہ وی مرلی دھرن اور ایک وفد بھی اس دورے میں شامل تھا۔ انڈین وفد نے جدہ میں اترنے کے بعد مدینہ کا سفر کیا۔ اگرچہ سعودی حکام اس دورے کوحج انتظامات سے تعبیر کر رہے ہیں مگرسوال یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی انڈین مسلمان حج کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ہندو وزراء کبھی مقدس مقامات میں داخل نہیں ہوئے؟ افسوس سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہود ہنود کو اگرمقدس مقامات پر آنے کی بار بار اجازت ملتی رہی تو یہ ان کے لئے سیر و تفریح کے مقامات بن جائیں گے۔

جولائی 2022 میں یہ بھی پہلی بار ہوا تھا کہ کہ ایک یہودی گل تماری جس کاتعلق اسرائیل سے تھا وہ مکہ میں داخل ہوا۔ اسرائیلی چینل 13 نیوز نے اس صحافی کی 10 منٹ کی رپورٹ نشر کی تھی جس میں انھیں مسجد الحرام کے سامنے سے گزرتے اور جبلِ رحمت پر چڑھتے دکھایا گیا تھا۔ پھر اس نے عرفات کا بھی دورہ کیا تھا ۔

سر زمین مقدس پر سینما کھولنے، کنسرٹ، رقص و سرود کی محفلیں سجانے اور شعائر اسلامی کامذاق اڑانے کایہ نتیجہ ہے کہ جدید اور روشن خیال سعودی عرب میں طلاق کارجحان بڑھ گیاہے سعودی عرب میں ہر 10 منٹ سے پہلے پہلے ایک طلاق واقع ہو رہی ہے۔ سعودی عرب کے اخبار عکاظ کی دوماہ قبل پہلے کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق مملکت کے محکمہ شماریات کی جانب سے جاری اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ ملک میں یومیہ 168 طلاقیں ہوتی ہیں۔ سال 2022 کے آخری چند مہینوں میں 57 ہزار سے زائد طلاقیں ہوئیں۔ حکومتی ادارے کے مطابق سعودیہ میں سال 2022 میں پچھلے سالوں کے مقابلے طلاقوں کی شرح میں نمایاں اضافہ ریکارڈ ہوا۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ 2022 میں سال 2019 کے مقابلے طلاقوں کی شرح 19 فیصد بڑھ گئی ہے۔

ایک طرف یہ سب کچھ ہورہاہے تو دوسری طرف سعودی عرب تیزی سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی طرف بڑھ رہاہے سات اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کی جنگ نہ چھڑتی تویہ بیل منڈھے چڑھ چکی ہوتی ۔غزہ پراسرائیلی بربریت کے باوجود سعودی عرب اس مشن سے پیچھے نہیں ہٹاہے یہی وجہ ہے کہ چنددن قبل برطانیہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن بندر نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ کی جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں دلچسپی رکھتاہے تاہم اس ضمن میں کسی بھی ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی ریاست کی تشکیل ہونی چاہیے۔ شہزادہ خالد بن بندر نے بی بی سی کو بتایا کہ سعودی عرب نے امریکہ کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات نارمل کرنے سے متعلق مذاکرتی عمل اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد معطل کر دیا تھا۔ گزشتہ سال ستمبر کے اواخر میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک امریکی ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعلان کیا تھا کہ ہر روز ہم (سعودی عرب) اس معاہدے کے قریب تر ہو رہے ہیں۔

یہ محمدبن سلمان کی پالیسیوں کاہی کانتیجہ ہے کہ سعودی عرب کے زیراثرعالم اسلام کے جتنے فورم تھے انہیں غیرمئوثر کر دیا گیا ہے۔ اوآئی سی، رابطہ عالم اسلامی سمیت تمام تنظیمیں غیرفعال ہوچکی ہیں فلسطین کے حالیہ قضیے میں جس طرح او آئی سی نے امت مسلمہ کومایوس کیاہے اس کاسہرا بھی ولی عہدکے سرجاتاہے اس کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے ایمانی مراکز حرمین شریفین کے تقدس کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔

حالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے مسلمانوں کو پوری قوت سے ہرفورم پر آواز حق بلند کرنا چاہئے اور آل سعود سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ تمھیں یہودوہنود کی بیعت وآغوش میں جانا ہی مطلوب ہے تو شوق سے جائیے ۔یہودی چھتر چھایہ میں سکونت پذیر ہو جائیے، مگرحرمین شریفین سے دست بردار ہوکر جا ئواور خداکے واسطے حرمین شریفین کی حرمت یوں سربازار یہوداں نیلام نہ کرو، آخر عالم اسلام وعرب تمھارے پاپوں کی گٹھڑی کب تک ڈھوتے رہیں گے؟۔

تبصرے بند ہیں.