اسلامی خدمت!

22

امت مسلمہ ابھی تک ہندو وزیر کے مدینہ منورہ کے دورے کے صدمہ سے باہر نہیں آئی تھی کہ شہر ریاض میں باضابطہ طور پر سعودی سرکار کی اجازت سے شراب خانہ کھلنے کی خبر منظر عام پر آگئی ہے،مدینہ منورہ میں قدم رکھنے کی بابت مذکوہ وزیر نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ انھوں نے باہر ہی سے مسجد نبویؐ کو دیکھا ہے، اس پر بنگلہ دیش کی انتہائی متنازعہ مصنفہ نے اپنے ٹویٹ میں تحریر کیا کہ موصوفہ کو وہ سلام پیش کرتی ہیں کہ انھوں نے اس موقع پر سعودی خواتین کی طرح سکارف نہیں پہنا تھا۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ آل سعود کے موجودہ فرماء رواء روشن خیالی کے جس سفر پر گامزن ہیں ،غیر مسلم وزیر کا شہر مدینہ کا دورہ اسی سلسلہ کی کڑی تھا، ہندوہستانی حجاج اکرام کے متعلق معاملات کے لئے اس مقدس جگہ پر خاتون وزیر کی آمد کا کوئی جواز نہیں تھا۔ مسجد نبویؐ وہ مقدس مقام ہے جس کی زیارت کا پہلا قرینہ ہی اس کا احترام ہے،آپ کسی بھی گوردوارہ میں داخل ہوں تو وہاں سکھ انتظامیہ بلا لحاظ، عہدہ ،منصب، اور سرکاری حیثیت یا عام زائر کے طور پر آپ کو سر ڈھاپنے کا حکم صادر کرتی ،اور کوئی لحاظ نہیں رکھتی ہے، سیکولرصارفین کی طرف سے اس روش کو سراہا جا رہا ہے۔

سعودیہ میں دو مقدس شہر ہیں جہاں غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتا، مکہ اور مدینہ کی حدود میں جلی حروف میں غیرمسلم کے لئے داخلہ کی بابت انتباہ رقم کیا گیا ہے،سعودی سرکار ماضی میں اس کا باقاعدہ خیال اور اہتمام کرتی رہی ہے۔

شہنشاہ سلامت نے وژن 2030 کے تحت ایسے سنہری کارنامے انجام دیئے کہ شرمائے یہود کے مصداق آتے ہیں، تفریح کے نام پر سنیماء اور کنسرٹ کا آغاز ہے، محتاط اندازے کے مطابق مذکورہ مدت تک تین سو سینمائوں کا قیام پروجیکٹ کا حصہ ہے، 35 برس سے بند سنیماء کو کھولنے میں اہل عرب کی کونسی خدمت پوشیدہ ہے اس پر راوی خاموش ہے، آئی فون، لیپ ٹاپ کی صورت میں ہر ہاتھ میں سینماء تو موجود ہے۔ اگر فلم بینی ناظرین کے لئے اتنی ناگزیر ہے ،تو ترکیہ کی طرز پر فلمیں اسلامی تاریخ سے دکھائیں ،یہ خطہ چودہ سو سالہ تاریخ کا امین بھی ہے۔

بادشاہ سلامت کا خیال ہے کہ تیل پر مکمل انحصار کی بجائے ٹورازم کو پر موٹ کیا جانا چاہئے،روشن خیالی کی ساری مشق اس لئے کی جارہی ہے، سعودی ریاست جمہوریت جیسی ”نعمت“ سے محروم چلی آرہی ہے اس لئے سرکار کو نہ تو اپوزیشن کا کوئی خوف ہے نہ سیاسی احتجاج کا کوئی ڈر ہے، علماء کرام بھی بادشاہت کے سامنے بے بس ہیں، باشادہ سلامت کے ان اقدامات کا فیڈ بیک مسلم ممالک سے آتا ہے، جہاں اظہار خیال کی کسی حد تک آزادی ہے۔

اپنے ملک میں مکمل خاموشی کو ”نیم رضامندی“ سمجھتے ہوئے فرماء رواء نے شراب خانہ کھولنے کا قصد ان سفارت کاروں کی مشکلات کو دیکھ کر کیا ہے، جنہیں دارالحکومت ریاض میں شراب کے حصول میں پریشانی ہے، سفارتی عملہ کو سرکار کی سرپرستی میں شراب فراہم کرنا نجانے کونسے سفارتی اصولوں اور آداب کا خاصہ ہے،قواعد ضوابط اس بارے میں خاموش ہیں۔ حکام کی دلیل ہے کہ اس کا مقصد شراب کے غیر قانونی کاروبار کا قلع قمع کرنا ہے، احتیاط یہ برتی ہے کہ21 سال سے کم عمر افراد کو فروخت نہیں کی جائے گی، نیز سفارتی عملہ کے ڈرائیور کو بھی نہیں دی جائے گی، بلکہ ”صاحب بہادر“ کو بنفس نفیس خود حاضر ہو کر شراب خانہ سے لینا ہوگی،اور صرف رجسٹرڈ افراد ہی اس ”نعمت“ سے سرفراز ہو ں گے۔ 1952 میںشراب کی خریدو فروخت پر پابندی اس لئے لگائی تھی کہ شاہ عبد العزیز کے 19سالہ لخت جگر نے نشہ میں دھت ہو کر سفارت کار کا قتل کیا تھا، تو آج کی شراب نشہ جیسی علت سے کیا محروم ہوگئی ہے؟

سعودی قانون کے مطابق شراب پینے ،خریدو فروخت کی سزا، قید ،جرمانہ اور عوامی مقام پر کوڑے لگانا ہے،تاہم فراہم کردہ ضابطہ میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ شراب نوشی پرکس کس کو کوڑے لگائے جائیں گے، اس وقت سعودی عرب میں 41 فیصد تعداد اجنبیوں کی ہے ،ریاض میں کھلے نئے شراب خانہ سے مستفید ہونے میں غیر مسلموں کے لئے کیا رکاوٹ ہوگی؟ سفارتی قوانین میں کہاں لکھا ہے کہ سفارت کاروں اورملازمین کی شراب کی ضروریات پورا کرنا سعودی ریاست کی ذمہ داری ہے،وہ ریاست جو امت مسلمہ کی امام سمجھی جاتی ہو، یہ چیز انسانی زندگی کے لئے اتنی بھی اہم نہیں کہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن جائے۔ کل کی بات ہے جزیرہ عرب کی ایک ریاست قطرمیں فٹ بال کا عالمی مقابلہ ہوا، وہاں بھی بادشاہت کا نظام ہے، مگر اس کے فرمارواء نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی تشخص کو باوقار انداز میں اُجاگر کیا، شائقین کو پینے پلانے کی کوئی سہولت میسر نہ تھی، امیر نے اسلامی اقدا ر روایات کو روشناس کروانا لازم سمجھا۔

حیرت ہے جاپانی قوم کا کوئی سرکاری مذہب نہیں ، وہ کسی الہامی کتاب کے پیرو کار بھی نہیں مگر کردار کے لحاظ سے اس کا شمادنیا میں صف اول کی اقوم میں ہوتا ہے،وہ ریاست جس کی سرزمین سے طلوع اسلام کی کرنیں پھوٹی ہوں، صفہ سے تربیت پانے والوں اصحاب نے دنیا کے وسیع علاقہ پر حکومت کی ہو، پورے عالم میں بہترین انسان قرار پائے ہو، وہاں مقامی اور غیر مسلم افراد کی کردار سازی کا کوئی اہتمام نہیں۔ ایک عہد تھا جب اسلامک اسٹیڈیز، اسلامی خدمات، القدس ورثہ کے تحفظ پر شاہ فیصل ایوارڈز دیئے جاتے تھے، عصر حاضر کے باشادہ سلامت کے طرز حکمرانی سے لگتا ہے کہ یہ درخشاں روایت مستقبل میں دم توڑ جائے گی۔

غیر ملکی جامعات کے سروے ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں سیکولرائیزیشن یا مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے، کیا اسکی وجہ وہاں کی ایلیٹ کلاس کا کلچر ہے یا ارباب اختیار کی پالیسیوں کا فیض ہے، اس پر تحقیق مطلوب ہے۔

آل سعود کو حرمین شریفین کا خادم ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس بابت انکے ناتواں کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کہ وہ ایسی پالیسیاں وضع کریں کہ پورے عرب میں اسلامی تہذیب، کلچر کو فروغ ملے، نسل نو کی کردار سازی کا ایک منظم پروگرام وجود میں آئے جس کے مثبت اثرات پوری امت کے نوجوانان کی شخصیت پر مرتب ہوں، جن خرافات کا خاتمہ نبیؐ مہربان نے کیا تھا آل سعود کے ہاتھوں اس کا احیاء کونسی اسلامی خدمت ہے؟

تبصرے بند ہیں.