خدمتِ خلق۔۔۔۔۔۔وسیلہِ قربِ حق!

55

صاحبو! جب سے بنی نوع آدم قابلِ ذکر ہوئی ہے، بنیادی طور پر دو فکری قبیلوں میں منقسم ہے۔ ایک قبیلہ ہابیل ہے، اور دوسرا قابیل کا قبیلہ ہے۔ قابیل کسی قربانی کا قائل نہیں، ایثار اور احسان اس کی لغتِ فہم میں شامل نہیں۔ اپنے مفادات کے حصول کے لیے یہ قبیلہ کسی حد تک بھی جا سکتا ہے، یہاں تک کہ قتل و غارت کے راستے پر چلنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ یہ بائیں طرف والے لوگ ہیں … اصحاب الشمال ہیں … خود غرضی کے راستے پر ہیں۔ بنی ہابیل humble ہوتے ہیں، اپنے مزاج اور اپنے مزاج کے اظہار میں۔ یہ قربانی کے قائل ہیں، قربانی دیتے ہیں اور قرب کے اہل ٹھہرتے ہیں۔ قربانی قرب دیتی ہے۔ یہ اپنے بھائی کے لیے اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں، بھائی نہیں چھوڑتے۔ ہابیل کا اپنے بھائی قابیل سے مکالمہ قرآن میں درج ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تُو نے قتل کے ارادے سے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا تو میں تمہاری طرف ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ الغرض یہ بے غرض لوگ ہوتے ہیں … اخلاص کی خوشبو میں ڈوبے ہوئے لوگ … ارد گرد کے ماحول کو خوشبودار کرنے والے لوگ۔ خود غرضی اندھیرا ہے، ظلمت ہے۔ اخلاص روشنی ہے، نور ہے۔ اس دنیا میں جتنی روشنی اور خوشبو ہے، سب قبیلہ ہابیل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی قربانیوں کی دین ہے۔ یہ لوگ خلق کی خدمت کرتے ہیں، اور خالق کا قرب پاتے ہیں۔

صاحبو! خدمت خلق کے حوالے سے منعقد کی گئی اس تقریب میں شامل ہونا، اس میں سامع ہونا اور پھر اس میں مقرر ہونا، میرے لیے ایک سعادت اور اعزاز کی بات ہے۔ پہلی سعادت تو یہ کہ یہاں ”وتعاونو علی البر والتقویٰ“ (اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو) کے حکم کی بجا آوری کی ایک سبیل مہیا ہوئی۔ دوسری سعادت یہ کہ مجھے اپنی مادرِ علمی کی مکرر زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ گورنمنٹ کالج کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کی راہداریوں میں آج سے چالیس برس قبل ایک سہما ہوا، لکنت زدہ طالب علم گھوما کرتا تھا، آج اسی جگہ ایک پُروقار تقریب میں اسے مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

یہاں آنے سے ایک روز قبل میں نے برادرم ڈاکٹر عبد القدوس سے پوچھا کہ مجھے یہاں کس موضوع پر کلام کرنا ہو گا۔ کہنے لگے، ہم آپ سے ”بحالیٔ معذوراں کا اسلامی تناظر“ پر کچھ سننا چاہیں گے۔ فون پر انہیں یہ بتانے کا وقت نہیں تھا کہ یہ perspective، منظر یا تناظر کسی موضوع کا نہیں بلکہ فرد کا محتاج ہوتا ہے۔ میری عاجزانہ رائے میں کوئی تعلیم فی نفسۂ دینی یا دنیاوی نہیں ہوتی، بلکہ یہ بندہ ہے جو دینی ہے یا دنیاوی۔ یہ ہماری پوری زندگی ہے جو دینی ہے یا پھر دنیاوی۔ ہمیں بالعموم یہ بتایا جاتا ہے کہ مسجد کے اندر کی زندگی دینی ہے اور مسجد کے باہر کی دنیاوی۔ حقیقت اس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دینی تناظر رکھنے والا شخص بازار میں تجارت کرے یا فزکس کی لیبارٹری میں کسی برقیاتی ذرے کے جگر کو چیر کر دیکھے، یا پھر کسی رصدگاہ میں سیارگانِ برق رفتار کے مدار کا ملاحظہ کرے، وہ دراصل دینی کام ہی کر رہا ہے، کیونکہ اس کے پیشِ نظرمخلوق خدا کی خدمت ہے، آیات کی تلاوت ہے، تفکر و حکمت ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دیانت دار تاجر قیامت کے روز نبیوں اور صدیقوں کے ساتھ ہو گا۔ یہ سعادت اسے کیسے میسر آتی ہے؟ تجارت بنیادی طور پر خدمتِ خلق کا ایک شعبہ ہے۔ ایک دیانت دار تاجر مخلوقِ خدا کے لیے سامانِ زیست کی فراہمی کا سبب بنتا ہے، وہ مخلوق میں آسانیاں بانٹتا ہے۔ دوسری طرف بدیانت تاجر مخلوقِ خدا کا استحصال کرتا ہے، وہ ہر قدم پر گھات لگائے بیٹھا ہے کہ منافع کیسے سمیٹنا ہے، ذخیرہ اندوزی اور زراندوزی کیسے کرنی ہے۔ اسی طرح تفکر و تدبر کی فضیلت بھی مسلم ہے۔ ایک لمحے کا تفکر ستر (70) سال کی عبادت سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ دین ہی تو ہے۔ اس کے برعکس اگر ایک انسان کے مزاج میں دنیاداری ہے تو وہ ہر کام میں سودے بازی کرے گا۔ وہ مسجد اور خانقاہ میں بیٹھا ہو گا اور اپنی مسند کے دام وصول کر رہا ہو گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ دین کو دنیاداروں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا ”دین داروں“ نے … دین کے پردے میں دنیا وصول کرنے والوں نے … قبیلہ قابیل کے لوگ جب دین میں دَر آئے تو ا نہوں نے دین کو بھی دنیا سمیٹنے کا ذریعہ بنا لیا۔ دین نے دولت تقسیم کی اور لوگوں کو اکٹھا کیا، دین میں دَر اندازی کرنے والوں نے، فرقہ پرستوں نے، دولت اکٹھا کیا اور لوگوں کو تقسیم کر دیا۔

دراصل حصول اور وصول کا نام دنیا ہے … اور خدمت، قربانی اور ایثار کا نام دین ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ، جو خود بھی راوین تھے، بتایا کرتے کہ دین کی آسان تعریف یہ ہے کہ میرے بھائی! تیری ضرورت میری ضرورت سے زیادہ ہے۔ صاحبو! ہم نے سنا کہ عبادت کی قضا ہے لیکن خدمت کی قضا نہیں۔ مرشد فرمایا کرتے: ”انسان کو اس کی عبادت وہاں نہیں پہنچا سکتی جہاں اس کی خدمت اسے پہنچا دیتی ہے“۔

خدمت کا تسلسل شفافیت سے ممکن ہوتا ہے۔ شفافیت سے مراد یہ ہے کہ بندہ خود سے خود کو نکال لے۔ کسی معاشی اور معاشرتی فائدے کے لیے کی جانے والی خدمت جاری نہیں رہ سکتی۔ جاری رہ جانے والی خدمتیں بے لوث ہوتی ہیں۔ اگر ہمیں خدمت کا لنگر ہمیشہ کے لیے جاری رکھنا ہے تو اپنے ذاتی مفاد اور مزاج کو امورِ خدمت گاری سے منہا کر لینا چاہیے۔ بزرگوں کی خانقاہوں پر، ان کے نام پر، جاری و ساری لنگر مخلوقِ خدا کے لیے ان کی بے پناہ محبت اور بے لوث خدمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

Rehabilitation کو آسان اور اسلامی اصطلاحات میں بیان کرنا چاہیں تو یہ دو چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک تیمار داری اور دوسرا خدمت۔ یعنی ایک مکمل اور جامع comprehensive تیمارداری … یہ ایک ایسی تیمار داری ہے جس میں اتنی بے لوث اور انتھک خدمت شامل کار ہو جاتی ہے کہ مریض اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ مخلوق کی خدمت خالق کے قرب کا ذریعہ ہے۔ خدمت کو عبادت اس لیے کہا جاتا ہے کہ عبادت کا مقصد بھی حصولِ قرب الٰہی ہے اور خدمت بھی یہی منزل عطا کرتی ہے۔ عبادت بھی بے ریا ہونی چاہیے اور خدمت بھی وہی ہوتی ہے جو بے ریا ہو۔ دکھاوے کی خدمت سیاست ہوتی ہے یا پھر تجارت۔ خدمت برائے مخلوق نہیں بلکہ برائے خدا ہوتی ہے، اس لیے ذریعہِ قربِ خدا ہوتی ہے۔

ایک معروف حدیثِ قدسی ہے، مفہوم جس کا یوں ہے کہ قیامت کے روز رب تعالیٰ اپنے بندے سے کہے گا، میں بیمار تھا، تُو نے میری تیمار داری نہیں کی، میں بھوکا تھا، تُو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، پیاسا تھا، پانی نہیں پلایا۔ بندہ عرض کرے گا، یا رب! تیری ذات تمام حوادث سے پاک ہے، میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا اور تیری تیمار داری کس طرح کرتا۔ رب تعالیٰ بندے سے کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا، اگر تُو اس کی تیمار داری کرتا تو گویا میری تیمار داری کرتا۔ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا، اگر تُو اسے کھانا کھلاتا تو گویا مجھے کھانا کھلاتا۔ عجیب بات ہے، وہ اپنے لیے قرض حسنہ مانگتا ہے اور وہ قرض یہاں اُس کے کسی بندے کے کام آتا ہے۔ بندے اور رب کے درمیان فرق ضرور کریں لیکن فرق کو تفریق نہ بننے دیں۔ تفریق تفرقہ کی طرف لے جائے گی۔ وحدتِ ذات ہو، وحدتِ خیال ہو، یا پھر وحدتِ انسان، تفرقے سے پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔

صاحبو! تین درجے ہیں، معاملات دین کے حوالے سے … ایک درجہ اسلام ہے، یعنی قانون کا درجہ … دوسرا ایمان ہے، یعنی قلب میں کسی اعتقاد کا راسخ ہونا … اور تیسرا احسان، یعنی وہ کچھ بھی اپنے ذمے لے لینا جو فرض نہ تھا۔ تصوف درجہِ احسان ہے۔ خدمت … احسان اور تصوف کے درجے سے تعلق رکھتی ہے۔ گورنمنٹ کالج کے بارے میں اشفاق صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ درس گاہ نہیں، درگاہ ہے۔ اس درگاہ سے بڑے بڑے صوفی نکلے ہیں۔

پرنسپل نذیر احمد سے لے کر ہمارے مرشد حضرت واصف علی واصفؒ تک … اِس درگاہ نے بڑے صوفیوں کی آبیاری کی ہے۔ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ قرعہ فال کس کے نام نکل رہا ہے۔ وقاص میرا فین ہے اور میں وقاص کا فین ہوں۔ یہ جذبہ خدمت سے سرشار ایثار اور قربانی کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔ جو خود سہارے کا محتاج ہو، وہ دوسروں کا سہارا بن رہا ہے۔ اس کے عزم اور حوصلے نے ناممکن کو ممکن بنا دیا ہے۔ اس سے بڑی روحانیت اور کرامت کیا ہو گی! اس کو سلام ہے، اور اس کی تنظیم پیس ٹو لائف Pace 2 Life کو ہماری طرف سے نامہ سپاس!!

(گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پیس ٹو لائف کی تقریب میں اظہارِ خیال)

تبصرے بند ہیں.