پر امن احتجاج و امن عامہ کا قانون !!!

50

اس وقت جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں تمام ٹیلی ویژن چینلوں پر مجوزہ آئینی ترامیم کا معاملہ زیر بحث ہے۔گزشتہ کئی دنوں سے حکومتی اتحاد عدالتی اصلاحات کے لئے آئینی پیکیج کو منظو ر کرانے کیلئے مشاورت اور جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن ان ترامیم کی منظور ی کو روکنے کیلئے کوشاں ہے۔ دیکھتے ہیں کہ ترامیم کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ اس آئینی پیکیج کے حوالے سے دو رائے ہو سکتی ہیں۔ یقینا اس میں مثبت نکات بھی ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نکات پر اعتراض اور تنقید کا پہلو نکلتا ہو۔ اس آئینی پیکیج پر تبصرے کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔ میں آج کالم میںپر امن احتجاج و امن عامہ بل (جو دونوں ایوانوں سے منظوری اور صدر کے دستخط کے بعد ایکٹ یعنی قانون بن چکا ہے) پر بات کرنا چاہتی ہوں۔
پاکستانی سیاست کا المیہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے پیروکار ہر چھوٹے بڑے معاملے کو سیاست کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعت کوئی اچھی قانون سازی کرے، مفاد عامہ کا منصوبہ شروع کرے یا مثبت کارگزاری کا مظاہرہ کرے، ہم دیکھتے ہیں کہ بغض و عناد میں اچھے اقدامات کو بھی ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔آج تک نواز شریف کے سیاسی مخالف موٹر وے کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ میٹرو ، اورنج ٹرین وغیرہ کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ اپنی آمدورفت کیلئے مخالفین بھی انہی ذرائع آمدورفت کو استعمال کرتے ہیں۔ بحث چل نکلے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے مخالفین ذولفقار علی بھٹو اور نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسے بھی ہیں جو سیاسی عناد میں ایٹمی پروگرام کو ہی بے توقیر کرنے میں مصروف رہتے ہیں ۔ مزید کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ یہ ایک نہایت قبیح روایت ہے۔ افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ چلن مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔
ہفتہ، دس دن پہلے پی۔ٹی۔آئی اور سنی اتحاد کونسل کی شدید مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی سے پر امن احتجاج وامن عامہ بل کثرت رائے سے منظور ہو ا ہے۔اس کے بعد ایوان بالا یعنی سینٹ میں بھی اس کی منظور ی ہوئی۔ یہ بل مسلم لیگ (ن) کے رہنما عرفان صدیقی صاحب نے متعارف کرایا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس قانون کے ایک آدھ نکتے پر اعتراض کی گنجائش موجود ہو۔ تاہم عمومی طور پر یہ ایک مثبت قانون ہے۔ اس کے عنوان ہی سے ظاہر ہے کہ اس قانون کا مقصد پرامن اجتماع اور امن عامہ کو یقینی بنانا ہے۔ اس قانون کے مطابق اسلام آباد کی حدود میں کسی بھی اجتماع یا جلسے کے لئے حکومت سے پیشگی اجازت لینا لازمی ہے۔ اس ضمن میں کم از کم سات دن پہلے درخواست دینا ہو گی۔ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جلسے کی اجازت دینے سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں سے سکیورٹی کلیئرنس لے گا۔یہ جلسہ یا اجتماع حکومت کی طرف سے مختص کردہ علاقے یا جگہ پر کرنا ہو گا۔ حکومتی اجازت کے بغیر ہونے والے جلسے کو پولیس افسر کسی بھی وقت منتشر کر سکے گا۔ انتہائی صورت میں غیر قانونی جلسے کے اراکین کو حراست میں لیا جا سکتا ہے۔ بغیر اجازت جلسے یا اجتماع پر تین سال قید ہو گی۔ دوسری مرتبہ غیر قانونی یا بلا اجازت جلسہ یا اجتماع کرنے پر دس سال قید کی سزا ہو گی۔ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں میں اس ضمن میں قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ جبکہ دارالحکومت ا سلام آباد جیسے حساس علاقے میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں تھا ۔لہٰذا ضرورت محسوس کی گئی کہ یہاں بھی پرامن اجتماع کو یقینی بنانے کیلئے قانون سازی ہونی چاہیے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد یہ ہے کہ مخالفین کی سیاسی سرگرمیوں کو روکا جاسکے۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صرف پر تشدد اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے یہ قانون لائی ہے۔
گزشتہ ایک دہائی سے ہمارے ہاں جس طرح کے احتجاج اور جلسوں کی روایت چل نکلی ہے، اس تناظر میں یہ بل قابل جواز معلوم ہوتا ہے۔ اسلام آباد ایک نہایت اہم شہر ہے۔ بیسیوں ممالک کے سفارت خانے یہاں قائم ہیں۔ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت یا گروہ کو یہ اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے کہ وہ کسی بھی وقت یہاں پر سینکڑوں ، ہزاروں افراد کا اجتماع کرئے۔سر عام گالی گلوچ اور الزام تراشی کرئے۔ دل چاہے تو کسی بھی اہم شاہراہ پر دھرنا دے کر بیٹھ جائے۔عام شہریوں کے راستے روکے۔ ان کے روز مرہ معمولات حیات کو منفی طور پر متاثر کرئے۔سماجی اورمعاشی سرگرمیوں پر اثر انداز ہو۔ ماضی قریب میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ 2014 ء کا دھرنا ہم سب کی یاد میں تازہ ہے۔ یہ دھرنا 126 تک جاری رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق اس دھرنے سے ملک کو کم و بیش ساڑھے پانچ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس زمانے میں چینی صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ اربوں ڈالر کے معاہدے طے پانے تھے۔ اس تماشے کی وجہ سے چینی صدر کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا۔
جب تک یہ دھرنا جاری رہا تب تک اسلام آباد کے شہریوں کا جینا حرام رہا۔ بچوں کو اسکول جانے، نوکری پیشہ افراد کو دفاتر جانے، میں مشکلات کا سامنا رہا۔ یہ خبریں بھی آئیں کہ مریضوں کو اسپتال لے جاتے ہوئے ایمبولینسیں ہجوم میں پھنس کر رہ گئیں۔ کوئی اپنی جان سے گیا تو کسی حاملہ خاتون نے راستے میں ہی بچے کو جنم دے دیا۔ اس تماشے سے پاکستان کی دنیا بھر میں رسوائی الگ ہوئی۔
جو سیاسی جماعتیں اس قانون کی مخالف ہیں ، ان کا خیال ہے کہ یہ قانون سیاسی سرگرمیوں اور اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی سرگرمیوں اور رائے کی آزادی کو بے مہار چھوڑ دینا چاہیے؟ کیا ان سرگرمیوں کو کسی قانونی اور اخلاقی دائرہ کار کا پابند نہیں ہونا چاہیے؟ کیا شاہراہوں کو بند کئے بغیر، انتظامیہ کے اختیارات کو چیلنج کئے بغیر اور عوام کی زندگی کو اجیرن بنائے بغیر سیاسی سرگرمیاں نہیں کی جا سکتیں؟ آئین پاکستان کا آرٹیکل 16 ہر شہری کو اجتماع کا حق دیتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ پابندی بھی عائد کرتا ہے کہ یہ اجتماع پرامن ہونا چاہیے۔ اس میں اسلحہ کے استعمال کی بھی ممانعت ہے۔ مطلب یہ کہ پرامن اجتماع ایک آئینی تقاضا ہے۔ لیکن ماضی میں یہ آئینی تقاضا نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ ویسے یہ کوئی انوکھاقانون نہیں ہے۔ دنیا کے تمام مہذب ممالک میں امن عامہ کو یقینی بنانے سے متعلق قوانین موجود ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ جیسے ممالک میں بھی شہریوں کو حقوق حاصل ہیں تو ان پر قانونی پابندیاں بھی نافذ ہوتی ہیں۔ احتجاج کی بھی حدود متعین ہیں۔ شہری منہ اٹھا کر کہیں بھی احتجاج یا سیاسی سرگرمیوں کے لئے اکھٹے نہیں ہو سکتے۔
پاکستان میں ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حقوق تو مانگتے ہیں ، لیکن جہاں ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہاں ہم آزادی اور حقوق کا شور ڈال دیتے ہیں۔ لازم ہے کہ بطور پاکستانی شہری ہم اپنی سیاسی ، مذہبی یا سماجی سرمیوں کو قانونی دائرہ کا ر کا پابند کریں۔
اس ساری بحث کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے کثیر القوانین(highly legislated) ممالک میں ہوتا ہے۔ یہاں ہر چھوٹے بڑے معاملے پر قانون موجود ہے۔ ایک طرح سے یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اصل مسئلہ قوانین کی موجودگی کا نہیں ، ان کے نفاذ کا ہے۔ ہمارے ہاں قوانین کے اطلاق اور نفاذ کا معاملہ نہایت کمزور ہے۔ کوئی بھی قانون کی دھجیاں اڑا دے۔ معاملہ پوچھ گچھ تک محدود رہتا ہے۔ یا پھر تھانے ، کچہریوں میں ہی لٹکتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں ہتک عزت کے قانون کی مثال دی جا سکتی ہے۔ کوئی بھی کسی پر کوئی بھی الزام لگا دے۔معاملہ سزا یا جرمانے تک نہیں پہنچے گا۔ بس کروڑوں، اربوں روپے ہرجانے کے دعوے دائر ہوتے ہیں۔میرا نہیں خیال کہ آج تک کوئی ایک بھی کیس اپنے انجام کو پہنچا ہو۔ جبکہ امریکہ برطانیہ جیسے ممالک میں ہتک عزت کے کیسز پر لوگوں کی جان عذاب میں آ جاتی ہے۔ بالکل اسی طرح 9 مئی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دوسرا سال ہے لیکن ابھی تک کسی ایک بھی مجرم کا تعین نہیں ہو سکا ہے۔ ان مثالوں کے تناظر میںپر امن اجتماع و امن عامہ کا قانون اہم سہی، تاہم اسکا فائدہ تب ہو گا جب اس کا نفاذ ممکن ہو سکے گا۔مجھے معاف کیجئے لیکن اسکا امکان کم ہی دکھائی دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.