مخدوم قلی فراغی

69

معروف محقق ڈاکٹر حسن علی بیگ کی کتاب ’’صدا بہ صحرا‘‘ شائع ہوئی۔ کتاب بنیادی طور پر مجموعہ ہے ان مضامین کا جو 45 برس میں مختلف مواقع پر لکھے گئے اور قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہوئے۔
کتاب میں شامل ایک حصہ ان یادداشتوں پر مشتمل ہے جو ڈاکٹر حسن علی بیگ کے والد گرامی مرزا محمود علی بیگ مرحوم نے وقتاً فوقتاً اپنے اجداد، خاندان، رشتہ داروں، محلے داروں کے حوالے سے ڈاکٹر بیگ صاحب کو بتائیں۔ ان مضامین کو پڑھ کر بیسویں صدی کی معاشرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پاکستان کی سیاست سے اکتاہٹ کے بعد ایسی ہی کتابیں ذہن کو تازگی اور سکون فراہم کرتی ہیں۔ تاریخی کتب کے حوالے سے بھی دیکھا جائے تو جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ بادشاہوں کے گرد گھومتی ہیں یا پھر میدان جنگ کے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں۔
لیکن معاشرت سے متعلق کوئی خاطر خواہ معلومات نہیں ملتی ہیں۔ لاہور میں ہمارے ایک بزرگ دوست مولوی عبدالعزیز مرحوم ہوا کرتے تھے۔ مولوی صاحب کو ڈاکٹر مبارک علی سے علمی عقیدت انتہا کی حد تک تھی۔ مولوی صاحب بتایا کرتے تھے کہ کسی بھی دور کی معاشرت جاننے کے لیے اس دور کے ان افراد کی آپ بیتیاں پڑھیں جن کا واسطہ اقتدار کے ایوانوں کے بجائے عام لوگوں سے ہوتا تھا۔ اسی حوالے سے مولوی عبدالعزیز صاحب نے کتاب ’’لطف اللہ کی آپ بیتی‘‘ کے مطالعے کی ترغیب دی۔ لطف اللہ فارسی کے استاد تھے اور انگریزوں کو فارسی پڑھایا کرتے تھے۔
کتاب کا دوسرا حصہ ڈاکٹر حسن بیگ کے اسفار، شخصی خاکوں اور مختلف مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔ کتاب میں ایک مضمون وسطی ایشیا کے شاعر مخدوم قلی فراغی پر ہے، جن کا کلام وسطی ایشیائی ممالک میں انتہائی مقبول ہے۔ فراغی ترکمان قوم سے تعلق رکھتے تھے اور ترکمانستان کے قومی شاعر ہیں۔ مختصر صفحات پر ڈاکٹرصاحب نے علی قلی فراغی کا تعارف اور ان حالات و افکار کے چیدہ چیدہ نکات
نہایت مفصل طور پر بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ اقبالؒ کا یہ شعر ذہن میں گونجتا رہا جو انہوں نے فاطمہ بنت عبدااللہ کے متعلق کہا تھا کہ:
یہ کلی بھی اس گلستان خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یارب، اپنی خاکستر میں تھی!
روس کی ہوس اقتدار نے جہاں وسطی ایشیا کے عوام کے سماجی رابطوں کو منقطع کیا وہاں اسلام کی انقلابی تعلیمات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ سوشلسٹ معیشت انسان دوستی، امن، مساوات، عوام پروری اور محبت کے اثرات پیدا کر سکتی تھی لیکن فلسفہ مادیت کی آمیزش نے قطعاً مختلف نتائج پیدا کیے۔ تقریباً ایک صدی تک سوویت یونین کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے خدا کی ہستی، یوم آخرت، رسولوں اور مقدس کتابوں کی شب و روز مخالفت کی اور جیسا کہ ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے بھی اپنے مضمون میں ذکر کیا کہ 1917ء میں عربی رسم الخط کے تمام مسودات اور کتابوں کو مذہبی سمجھ کر تلف کر دیا گیا۔ اسی لیے سوویت یونین سورہ کہف کی آیت نمبر106 ’’یہ ان کی سزا ہے، ( یعنی ) جہنم اس لیے کہ انہوں نے کفر کیا اور ہماری آیات اور ہمارے پیغمبروں کی ہنسی اڑائی‘‘۔ کے مطابق برباد اور رسوا ہوا۔ علامہ اقبالؒ نے1931ء میں سر فرانس ینگ ہزینڈ کو ایک خط لکھا تھا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ :
’’ذاتی طور پر میں نہیں سمجھتا کہ روسی فطرتاً لامذہب ہیں۔ اس کے برعکس میرا خیال ہے کہ روسی مرد اور عورتیں بڑے مذہبی ر جحانات رکھتے ہیں اور روسی ذہن کا موجودہ منفی رجحان ہمیشہ باقی نہیں رہے گا کیونکہ کوئی عمرانی نظام دہریت کی اساس پر باقی نہیں رہ سکتا۔ جوں ہی اس ملک میں حالات ٹھیک ہوجائیں گے اور اس کے باشندوں کو اطمینان سے غور کرنے کا وقت ملے گا۔ وہ مجبوراً اپنے نظام کی کوئی مثبت بنیاد تلاش کریں گے۔ چونکہ بالشویت کے ساتھ خدا کا قائل ہونا اور اسلام قریب قریب ایک ہی چیز ہیں۔ اس لیے مجھے ذرا بھی تعجب نہ ہو گا اگر کچھ زمانے کے بعد روس اسلام کو ہضم کرلے یا اسلام روس کو‘‘۔
ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے قلی فراغی کے جو چند اشعار نقل کیے ہیں اس سے فراغی کی فکری سمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، ان کی شاعری سے ان کی قوم پرستی کی شدت واضح ہوتی ہے۔ جن اشعار میں وہ حکمرانوں اور مفتیوں پر تنقید کرتے ہیں اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایت پرستی کے بجائے ترقی پسند فکر اور مثبت تبدیلی کے علمبردار تھے۔ مذہبی پیشوائیت اور نظام سرمایہ داری کا گٹھ جوڑ ازل سے چلا آ رہا ہے، مذہبی پیشوائیت بجائے خویش نظام سرمایہ داری ہی کی ایک شاخ ہے کہ سرمایہ داری کی اصل بنیاد یہی ہے کہ بغیر محنت کے دولت کا حصول۔
مذہبی پیشوائیت بھی یہی کرتی آ رہی ہے کہ بالا دست طبقات کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ قرآن پاک نے فرعون، قارون اور ہامان کی شکل میں تین طبقات کی نشاندہی کی ہے فرعون سیاست و ملوکیت کا مجسمہ، قارون نظام سرمایہ داری کا علمبردار اور ہامان مذہبی پیشوائیت کا نشان، یہی طبقات آج تک ہر دور میں اقتدار اور وسائل پر قابض رہے ہیں اور عوام کو:
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاج خانقاہی میں اسے
میں الجھا کر رکھا ہوا ہے۔ اس امر کے مشاہدے کے لیے وطن عزیز کی آج کی سیاست کو دیکھ لیں۔ قلی فراغی کے جو اشعار ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے درج کیے ہیں اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فراغی نے بھی اپنے دور کے اجارہ دار طبقے کے ظلم و ستم اور غریب عوام کی حالت زار کو موضوع بنایا ہے جو عوام میں ان کے کلام کی پذیرائی کا بنیادی سبب ہے۔ مخدوم قلی فراغی کے دو تخلص کا استعمال بھی خوب ہے۔ البتہ دوسرے تخلص فراغی کے حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اردو میں اس کا مطلب فراق (جدائی ) ہو گا یا فراغت سے فراغی بنا ہے؟
یقینا ڈاکٹر حسن بیگ صاحب کے پاس مخدوم قلی فراغی کے کلام کا نسخہ ہو گا۔ ان سے درخواست کروں گا کہ وہ ترکمانستان اور پاکستان کے متعلقہ اداروں کو فراغی کے اردو ترجمے کی اشاعت کے اہتمام کا مشورہ دیں، اس ضمن میں ترکمانستان حکومت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.