تحریک انصاف اور سیاسی سوچ

51

تحریک انصاف اور الطاف بھائی والی متحدہ میں کئی باتیں مشترک ہیں خاص طور پر انتہا پسند رویوں کے حوالے سے۔ متحدہ والے اگر اپنے قائدکو پیر صاحب کا درجہ دیتے تھے تو تحریک انصاف والے اپنے قائد کو مرشد کہتے ہیں۔ متحدہ والوں کے لئے بھی ان کے قائد ریڈ لائن کا درجہ رکھتے تھے اور نوے کی دہائی کے شروع میں کراچی کے در و دیوار پر چاکنگ کی جاتی تھی کہ ”جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے“ اور تحریک انصاف والوں کے لئے بھی ان کے قائد ریڈ لائن کا درجہ رکھتے ہیں حالانکہ سیاست کے میدان کارزار میں کوئی ریڈ لائن نہیں ہوتی حتیٰ کہ اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو سگے بہن بھائی اور ماں باپ تک کو ریڈ لائن نہیں بنایا جاتا بلکہ اپنے ہاتھوںسے مارا جاتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان سلیمان عالی شان نے اپنے سامنے اپنے بیٹے مصطفی کو اپنے سپاہیوں کے ہاتھوں مروایا۔ ہم انگریزوں کو تو ظالم کہہ دیتے ہیں کہ انھوں نے مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بیٹوں کو ان کے باپ کے سامنے قتل کیا لیکن بھول جاتے ہیں کہ مغل سلطنت کے اورنگ عالمگیر نے اپنے سگے بھائیوں کی گردنیں اڑائیں اور دارا شکوہ جو شاہ جہاں کو بہت عزیز تھا کیونکہ اس کی آنکھیں اپنی ماں کی طرح تھیں اسے قتل کرنے کے بعد اس کی آنکھیں ایک تھال میں رکھ کر شاہ جہاں کے سامنے پیش کیں اور پھر شاہ جہاں جو اورنگ زیب کا سگا باپ تھا اسے اقتدار سے بر طرف کر کے تاج محل میں مرتے دم تک قید رکھا ۔ یہ تو فقط دو مثالیں ہیں تاریخ تو ایسی مثالوں سے بھری ہوئی ہے لیکن تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں نے خبط عظمت میں پتا نہیں اپنے آپ کو کیا کیا بنا کر پیش کیا۔ متحدہ میں کم از کم اتنی عقل تھی کہ وہ زمین دیکھ کر پائوں رکھتی تھی اور اس کی تاریخ رہی ہے کہ اس نے کبھی گیلی زمین پر پائوں نہیں رکھا لیکن تحریک انصاف والے پتا نہیں کب اصولوں کی خاطر نہیں بلکہ خبط عظمت کے تابع جذباتی سیاست سے چھٹکارہ حاصل کریں گے۔

1977کی بھٹو مخالف تحریک کہ جس کے نتیجہ میں جنرل ضیاء نے مارشل لاء لگایا اس تحریک کے دوران اصغر خان نے بیان دیا تھا کہ وہ بھٹو کو اٹک کے پل پر پھانسی دیں گے لیکن بھٹو صاحب کی پھانسی کے دو تین سال بعد جب 1982میں ضیاء مارشل لاء کے خلاف ایم آر ڈی بنی تو اس میں اصغر خان کی تحریک استقلال بھی شامل تھی اور ایک پریس کانفرنس میں محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ نے رو کر کہا تھا کہ آج مجبوری کے عالم میں انھیں بھٹو کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ گیارہ سالہ مارشل لاء کے بعد جب 1988میں جمہوریت بحال ہوئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو محترمہ شہید بینظیر بھٹو نے فوج کو تمغہ جمہوریت دیا ۔ نوے کی پوری دہائی میں مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی میں زبردست چپقلش رہی لیکن جب مشرف نے ملک پر مارشل لاء مسلط کیا تو آصف علی زرداری جو نواز دور میں بنائے گئے مقدمات کی وجہ سے انہی کے دور میں قید ہوئے تھے جب مشرف دور میں 2004 میں ضمانت پر رہا ہوئے تو محترمہ شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ جدہ سرور پیلس میاں صاحب کے پاس گئے اور پھر 2006 میں آئین پاکستان کے بعد سب سے اہم دستاویز میثاق جمہوریت پر دونوںجماعتوں نے دستخط کئے جس پر بعد میں لاکھ اختلافات کے باوجود دونوں جماعتیں اب تک قائم ہیں ۔ یہ تمام اقدامات سیاسی سوچ رکھنے کی وجہ سے حقیقت کے سانچے میں ڈھلے لیکن اس کے مقابلہ میں تحریک انصاف کی سیاست کا اگر جائزہ لیں تو کسی زمانہ میں الطاف بھائی والی متحدہ کی سیاست جس طرح کالج کی سطح والی ناپائیدار سیاست تھی اور اس میں پختگی کا فقدان تھا وہی حال تحریک انصاف کا ہے ۔ آج تحریک انصاف جس جگہ پہنچ چکی ہے اور یہ گراوٹ کا سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے تو اس میں ضرورت اس امر کی تھی کہ کسی کے ساتھ ہاتھ ملایا جاتا اور مثبت اشارے دیئے جاتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور پھر وہی فضول دلیل کہ جو عمران خان کی طرف سے دی جاتی ہے کہ میں چوروں اور ڈاکوئوں سے ہاتھ نہیں ملاوں گا۔ اگر یہ سب کچھ واقعی ایسا ہی ہے تو پھر سوال یہ ہے کو وہ تمام اتحادی کہ جن کے ساتھ مل کر خان صاحب نے حکومت بنائی تھی کیا وہ سب دودھ کے دھلے ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی جماعت میں جو لوگ دوسری جماعتوں سے آئے تھے کیا وہ سب گنگا نہائے ہوئے پوتر تھے اور اب تو خود ان کے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف توشہ خانہ کیس سے لے کر 190ملین پونڈ تک کے جو نیب کیسز ہیں وہ ان کی امانت اور صداقت کا پول کھولنے کے لئے کافی ہیں اور دہشت گردوں تک سے مذاکرات کر لئے لیکن سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر نہ لا سکے۔

تحریک انصاف کی قیادت جس میں عمران خان اور دیگر بھی شامل ہیں ان میں اگر تھوڑی سی بھی سیاسی سوچ ہوتی تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ کراچی سے لے کر پشاور تک متحدہ، جی ڈی اے، باپ، جے یو آئی اور دیگر جماعتیں مسلم لیگ نواز کے ساتھ کھڑی ہیں اور استحکام پاکستان پارٹی کے قائد جہانگیر ترین نے تو منگل23جنوری کو یہ بیان دے کر سیاسی منظر نامہ کی دھندلی تصویر کو واضح کر دیا ہے کہ انتخابات کے بعد وہ حکومت میں نواز لیگ کے اتحادی ہوں گے ۔ اس کے بعد انتخابی میدان میں لے دے کر دو ہی جماعتیں ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری بار بار تحریک انصاف کے لئے نرم گوشہ کا اظہار کرتے رہے لیکن ادھر سے چٹے انکار کے بعد اب انھوں نے بھی ٹھینگا دکھا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ آزاد امید واروں کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گے یعنی انھوں نے اب سیدھی کے بجائے ٹیڑھی انگلی سے گھی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور یہی کام دیگر جماعتیں بھی کریں گی ۔ گذشتہ کالم میں بھی کہا تھا اور اب بھی کہیں گے کہ سیاسی جماعتیں ختم نہیں ہوئیں لیکن اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے اگر لٹیا ڈبو بیٹھیں تو اپنا نقصان ضرور کر بیٹھتی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.