بلاول کی لاہور انٹری۔۔۔۔۔۔وزیراعظم مریم نواز

98

2024ء کے انتخابات حلقہ این اے 127 کی پوری دنیا میں گونج سنائی دے رہی ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں سے بلاول بھٹو بھی امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ صوبائی حلقے 157، 160، 161، 162 اور 163 شامل ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، اس میں قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو کا آنا اس کی اہمیت پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں پہلے نمبر 1 پر ہے۔ یہ ایسے ہی جیسے کوئی پاکستانی سری نگر میں پاکستان کا جھنڈا لہرا دے، پنجاب اور لاہور پیپلز پارٹی کا مقبوضہ علاقہ ہے۔ اس پر سیاسی قبضہ کی ایک مسلسل تاریخ ہے۔ 1973ء کے بعد سیاسی حقوق مانگنے والوں سے پنجاب کی جیلیں بھر دی گئیں، شاہی قلعے کا عقوبت خانہ تو الگ پنجاب کے سیاسی قیدی دیگر جیلوں میں بھی رکھے گئے، کوڑے، لاٹھی چارج، جلاوطنیاں، احتجاج میں جیالوں کی خود سوزیاں، رضا کارانہ گرفتاریوں کی تاریخ الگ چل رہی تھی۔ دوسری جانب ضیا الحق کا ساتھ دینے والوں پر ریاست کی نوازشات کی بارش تھی۔ مجلس شوریٰ کی رکنیت، صوبائی اور وفاقی وزارتیں، پلاٹ، نوکریاں، قرضے، بیوروکریسی کا تابع کرنا گویا اس ملک کا آئین تو ردی کا سامان قرار دیا گیا۔ دوسری جانب غیر آئینی، غیر قانونی سیاسی بھرتیاں جن میں تمام شعبے شامل تھے عدلیہ، انتظامیہ اور کابینہ کے علاوہ میڈیا میں لوگوں کی لاٹری نکل آئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ عمر رسیدہ تو ہوئے مگر معتبر بھی کہلانے لگے۔ ضیا سے پہلے پاکستانی دانشور دائیں بازو اور بائیں بازو میں بٹے ہوئے تھے۔ بائیں بازو کے دانشور ترقی پسند کہلاتے اور دائیں بازو کی بنیاد پرستی کو مذہب سے جوڑ دیا گیا۔ انہی کے تحفظ کے لیے آئین کے اندر کھلواڑ ہی نہیں کیا گیا بلکہ صحافتی اداروں میں ان کی کھپت کی گئی وقت کے ساتھ ساتھ آج حالت یہ ہے سوائے چند ایک کسی میڈیا ہاؤس میں چلے جائیں آپ کو دائیں بازو کے لوگ ہی نظر آئیں گے۔ ان لوگوں نے پیپلز پارٹی اور بھٹوز کے خلاف زبان اور قلم چلانا اپنا روزگار ہی نہیں مذہبی فریضہ سمجھا۔ سڑک چھاپ سے اربوں پتی بن گئے۔ سیاست دانوں کی نئی کھیپ جن میں میاں نوازشریف، گجرات کے چودھری برادران بھی شامل ہیں سمیت سب کو ضیا کی ہلاکت کے بعد ضیا باقیات کے نام سے پکارا جانے لگا۔ یہ ضیا باقیات مختلف جماعتوں میں نمودار ہوئی، پیپلز پارٹی میں ان لوگوں نے پناہ حاصل کی اور عہدے لیے۔ ایک پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لیے آئین، قانون، میرٹ سب کچھ روند کر رکھ دیا گیا۔ ایک طرف خوف دوسری طرف مراعات، ضیا کے بعد ضیا کی ہلاکت کو کیش کرانے کے لیے کوشش کی گئی مگر اس کی کوئی سیاست قیمت نہ لگی کیونکہ ضیا کی ہلاکت پر نواز شریف نے کہا تھا کہ ہم ضیا الحق کے مشن کو آگے بڑھائیں گے مگر اس کا جواب کسی نے نہ دیا۔ نوازشریف کو یوٹرن لینا پڑا لیکن ضیا کے نام کے بغیر اس کا غیر جمہوری مشن آگے بڑھتا رہا۔ آج ضیا باقیات جمہوریت پر قابض ہے، قبضہ چھڑاتے چھڑاتے بی بی شہادت پا کر اپنے والد کے ”پہلو“ میں دفن ہو گئیں۔ چونکہ گریٹ بھٹو سیاست کو ڈرائنگ روم سے کھیتوں، کھلیانوں، گلی، بازاروں، تھڑوں، کارخانوں اور عوام کے چوک چوراہوں میں لے آئے تھے، لہٰذا عوامی ہونے کا بہروپ دھارنا مجبوری تھا۔ اس بہروپئے پن میں ضیا باقیات کو بھی جیل جانا پڑا۔ مگر یہ جیل عارضی تھی یہ جیل سدھارنے کے لیے تھی۔ ضیا باقیات میں مشرف باقیات بھی شامل ہو گئی۔ پاشا سے لے کر باجوہ تک کی باقیات بھی آ گئیں مگر بی بی کی موجودگی میں یہ سب کچھ ممکن نہ تھا کہ کوئی تیسری قوت پیدا ہوتی۔ قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی میں گھس کر نوازشریف کی 2018ء میں مخالفت کی مگر نوازشریف زیادہ مقبول تھے پھر جس طریقے سے عمران کو مسلط کیا گیا اور اس کی حکومت کے لیے اس کے مخالفین کو دیوار سے لگایا گیا، میڈیا ہو یا ایوان، عدلیہ ہو یا مذہبی میدان سب جگہ پر عمران کی مدد کی گئی۔ اس کی معاونت ہی نہیں، باقاعدہ حمایت کی گئی مگر وہ اتنا نہلا تھا کہ حمایت سے محروم ہوتا گیا۔ ادارے بدنام ہوئے خاص طور پر فوج کے ادارے پر لوگوں کا شکوہ بڑھتا گیا پھر اصولی فیصلہ ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی ہو گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عمران کے پاس اکثریت تو تھی نہیں لہٰذا بڑے سیاست دان تو دور کی بات مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ہی اس کی کھٹیا کھڑی کر دی۔ اب صورت حال مختلف ہے، بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے لوگوں کو پی ٹی آئی سے واپس بلا رہے ہیں۔ بلاول نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خان صاحب دعا کریں ہماری حکومت آئے اگر میاں صاحب کی حکومت آئی تو آپ کو ’’لگ پتہ جائے گا‘‘۔ حلقہ نمبر 127 کی آبادی 9 لاکھ 80 ہزار کے قریب ہے۔ ووٹرز 5 لاکھ 76 ہزار ہیں۔ لیاقت آباد، ماڈل ٹائون ایکسٹینشن (کیو، آر اور ایس بلاک) پنڈی راجپوتن، اسماعیل نگر، کوٹ لکھپت، چونگی امرسدھو، تہاڑہ پنڈ، باگڑیاں، گرین ٹائون، ٹائون شپ، مریم کالونی، ستارہ کالونی کے علاوہ دیگر علاقے شامل ہیں۔ وفاقی کالونی اور فرید کالونی بھی اسی حلقہ میں آتی ہیں۔ یہاں پر متوسط طبقے کے لوگوں اور اقلیتی برادری (عیسائی برادری) کی زیادہ تعداد ہے جو اس وقت بلاول بھٹو کی حمایت میں ہیں دیگر لوگ اس حلقے میں اجنبی کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ بلاول بھٹو کے تذکرے اور حمایت میں حلقے کے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے سابقہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا مگر اس بار وہ بلاول بھٹو کو ووٹ دے رہے ہیں۔ 20/25 سرکردہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ہزاروں ووٹرز ہیں۔ وہ میرے ایک ویلاگ کے جواب میں مجھے فون کر کے اپنی حمایت کا اظہار کر چکے۔ جن کا ذکر آئندہ ویلاگ میں ہو گا۔ یہ جو سروے ہیں پتہ نہیں کہاں ہوتے ہیں، عمران نیازی کبھی مقبول تھا نہ ہے اتنا کہ وہ سادہ اکثریت بھی حاصل کر سکتا۔ آج وہ لوگ جو جہازوں پر لوگوں کو لاتے تھے اور جو آتے تھے سب اپنے ووٹرز کے ساتھ پرانی چھتریوں پر جا بیٹھے ہیں یا نئی جماعتیں بنا چکے ہیں۔ کچھ حیرت نہ ہو گی اگر پی ٹی آئی کے ووٹر واپس پیپلز پارٹی کی حمایت میں چلے گئے۔ فی الحال میاں نواز شریف وزیر اعظم ہیں اور یہ کسی ڈیل نہیں بلکہ وہ حقیقی طور پر عمران سے کہیں زیادہ مقبول ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر بلاول بھٹو ہیں۔ اب میاں نوازشریف ایک سرپرائز دے سکتے ہیں کہ وہ اب کی بار جو کہ پانچویں بار ہے (شہبازشریف بھی تو میاں صاحب کی باری ہی تھی) مریم نواز کو وزیر اعظم بنا دیں۔

تبصرے بند ہیں.