پاک ایران تعلقات کی بحالی

50

پاک ایران تعلقات کے حوالے سے مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ دونوں برادراسلامی ممالک صرف سفارتی تعلقات بحال کرنے پر ہی رضامند نہیں ہوئے بلکہ 26 جنوری سے سفیروں کی واپسی کے فیصلے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے یہ ایک نہایت ہی مثبت اور عمدہ پیش رفت ہے اب تنازع بڑھانے کی خواہشمند قوتوں کی سازشیں ناکام ہو نے کا امکان بڑھ گیا ہے دونوں ممالک نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے تناظر میں دوطرفہ تعاون بڑھانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جائے گی اِس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایرانی وزیرِ خارجہ امیر عبداللہ یان 29 جنوری کو پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں پاک ایران کشیدگی ختم کرانے میں چین کا مثبت اور مشفقانہ کردار ہے دونوں ممالک ہی شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہونے کی بناپر چین کے بھی اتحادی ہیں چین کی بروقت کوششوں سے خطے میں کسی بڑے ٹکرائو کے خدشات دم توڑ گئے ہیں ٹکرائو سے نہ صرف خطے کا امن تہہ بالا ہوتا اور معاشی و تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتیں بلکہ مداخلت کی تاک میں بیٹھی قوتوں کو بھی مذموم عزائم پروان چڑھانے کے مواقع ملتے دونوں ممالک نے مشترکہ دوستوں کی سفارتی کوششوں سے فوری طورپر کشیدگی کم کرتے ہوئے اپنے تعلقات کومزید بگڑنے سے بچالیا ہے۔

دنیا ایک بارپھر مالیاتی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے بھوک و افلاس میں اضافے کا خدشہ ہے موسمیاتی تبدیلیاں خوراک کے بحران کی طرف اشارہ کرنے لگی ہیں روس، یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جاری جنگ سے عالمی تقسیم گہری ہوتی جارہی ہے ایسے حالات میں دوبڑے اسلامی ممالک کے درمیان ٹکرائو سے تیل سمیت دیگر بحرانوں میں اضافہ ہوتا گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے پاکستان کے اندر میزائل اور ڈرون حملوں سے پیداہونے والے بحران اور پاکستان کی طرف سے مخصوص اہداف کو نشانہ بنانے کے بعدجلدہی دونوں ممالک نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ کوئی بھی فریق بحران کو مزید گہرا نہیں کرنا چاہتا بلکہ اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے مطابق رہنا چاہتے ہیں سعودی وزارتِ خارجہ نے پاک ایران تعلقات کی بحالی کو بین الاقوامی اصولوں اوریو این او چارٹر کے مطابق قرار دیتے ہوئے خیرمقدم کیا ہے چین نے بھی کشیدگی ختم کرنے کی تحسین کی ہے خطے میں تنائو کا بڑی حد تک خاتمہ ہو نے سے ٹکرائو کے خواہشمند طاقتوں کی امیدوں پر اوس پڑگئی ہے۔

قیام سے لیکر آج تک پاکستان نے مغربی سرحد پر دفاعی سرگرمیوں پر کبھی توجہ نہیں دی بلکہ ایران کو قابلِ اعتماداسلامی ہمسایہ جان کر ہمیشہ دستِ تعاون بڑھایا ہے لیکن گزشتہ ہفتے ایران کی طرف سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے ثابت ہو گیا کہ ریاستوں کی اپنے دفاع سے غفلت مناسب نہیں کیونکہ ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہے ایران کی طرف سے فضائی حدود کی خلاف ورزی نے ثابت کر دیا ہے کہ اُسے اپنا مفاد ہر حوالے سے مقدم ہے دراصل انقلابِ کے بعد ایرانی قیادت نے اپنے قول وفعل سے ہمیشہ تاثر دیا ہے کہ وہ سب سے بالاتر ہیں اور دیگر ریاستوں پر حاوی ہونے کی متمنی ہے وہ اپنے انقلاب کو دیگر ممالک تک پہنچانا چاہتی ہے ایران عراق جنگ ہو یا پھر سعودیہ و متحدہ عرب امارات ،کشیدگی کی وجہ خود کو بالاتر سمجھنے اور انقلاب کو آگے پہنچانے کی کوشش کی بدولت ہوئی مگر ایرانی قیادت یہ بھول گئی کہ پاکستان نہ تو ایران ہے اور نہ ہی سعودیہ یا عرب امارات ،بلکہ یہ ایسا جوہری ملک ہے جس کی مسلح افواج ہر قسم کی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کا مظاہرہ بھی خوب ہواکہ ایرانی حماقت کے جواب میں سوچ سمجھ کر حکمتِ عملی اختیارکی گئی اور اڑھائی تین گھنٹے کے طویل آپریشن کے دوران نہ صرف کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی بلکہ ایرانی مواصلاتی ذرائع بھی تلاش کرنے میں ناکام رہے جوپاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے قابلِ بھروسہ ہونے کا عکاس ہے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کوایران اور بھارت کی ملی بھگت کا شبہ ہے شاید اسی لیے تیزرفتاری سے جوابی کارروائی کی گئی تاکہ بھارت اور افغانستان سے آجکل پاکستان کے تعلقات میں جس طرح کشیدگی پائی جاتی ہے مبادا ایران کی طرح کی کسی کارروائی کی اُنھیں شہ ملے۔

ہفتہ بھر کے تنائو کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات بحال تو کر لیے ہیں لیکن پہلے جیسی گرمجوشی دوبارہ آ سکے گی؟ درست جواب کے لیے انتظار کرنا ہوگا کیونکہ ایران کی حماقت سے دونوں ممالک میں کسی حد تک بد اعتماد ی آ گئی ہے جسے دور کرنے کے لیے ایران کو خلوص اور امن پسندی کا یقین دلانا ہو گا پاکستان نے تو انقلابِ ایران کے بعدبھی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ چھوٹے موٹے اختلافات کو کبھی تنازع میں تبدیل نہ ہونے دے اب ایران کیا چاہتا ہے کا اندازہ سفارتی آداب کے مطابق ہونے والی گفتگو سے نہیں بلکہ مستقبل میں اختیار کیے گئے رویے سے ہی ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.