ہم نے ماضی سے کیا سیکھا؟

51

16 دسمبر 1971ء ہماری قومی تاریخ کا ایک ایسا المناک دن ہے جب پاکستان دولخت ہوا، اس سانحہ نے دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے پاکستانیوں کو اشکبار کر دیا تھا۔ یہ دن ہمارا من حیث القوم یوم احتساب ہے۔ انہی کوتاہیوں، لغزشوں اور مفادات کی جنگ کا خمیازہ ہمیں آج مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری پر مودی حکومت کے شب خون مارنے کی صورت بھگتنا پڑ رہا ہے جس پر ہندتوا بھارتی سپریم کورٹ نے بھی بی جے پی کے اقدام کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں کی آزادی سلب کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ جیسے عظیم سانحے کے بعد بھی ہم متحد نہ ہو سکے۔ افسوس جب ہم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو یکسر کو بھول گئے تو مشرقی پاکستان سے اتحاد ٹوٹ گیا۔ بھارت نے اس سانحہ کے ذریعے پاکستان کو دولخت کر کے اسے کمزور کرنے کے مقاصد حاصل کیے۔ پاکستان کو توڑنے پر بنگلہ دیش کی حکومت نے 2012ء میں اندرا گاندھی کو ”فرینڈز آف بنگلہ دیش لبریشن وار“ ایوارڈ دیا تھا۔ یہی ایوارڈ 2016ء میں واجپائی کو بھی دیا گیا جسے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وصول کیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے فخریہ اعتراف کیا کہ پاکستان کو توڑنے میں بھارت ملوث تھا اور یہ کہ انہوں نے خود بطور آر ایس ایس پرچارک، مکتی باہنی میں شامل ہو کر متحدہ پاکستان مخالف سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ 15اگست 2016ء کو بھارتی یوم آزادی کے موقع پہ تقریر کرتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کر کے دم لیں گے اور آزاد جموں و کشمیر، گلگت اور بلتستان کو بھی آزاد کرا لیا جائے گا۔ بھارتی فوجوں نے جب بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا تو اسی سرشاری میں اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ آج ہم نے پاکستان کے دو قو می نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو کر مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے لیا ہے۔ افسوس! آج ایک دفعہ پھر ہم ویسے ہی حالات سے دو چار ہیں۔ قومیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے ہی سیکھتی ہیں اور ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا؟۔ اس الم ناک سانحے کی یاد دہانی کیلئے ہر سال کانفرنسیں، اجلاس و سیمینارز کا انعقاد ہوتا ہے اور بنگلہ دیش بننے کا سارا ملبہ دشمن پر ڈال کر حکومتی، سیاسی و سماجی اداروں پر ایک سکوت چھا جاتا ہے۔ جنگ احد میں رسول خداﷺ کے فرمان سے غفلت کے سبب مسلمانوں کو نقصان اور وقتی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، مگر ہمارے اسلاف نے اس سے ایسا درس لیا کہ اس کے بعد قوی ترین دشمنوں کو بھی ہمیشہ کیلئے نابود کر دیا۔ اگر ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں مستقل طور پر مضبوط اور مستحکم بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں غیر منصفانہ سسٹم کو ترجیحی بنیادوں پر تبدیل کرنا ہو گا۔ پاکستان کو اسلام کے سنہری اصولوں امانت، دیانت، صداقت، مساوات، انصاف اور عوامی فلاح کے مطابق تشکیل دینا ہو گا۔ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنا کر ہی مضبوط اور مستحکم کیا جا سکتا ہے اور بیرونی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہیگل کے مطابق ”جب تک ریاستیں اپنی ثقافتی روایات اور جغرافیائی حدود کے تحفظ کیلئے سرگرم عمل رہتی ہیں، وہ قوت اور اتحاد کے جذبے سے سرشار رہتی ہیں، معاشرے کا مورال بلند رہتا ہے اور سازشی عناصر کو پنپنے کا موقع نہیں ملتا۔ وہ کتنی ہی ریاستوں کی مثالیں پیش کرتا ہے جنہوں نے تاریخ پر ان مٹ نقوش چھوڑے، لیکن اگر اس کے برعکس صورت حال ہو تو ریاستیں انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں“۔ مشرقی پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے اور ہمارے لیے سیکھنے کے بہت سے مواقع ہیں۔ سازشی عناصر اس بات سے آگاہ تھے کہ دونوں بازوں کے مسلمان عوام کی اسلام سے وابستگی پاکستان کی یک جہتی اور اتحاد کو برقرار رکھے گی۔ چنانچہ یہاں پر دو محاذوں پر کام کیا گیا۔ سب سے پہلے تو ثقافتی رشتے کو کمزور کیا گیا جس کیلئے بنگالی زبان کے مسئلہ کو شد و مد کے ساتھ اٹھایا گیا۔ یہ مسئلہ اس نہج پر جا پہنچا کہ پاکستان اس دن سے آج تک لسانی بحران میں مبتلا ہے۔ بنگالی زبان کے اندر ہندی سے زیادہ سنسکرت کے الفاظ بھر دیئے، یہاں تک کہ بنگالی زبان کا کسی پاکستانی زبان سے تعلق منقطع ہو گیا۔ مذہبی جذبات کی جگہ علاقائی مفادات نے لے لی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم ہندوؤں کی چالوں اور مسلمانوں کے ثقافتی اور مذہبی اقدار کی بیخ کنی کو سمجھنے کا ادراک رکھتے، اقتدار کے حصول کی دوڑ میں ہم بنگالی، پنجابی، پٹھان، بلوچی اور سندھی بن کر رہ گئے۔ قائد نے اپنے خطابات میں فروعی اختلافات کے خاتمے پر زور دیا لیکن ہمارے ہاں یہ اختلافات اتنی شدت سے ابھر کر سامنے آئے کہ آج بھی ہم ان کی زد میں ہیں۔ ہماری کوتاہیوں، ناقص پالیسیوں کے علاوہ ہندو کی تنگ نظری اور تعصب نے ان مسائل کو ہوا دی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں مغربی پاکستان کے لوگوں کیخلاف نفرت کی وہ فضا پیدا کر دی کہ وہ ہم سے جدا ہو گئے۔ ہماری عاقبت نااندیشی تو یہ ہے کہ ہم یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے درمیان آج بھی وہی عناصر پنپ رہے ہیں جو سقوطِ ڈھاکہ کا سبب بنے۔ اس المیہ کے پس پردہ جتنے داخلی و خارجی عناصر کارفرما تھے، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بنگالی سیکولر نیشنلزم کو بھارتی حکومت کا بھرپور تعاون حاصل تھا۔ قوموں کی اصلی شناخت، ان کی ثقافت ہوتی ہے کہ جو اس ملت و قوم کو ترقی و پیش رفت، عزت و افتخار، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر لاکھڑا کرتی ہے۔ اگر کسی ملک کی ثقافت، انحطاط کا شکار ہو جائے اور ایک ملک اپنی ثقافتی شناخت کو کھو بیٹھے تو باہر سے ملنے والی ترقیاں اسے اس کا حقیقی مقام نہیں دلا سکتیں اور نہ ہی اس ملک کے قومی مفادات محفوظ رہ سکتے ہیں۔ دنیا کی تسلط پسند طاقتیں چھوٹے و بڑے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے، انہی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی ہیں۔ ثقافتی لحاظ سے دشمن جو کام کر رہا ہے وہ نہ صرف ثقافتی یلغار ہے بلکہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ثقافتی شب خون مارا جا رہا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی وابستگی سے قطع نظر ان افراد کے چہروں کو بے نقاب کیا جائے جنہوں نے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، جنہوں نے پاکستان کو دو لخت کر دیا افسوس کہ ہم ابھی تک مختلف قومیتوں میں بٹ کر آپس میں اپنے اپنے مفاد کی خاطر دست بہ گریبان ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت و سیاسی رہنما یقینا ایک اور سقوط ڈھاکہ کے انتظار میں ہیں۔

تبصرے بند ہیں.