آرام اور آسائش کے ساتھ ساتھ بلا اور آزمائش بھی زندگی کا لازمی جزو ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ انسان کی زندگی پیدائش سے لے کر موت تک مختلف تکالیف، پریشانیوں اورآزمائشوں کا شکار رہتی ہے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک خاص مقصد کے لیے بنایا اوراس کا یہ مقصد اس میں پیش آنے والے کسی حادثے اور واقعے کے نتیجے میں فراموش نہیں ہوتا۔ دنیا کی تخلق، یہاں کے روز و شب کے معاملات، اس کی الٹ پھیر، عروج و زوال، اس میں شکست و تعمیر ہر جگہ اگر کوئی اصول اصلاً کارفرما ہے تو وہ اس کا مقصدِ آزمائش ہے۔ اس کی ساخت اور اس کا نظام دونوں انسان کی آزمائش کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ اسی لیے اس کے نظام اور ساخت میں ایسی چیزیں رکھ دی گئی ہیں جو ہمارے لیے امتحان کی صورت پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ابنِ آدم کے لیے اس دنیا میں آسانیوں اور مشکلات کا ایک طویل سلسلہ رکھ دیا گیا ہے۔ جو دو طرف سے ہمارا امتحان کرتا رہتا ہے، دو رُخا امتحان عمل اور ردعمل کی جانچ کے لیے ہے مثلاً نعمتیں اس لیے دیں کہ انسان اس نعمت کو پا کر کیا کرتا ہے اور محروم اس لیے رکھا کہ بشر محروم ہونے پر ردِ عمل میں کیا کچھ کر گزرتا ہے۔ سو دنیاوی زندگی کے یہ امتحانات اس لیے رکھے گئے کہ انسانوں کو آزمایا جا سکے کہ اس فانی دنیا میں آ کر کیسا عمل کرتے ہیں۔ مصائب و آلام، مصیبتوں اور پریشانیوں پر اُف تک نہ کرنا صبر ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ صبر کرنا ایک انتہائی مشکل امر ہے کیونکہ اس میں مشقت اور کڑواہٹ پائی جاتی ہے۔ صبر کی اس تلخی کو ختم کرنے کے لیے ایک اور صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ مصابرہ کے درجے پر پہنچنے والے صبر میں بھی لذت کو محسوس کرتے ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور صبر کرو بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق تکالیف پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ دنیا اضداد کے جوڑوں سے استوار کی ہے۔ ہر چیز میں یہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے، رات کے بغیر دن کا تصور بے معنی ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے، بالکل اسی طرح بے شمار آسانیاں ایسی ہیں کہ مشکلات کے بغیر ان کا حصول ناممکن ہے۔ صبر و توکل ایک عظیم نعمت ہے جو بلند بختوں کو نصیب ہوتی ہے، صبر مقاماتِ دین میں سے اہم مقام ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہدایت یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولو العزم کی خصلت ہے۔ آزمائش پر صبر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بشارت کا ذریعہ ہے۔ احادیث مبارکہ کے مطابق تکالیف پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان، مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا فرماتا ہے، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتا ہے، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہنچاتا ہے۔ رب العالمین صبر اور توکل اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے(تو) ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جو مصیبتیں انہیں پہنچتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز قائم رکھنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ دنیا کے مصائب و تکالیف اہلِ صبر کے حق میں رحمتِ خداوندی کا عنوان ہیں، لیکن بندہ چونکہ کمزور و ناتواں ہوتا ہے اس لیے اسے رحمتِ خداوندی کا ادراک نہیں ہو پاتا، وہ اپنی آخرت کے بناؤ و بگاڑ کے پہلو سے واقف نہیں ہوتا وہ دوسرے لوگوں کی مانند خود کو بھی خوشحال و فارغ البال دیکھنا چاہتا ہے۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ مردِ مومن کو جو بھی دکھ درد، بیماری و پریشانی، رنج و غم اور جو بھی اذیت و تکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے۔ دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی بنائی گئی اس دنیا میں اصول یہ ہے کہ ایک خوبی پیدا کرنے کے لیے یا کوئی نعمت عطا کرنے کے لیے وہ مشکلات سے بشر کو گزارتا ہے اور اس طرح کی ہر مشکل اور آسانی میں دراصل مومن کے لیے آسانی ہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور ضرور آزمائیں گے ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کر کے) نقصان میں مال و جان کے اور آمدنیوں کے اور خوش خبری دو صبر کرنے والوں کو، وہ (صبر کرنے والے) کہ جب پہنچتی ہے، انہیں کوئی مصیبت، تو کہتے ہیں، بے شک، ہم اللہ ہی کے ہیں اور بے شک، ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، دراصل یہی وہ لوگ ہیں کہ ان پر ہیں عنایتیں ان کے رب کی اور رحمتیں بھی اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ البقرہ)۔ ان آیات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے انسان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اسے مختلف چیزوں کے ذریعے ضرور بالضرور آزمایا جائے گا اور جو ان آزمائشوں پر صبر کرتے ہوئے پورا اترے گا، اسے رحمت و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ غربت و امارت دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں ہیں، کچھ کو وہ ذات دے کر آزماتی ہے تو کچھ کو محروم رکھ کر، دونوں سے ہی اللہ تعالیٰ ناراض نہیں ہوتا، بلکہ عین ممکن ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آزمائش نہ آتی ہو اللہ تعالیٰ اس سے نا راض ہوں۔ وہ قارون کی طرح بے حساب خزانوں کا مالک تو ہو مگر اللہ تعالیٰ کے ہاں نا پسندیدہ ہو، اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ فیصلہ ہو چکا ہو کہ اسے دنیا میں ہی سب کچھ دے دلا کر فارغ کر دیا جائے اور آخرت میں بس دوزخ ہی اس کا ٹھکانا بنے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: جس نے صرف دنیا ہی کی زندگی اور اس کی زینت (نعمتوں اور شان و شوکت) کو چاہا تو ہم دنیا ہی میں ان کے عملوں کا اجر پورا پورا انہیں دے دیں گے، اور اس میں ان کے لیے ذرا بھی کمی نہ کریں گے۔ یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہ ہو گا، دنیا میں جو نیکیاں انھوں نے کی ہوں ضبط ہو جائیں گی اور ان کے اعمال اکارت جائیں گے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ دہرا اثر رکھتا ہے، بندہئ مومن کے لیے اس میں خیر ہی ہوتا ہے لیکن صرف اس ہی صورت میں جب انسان مطلوب رویہ پیش کرے۔
تبصرے بند ہیں.