ریاستوں کی توجہ معاشی بہتری کے لیے برآمدات بڑھانے اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے پر ہے لیکن کیا معاشی بہتری کی کاشوں سے دفاعی تیاریاں ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہیں؟ اِس سوال کا ہاں میں جواب نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سچ یہ ہے کہ آج بھی ریاستوں کی پہلی ترجیح دفاع ہے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کچھ عرصہ تک ایک ہی طاقت کا راج رہا مگر اب واحد طاقت کا تاثر نہیں رہا روس کے ساتھ چین کا بھی چیلنج درپیش ہے دراصل طاقتور ممالک کسی اصول و ضابطے کی پاسداری نہیں کرتے بلکہ من مانی کرتے ہیں تاکہ اسلحہ کی تجارت میں اضافہ ہو اسرائیل طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یو این او کے طے شدہ معیار کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کر رہا ہے لیکن روک ٹوک کے بجائے امریکہ اور مغربی ممالک حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اسی بناپر متبادل کی متلاشی خوفزدہ ریاستیں روس اور چین کی طرف دیکھنے لگی ہیں۔
رواں ہفتے روسی صد رولادی میرپوٹن سخوئی 35 ایس لڑاکا طیاروں کے حصار میں طویل عرصے کے بعد سوویت یونین سے باہر ایک غیر معمولی دورے پر نکلے اور بدھ چھ دسمبر کو متحدہ عرب امارات کے ابو ظہبی ایئرپورٹ پہنچے عرب امارات کی حدود میں داخل ہوتے ہی متعدد فوجی طیاروں نے استقبال کیا گارڈ آف آنر کی تقریب کے بعد فضائی شومیں روسی جھنڈے کو رنگوں سے سجایا گیا شیخ محمد بن زاید النیہان سے صدارتی محل میں ملاقات کے دوران پوٹن نے یو اے ای کو عرب دنیا میں روس کا اہم تجارتی شراکت دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج آپ کی قیادت میں ہمارے تعلقات غیر معمولی سطح پر پہنچ گئے ہیں بعدازاں روسی صدر سعودی دارالحکومت ریاض گئے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان سے ملاقات کی ریاض میں بھی اچھا استقبال ہوا بات چیت میں تیل، غزہ کی صورتحال اور یوکرین کا معاملہ سرفہرست رہا اور ماہرین صدر پوٹن کے دورے کو عالمی سطح پر روسی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں کا حصہ قرار دیتے ہیں لیکن اِس دورے میں عربوں کو اسلحہ دینے کے امکانات کا خاص طورپر جائزہ لیا گیا پوٹن کے وفد میں تیل، معیشت، خارجہ امور، خلا اور نیوکلیئر توانائی کے حکام شامل ہیں تیل، غزہ پر حملے کے علاوہ شام اوریمن مسائل پر بھی فریقین نے ایک دوسرے کو اعتماد میں لیا جس سے اِس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ روس مشرقِ وسطیٰ میں اپنا کردار بڑھانے اور صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے اور یوکرین جنگ کی وجہ سے مغرب میں تنہائی کا سامنا کرنے والے پوٹن مشرقِ وسطیٰ میں اسلحہ کے بڑے خریداروں اور اتحادیوں کی تلاش میں ہیں بظاہر تیل، تجارت اور غزہ تنازع پر گفتگو بتائی جارہی ہے مگرحالیہ دورہ دراصل امریکہ، مغرب اور اسرائیل کے خلاف بننے والی رائے عامہ سے فائدہ اُٹھانے کی کاوش ہے امریکہ کے عالمی رسوخ کی بڑی وجہ دفاعی طاقت اور ہتھیار ہیں اسلحہ کی تجارت کرنے والی دنیا کی سو بڑی کمپنیوں میں سے بیالیس امریکی ہیں اگر گزشتہ برس کے اعدادو شمار کاجائزہ لیں تو 597 ارب ڈالر کے گولہ و بارود اور اسلحہ کی خرید و فروخت ہوئی جن میں امریکی کمپنیوں کا حصہ 51 فیصد کے لگ بھگ ہے انھوں نے اسلحہ بیچ کر 302 ارب ڈالر کمائے حالانکہ کچھ خریدار ممالک ایسے بھی ہیں جو اسلحہ خریدتے ہیں لیکن استعمال کرنے سے قاصر ہیں یہ نہیں کہ استعمال کی استعداد نہیں بلکہ ہتھیاروں کے بھاری ذخائر کے باوجود خوفزدہ ہیں اسی لیے براہ راست خطرات نہ ہونے کے باوجود اسلحہ کے لیے وسائل وقف کرنے پر مجبور ہیں۔
دفاعی حوالے سے پریشان ریاستیں عالمی طاقتوں کی اِس حد تک آلہ کار ہیں کہ ریاستی مفاد کا تحفظ کرنے سے بھی قاصر ہیں اِن کے پاس ہتھیاروں کے بھاری ذخائر ہیں لیکن آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہیں کچھ ممالک تو ایسے ہیں جنھیں لاحق خطرات کی نوعیت غیر معمولی نہیں اور نہ ہی یہ جدید ہتھیار استعمال کرنے میں طاق ہیں پھر بھی دفاعی ساز و سامان خریدنے کی بناپر عالمی طاقتوں کی مجبوری ہیں دنیا میں بھارت، اسرائیل، سعودیہ،قطر اور مصر ایسے ہی ممالک ہیں مشرق ِ وسطیٰ میں متحدہ عرب امارات، مراکش، عراق، بحرین، اردن اور الجزائر بھی ہتھیار جمع کرنے میں پیش پیش ہیں لیکن بھارت اور اسرائیل کے سوا دیگر کئی ممالک کے دفاع میں ہتھیاروں کا کوئی کردار نہیں دراصل دفاع کے لیے یہ پریشان ریاستیں زورِ بازو پر بھروسہ کرنے سے زیادہ عالمی طاقتوں سے سودے بازی کوسہل تصور کرتی ہیں سعودیہ گزشتہ چار برس سے دنیا میں ہتھیار خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے لیکن دفاع کے عوض ڈالر میں تیل کی تجارت کا معاہدہ امریکہ سے کر رکھا ہے اسی طرح عرب امارات کو بھی ایران سے دفاع کی پریشانی نے اسرائیل کی جھولی میں گرا رکھا ہے لیکن عالمی طاقتیں یہاں کے وسائل کا تیہ پانچا کر رہی ہیں جس کا اِن ممالک کو ادراک نہیں یا اگر ادراک ہے بھی تو جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھنے پر مجبور ہیں۔
امیر ممالک کا بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدنا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ اُن کے پاس دولت ہے لیکن ایسے ممالک جن کی معیشت ناہموار ہے اور بڑھتی مہنگائی سیاسی عدمِ استحکام کا باعث ہے اُنھیں بھی ہتھیار حاصل کرنے کا روگ ہے پاکستان اور ایران ایسے ہی ممالک ہیں جو ہتھیار بنانے اور خریدنے میں شب و روز مصروف ہیں پاکستان جیسے جوہری ملک کی دفاع کے حوالے سے پریشانی ناقابلِ فہم ہے اگر بیرونی خطرات کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو جوہری طاقت بننے کے بعد اب کوئی بیرونی قوت جارحیت نہیں کر سکتی البتہ کسی حد تک اندرونی خطرات ہیں جن کا توڑ معیشت بہتر بنانے اور سیاسی عدمِ استحکام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو اپنے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے بھی پریشان ہیں حالانکہ تمام عالمی اِدارے پاکستان کے جوہری پروگرام کو ہرحوالے سے محفوظ قراردیتے ہیں پھربھی پریشانی برقرار ہے اسی پریشانی کی وجہ سے امریکہ اور چین کی حاشیہ برداری پرمجبورہے جبکہ عالمی پابندیوں کا شکار ایران ڈرون ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا کا اہم ترین ملک ہے وہ بھی امریکی خوف سے روس، چین کی ہاں میں ہاں ملاتا اور اپنے وسائل لُٹتے دیکھ کر خاموش ہے۔ دنیا کے کسی نہ کسی علاقے میں یہ جو لڑائیاں چل رہی ہوتی ہیں ان کے پسِ پردہ عالمی طاقتیں ہوتی ہیں کیونکہ لڑائی نہ ہوتو اسلحہ کی تجارت خطرناک حدتک کم ہو سکتی ہے اسی لیے دفاع کے حوالے سے پریشان ریاستوں کے لیے لڑائی کرا کر مزید پریشان کُن صورتحال پیدا کرنا عالمی طاقتوں کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف اسلحہ کی تجارت کے لیے ماحول سازگار رہے بلکہ پریشان ممالک کو اپنا ہمنوا بنانے میں آسانی ر ہے روس بھی مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے۔
خطرات کی نوعیت کا ادراک درست فیصلے کا موجب بنتا ہے ترکیہ کے صدر کے لیے پریشان کُن حالات پیدا کرنے کے لیے امریکہ گزشتہ عشرے سے کوشاں ہے فتح اللہ گولن کے ذریعے اردوان حکومت کو ہٹانے کی سازش کی گئی جو بائیڈن نے صدربننے سے قبل اردوان کو اقتدار سے باہر کرنے اور اپوزیشن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا جاسوسی کی پاداش میں پابندِ سلاسل Brunson پادری کی رہائی کے لیے اِس حد تک دباؤ ڈالا کہ ترکیہ کو سبق سکھانے کی دھمکی تک دے ڈالی یورپی یونین کے ممبر دس ممالک کے سفیروں نے ترک بزنس مین عثمان کی رہائی کے لیے اپنے مرتبے کا غلط استعمال کیا جس پر صدر اردوان نے مذکورہ سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ترکیہ سے نکل جانے کا حکم دیا آخر کار مذکورہ ممالک نے معذرت کی اور سفارتی تعلقات خراب ہونے سے بچائے حالانکہ ترکیہ نہ صرف نیٹو کا ممبر ہے بلکہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے اور یورپی یونین کا ممبر بننے کا خواہشمند ہے اِس کے باوجود کسی قسم کے دباؤ کو خاطر میں نہیں لاتا بلکہ آزادانہ فیصلے کرتا ہے وہ روس و چین سے بھی تجارتی و دفاعی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے اور کسی ایک طاقت کا آلہ کار بننے پر آماد ہ نہیں یہی طرزِ عمل اُسے اقوام ِ عالم میں باوقار حیثیت دلانے کا باعث ہے دفاع کے حوالے سے پریشانی کا شکار ریاستیں بھی اگرسمجھتی ہیں کہ عالمی طاقتوں کی آلہ کار بن کر لاحق خطرات ختم کرلیں گی تو یہ سوچ درست نہیں حقیقت میں خطرات کم کرنے ہیں تو کچھ نیا اور منفرد کرنا ہو گا وگرنہ ڈھیروں ہتھیاروں کے باوجود اسرائیل جیسا ایک چھوٹا سا ملک جس طرح بے لگام اور یواین او چارٹر کی دھجیاں بکھیر رہا ہے ایسے حالات کا مستقبل میں کسی بھی خطے میں خدشہ موجودرہے گا اِس لیے لازم ہے کہ عالمی طاقتوں کی طرف دیکھنے کے بجائے حکمران ریاستی مفاد کو مقدم رکھیں۔
تبصرے بند ہیں.