سانحہ نو مئی کے بعد کا سانحہ

90

نو مئی کو ایک سیاسی جماعت کے ”پیروکاروں“ نے جو تباہی مچائی اُس کے نتیجے میں قصوروار تو ظاہر ہے قانون کے مطابق سزا کے مستحق تھے،کچھ اُس”قانون“ کے مطابق بھی سزا کے مستحق ٹھہرے جس قانون کو طاقتوروں نے ہمیشہ اپنی لونڈی سمجھا، گیہوں کے ساتھ گھن پیسنے کی مثالیں ہم  نے بہت سُنی تھیں، اس کی عملی شکل سانحہ نو مئی کے نتیجے میں ہم نے دیکھی، پولیس  نے اس معاملے میں جو اندھیر نگری مچا کر ایک ادارے کو بدنام کر کے اُس ادارے سے جو انتقام لیا، اس کی تفصیل میں اپنے اگلے کالم میں عرض کروں گا۔۔ پی ٹی آئی کے سربراہ اور اُن کے اندھے تقلید کاروں نے نو مئی کے فوراً بعد یہ بیانیہ پھیلانے کی کوشش کی ”یہ ایک خود ساختہ سانحہ تھا“ وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے”اس سانحے میں جن کا نقصان ہوا ایک خاص مقصد کے لئے اس کی منصوبہ بندی اُنہوں نے خود کی تھی“، خان صاحب کی یہ خوش قسمتی رہی ہے اُن کے اُن ”بیانیوں“ پر بھی لوگ اندھا دُھند یقین کرتے رہے ہیں جو وہ صرف اور صرف اپنی ذات و سیاست کو چمکانے یا دوام بخشنے کے لئے بناتے تھے، جیسے ”ریاست مدینہ“ کا بیانیہ بنایا، جیسے”تبدیلی“ کا خواب دیکھایا، جیسے نوے دنوں میں سسٹم بدلنے کی بات کی، اور آخر میں امریکی مداخلت کا بیانیہ اپنا کر اپنی سیاست اور حکومت بچانے کی ناکام کوشش کی، جنرل باجوہ کچھ مفادات اور غیر ضروری خدشات کا شکار ہو کر تاریخ ساز چول اگر نہ مارتے، خُدا کی قسم خان صاحب اپنے انہی بیانیوں کے بوجھ تلے اب تک دفن ہو چکے ہوتے، کوئی اُن کا نام لینے والا نہ ہوتا، اُن کے راہنما اُسی طرح منہ چُھپاتے پھرتے، جیسے آج نُون لیگ کے بے شمار راہنما حالیہ ڈیڑھ برس کے اقتدار کی کالک منہ پر ملنے کے بعد منہ چُھپاتے پھرتے ہیں، اور اس فکر میں مُبتلا ہیں کہ جن کی سرپرستی میں وہ ہمیشہ الیکشن جیتتے رہے ہیں اس بار وہ اُنہیں اپنی سرپرستی بخشنے میں ناکام رہے وہ الیکشن کیسے جیتیں گے؟، ایسی صورت میں تو اُن کے بے شمار اُمیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی، شاید اسی لئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے باوجود الیکشن کی تیاریوں سے وہ گریز کر رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں یا کوئی ایسا سانحہ ہو جائے جس کے نتیجے میں الیکشن سے فی الحال اُن کی جان چُھوٹ جائے، بظاہر اُن کی یہ حسرت یا خواہش اب پُوری ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتی، اس وقت مُلک ہر معاملے میں عدم استحکام کا شکار ہے، یہ صورتحال بہت خطرناک ہے، اس کی فکر اگر کسی کو ہے تو اس کا واحد حل ہر ممکن حد تک صاف شفاف الیکشن ہیں، مکمل طور پر صاف شفاف الیکشن اب شاید ہماری قسمت میں نہیں، ہماری گزارش بس اتنی ہے اس بار بس اْتنی دھاندلی کی جائے جس کا نقصان اس مُلک کو کم سے کم ہو، کوئی زبردستی اگر کی گئی ممکن ہے اس کے نتائج سے نمٹا نہ جاسکے، کوئی بھی حکمت عملی اپنا لی جائے،بس اتنا خیال رکھا جائے مُلک مزید نقصان کا متحمل اب نہیں ہوسکتا۔۔ جہاں تک سانحہ نو مئی کا تعلق ہے اس کے فوراً بعد خان صاحب نے  یہ ”بیانیہ“ اپنایا ”اس سانحے کا اہتمام اُنہیں اور اُن کی جماعت کو مکمل طور پر ختم کرنے کی خواہش رکھنے والوں نے خود کیا تھا“،خان صاحب کے دیگر کئی جھوٹے بیانیوں کی طرح اُن کے اس بیانیے پر بھی کچھ لوگوں کو یقین آ گیا، دوسروں کو تو چھوڑیں خود میں شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا، مگر پچھلے دنوں میں جب برطانیہ گیا، وہاں پی ٹی آئی کے کچھ راہنماؤں سے میری ملاقات ہوئی، کچھ ایسے شواہد مجھے ملے، میرا یہ شک دُور ہو گیا یہ ایک ”خود ساختہ سانحہ“ تھا، پی ٹی آئی بہت عرصے سے اس کی پلاننگ کر رہی تھی، باقاعدہ میٹنگز ہو رہی تھیں کہ خان صاحب کی گرفتاری کے فوراً بعد کیا اُدھم مچانا ہے اور کہاں کہاں حملہ آور ہونا ہے؟ خان صاحب اس یقین کامل میں مبتلا تھے پاکستان اب بدل چُکا ہے، وہ سمجھتے تھے، جنرل فیض کی سربراہی میں پاکستان کا نیا جی ایچ کیو اب بنی گالہ اور آئی ایس آئی کا نیا ہیڈ کواٹر زمان پارک میں ہے، اپنی اس سوچ کے تحت ایسی منصوبہ بندی اْنہوں نے کی جو صرف اُن ہی کے نہیں اُن کی جماعت حتی کہ اس مْلک کے بھی گلے پڑ گئی بلکہ اب تک پڑی ہوئی ہے، اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد خان صاحب بُشری بی بی سے کام لینے کے بجائے صبر و تحمل سے کام لیتے، اپوزیشن میں بیٹھ جاتے، اداروں سے ہاتھا پائی نہ کرتے،اپنی زبان کی بواسیر کا علاج کروا لیتے، آج حالات شاید مختلف ہوتے، مگر وہ اپنی فطرت سے مجبور تھے، سو اس فطرت کا خمیازہ اب صرف اُنہیں نہیں بہت سوں کو بُھگتنا پڑ رہا ہے، اُن کے پاس دو راستے تھے، ایک راستہ یہ تھا جو قوتیں اُنہیں اقتدار میں لے کے آئی تھیں اُن کے ساتھ اپنے معاملات کو بند گلی میں نہ لے جاتے, تاریخ سے سبق سیکھتے کہ ایسا کرنے سے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے، دوسرا راستہ اُن کے پاس یہ تھا تاریخ کو نظرانداز کر کے ٹکڑاؤ کی پالیسی کو اُس مقام پر لے جاتے جہاں اُنہیں اقتدار میں لانے والے دوبارہ اُن چوروں ڈاکوؤں سے رجوع کرنے پر مجبور ہو جاتے جنہیں اقتدار سے ہٹا کر خان صاحب کو وہ اقتدار میں لے کر آئے تھے، افسوس خان صاحب نے دوسرا راستہ اپنایا، جس کے نتیجے چور ڈاکو اپنی سابقہ پالیسیوں سمیت ایک بار پھر اقتدار میں آگئے، اور ایک بار پھر آنے کے لئے بے چین ہیں۔۔ دوسری طرف یہ بھی ایک المیہ ھے جس شخص کا عالمی سطح پر جھوٹا سچا ایک وقار تھا،وہ جیسا بھی تھا بطور وزیراعظم دُنیا اُسے عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی، بجائے اس کے، اُس کا چہرہ سامنے رکھ کے دُنیا سے پاکستان کے لئے کچھ حاصل کر لیا جاتا، اُسے ضائع کر دیا گیا،میں حیران ہوں جس شخص کو ایک عورت نے مینیج کر لیا اُسے وہ لوگ مینیج کرنے میں ناکام رہے جو خود کو”عقل کُل“ اور ہمیں ”بلڈی سویلینز“ سمجھتے ہیں۔۔ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے اس مْلک کے ساتھ کوئی مخلص نہیں ہے، سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور اس چکی میں اس مُلک کو وہ پیستے جا رہے ہیں، انتقامی جذبے عروج پر ہیں، کاش بدبختوں کو یہ اندازہ ہوسکے جب اُمید ٹُوٹ جاتی ہے کچھ نہیں بچتا، میں وہ نہیں کہنا چاہتا جو دیوار پر صاف لکھا ہے، میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں خُدا کے لئے اُسے مٹانے کا کچھ اہتمام کیا جائے، باکمال شاعر شعیب بن عزیز کا پیغام بھی یہی ہے۔۔
بینر پر لکھے حرف خوشامد پر جو خوش ہے
دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

تبصرے بند ہیں.