پہاڑوں کا عالمی دن اور پاکستان

137

پہاڑوں کا عالمی دن دراصل پاکستان کے لیے بطور خاص اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ دنیا کی بلند ترین برفیلی بلندیوں کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔ ماؤنٹین ڈے ہر سال 11 دسمبر کو منایا جاتا ہے جس کا آغاز 2002 میں کیا گیا۔ یہ دن مناتے ہوئے دنیا بھر میں پہاڑوں کی حالت بہتر بنانے اور ان کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ اعزاز قدرت کی طرف سے پاکستان کو ودیعت کیا گیا کہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو جسے مقامی زبان میں چھوغوری کہا جاتا ہے۔ (8611 میٹر) اور نو ویں بلد ترین چوٹی جو قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور ہے (8126میٹر) سمیت 8 ہزار میٹر سے بلند 14 اولین چوٹیوں میں سے 5 پاکستان میں ہیں۔ عالمی سطح پر ہر سال 5 کروڑ سیاح پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں تاہم اس کی قیمت پہاڑی علاقوں میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے۔ یہ عالمی دن منانے کا مقصد پہاڑوں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لیے اقدامات کا شعور اجاگر کرنا ہے۔

پہاڑ دنیا بھر کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پارکس کا 56 فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔ مجھے دنیا کے طویل ترین برفانی راستے پر سفر کے دوران ان چوٹیوں کو دیکھنے کا موقع ملا تو عجیب حیرت ہوئی کہ دنیا بھر میں چھبیس ہزار فٹ بلند چودہ برفانی چوٹیاں اپنے اپنے سفید وجود لیے ہزاروں سال سے گلیشئرز کو محفوظ کیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں موجود دنیا کی پانچ حیران کن چوٹیوں میں سے چار بلندیاں کنکورڈیا اور کے ٹو کے قریب ترین ہیں۔ پاکستان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ سات ہزار میٹر بلند 186 چوٹیاں گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں ترتیب سے پروئی گئی ہیں۔ دنیا کی دوسری اونچائی 8611 میٹر بلند چوٹی K2 کے علاوہ نانگا پربت (8125 میٹر)، گاشربرم ون (8068 میٹر)، بروڈ پیک (8051 میٹر) اور گاشر برم ٹو (8035 میٹر) وطن عزیز کو پہاڑوں کی دنیا میں ممتاز کرتی ہیں۔ ضلع نگر کی حدود میں واقع 7788 میٹر بلند راکا پوشی کوہ پیماؤں کو ہنزہ کی طرف کھینچتی ہے۔ 7708 میٹر بلند برفیلی بلندی ترچ میر ضلع چترال کو سفید چاندی جیسا عکس عطا کرتی ہے۔

قراقرم کے حصے میں سب سے زیادہ بلندیاں آتی ہیں۔ قاتل پہاڑ نانگا پربت ہمالیہ میں رنگ بھرتا ہے۔ کوہ ہندو کش کا سلسلہ بھی ترچ میر کے بغیر ادھورا ہے۔ عالمی کوہ پیماؤں کے لیے ہمیشہ سے جان لیوا چوٹی نانگا پربت شاہرائے قراقرم پر سفر کرنے والوں کو بہت دلکش نظارے تقسیم کرتی ہے۔ رائے کوٹ سائیڈ پر نانگا پربت کے بیال کیمپ کی طرف جانے والے سیاح فیری میڈو سے ہو کر وہاں پہنچتے ہیں۔ پریوں کی چراگاہ میں ریفلیکشن جھیل کے پانی نانگا پربت کا عکس لیے ہوتے ہیں۔ یہ دنیا بھر کی واحد مثال ہے کہ 8000 میٹر بلندی کی حامل چار چوٹیاں کندھے سے کندھا ملائے کنکورڈیا کے راستے میں پڑتی ہیں۔ K2 کی طرف منہ کر کے کھڑے ہوں تو ایک تکون جس میں ذرا سا دھبہ بھی نظر نہیں آتا وہ Angel Peak ہے، دائیں جانب براڈ پیک اور اس کے ساتھ گیشا بروم گروپ کی چوٹیاں ہیں۔ ان راستوں پر زیادہ تر امریکا، جرمن، جاپان اور انگلینڈ کے کوہ پیما اور سیاح جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کا اس طرف رجحان بہت کم ہے۔

جگلوٹ پر دنیا کے تین بلند ترین پہاڑی سلسلے قراقرم، ہندوکش اور ہمالیہ اپنی جداگانہ رنگت سمیت دریائے سندھ کے کنارے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ دیوسائی کی سطح مرتفع سیاحوں کو نئی زندگی کا مفہوم عطا کرتی ہے۔ جھیل کرومبر آج بھی فطری کشش سمیت دشوار راستوں کو آباد کیے ہوئے ہے کہ لوگ پیدل چل کر جب وہاں پہنچتے ہیں تو پاؤں کے آبلے بھول جاتے ہیں۔ پاکستان سیاحت کے حوالے سے سونے کی چڑیا ہے مگر افسوس کہ حکومتی سطح پر ان دل کش وادیوں کی نوک پلک سنواری ہی نہیں گئی۔ آسان رسائی ہوتی تو لوگ سوئٹزرلینڈ کو بھول جاتے۔

آلودگی سے برباد ہوتی پہاڑی دنیا ہمیں ایک طرح خبردار کرتی ہے کہ کے ٹو بیس کیمپ کو بھی فیری میڈوز کی طرح صاف رکھا جائے۔ سکولے گاؤں سے لے کر کنکورڈیا تک گدھوں کے فضلے کو صاف کرنے کا اہتمام ضروری ہے۔ ناران کے قریب ملکہ پربت کے پہلو میں جھیل سیف الملوک کبھی پریوں کی جھیل تھی جسے چھوا نہیں جا سکتا تھا اب آلودہ ہو چکی ایک دکان ہے جس کے گرد گاہک منڈلاتے ہیں۔

پاکستان کی زراعت کا تعلق دریاؤں پر ہے اور دریاؤں میں دریائے سندھ ہمارے نہری نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے۔ میں نے خپلو، کنکورڈیا اور کارگل تک کے سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دریائے سیوق، دریائے برالدو، دریائے شگر کیسے پہاڑوں کے دامن چومتے ہوئے دریائے سندھ کا حصہ بنتے ہیں۔ دریائے ہنزہ اور دریائے غذر خنجراب اور چترال کے علاقوں سے گلیشیئرز سے پانی کشید کر کے کس طرح انڈس ریور کی طغیانی بڑھاتے ہیں۔

پہاڑ دراصل میدانی علاقوں کی زرخیزی کا سبب بنتے ہیں اس لیے ان کو آلودگی سے بچانا ضروری ہے۔ درختوں کا تحفظ بھی پہاڑوں کی بقا کے لیے اہم ہے۔ عالمی دن کے موقع پر قرآن مجید کی آیات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ”اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تا کہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں“ الانبیاء۔ اور پھر دوسری آیت ”کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخیں“ النبا۔ ان آیات میں زمین کو ڈھلکنے سے بچانے اور زندگی کی بقا کے لیے پہاڑوں کی اہمیت اجاگر ہے۔

تبصرے بند ہیں.