عام طور پر شعراء کرام کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ اپنا کلام سنانے کے لیے سامع کی تلاش میں ہوتے ہیں اور اگر سامع میسر آ جائے تو اس کی خوب آؤ بھگت بھی کرتے ہیں اور اس وقت تک کرتے ہیں جب تک اپنا کلام اس کی روح تک میں اتار نہ دیں۔ لیکن ایسے شاعر بھی ہیں جن سے ان کا کلام سننے کے لیے سامعین کو ان کے ناز نخرے اٹھانا پڑتے ہیں۔ ایک شاعر جن کی شاعری کی رفعت و ندرت میں کوئی کلام نہیں، ان کے بارے میں بتایا یہ جاتا ہے کہ پاکستان میں ضیا آمریت کے دور میں وہ بیرون ملک جاتے اور آمریت کے خلاف اپنی نظمیں پڑھ کر داد اور مہمان نوازی کا لطف خوب سمیٹتے۔ انہی شاعر صاحب نے مشرف۔ افتخار چودھری کی محاذ آرائی میں عدلیہ کی سربلندی کی خاطر مشرف حکومت کی جانب سے ملنے والے اعلیٰ شہری اعزاز ہلال امتیاز کو کلنک کا ٹیکہ قرار دے کر واپس کر دیا تھا، حالانکہ جناب نے مشرف دور ہی میں بطور سربراہ نیشنل بک فاؤنڈیشن، کئی سال تک خدمات انجام دیں تھیں۔
تمہید باندھی تھی ایک غلط العام تاثر سے جو شعراء کرام کے بارے میں پایا جاتا ہے لیکن بعض متاثرین اسے حقیقت بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن شاعر حضرات تو یوں ہی بدنام ہیں، یہاں تو سیاسی، ادبی اور مذہبی شخصیات بھی خودنمائی اور داد طلبی کے جنون میں انتہائی درجہ تک مبتلا ہیں۔ ایک محترم شخصیت جو ایک منظم اور طاقتور ادارے میں اعلی عہدے پر فائز رہے، سفیر بھی رہے اور میدان سیاست میں بھی رہے۔ 2004 کے لگ بھگ جب وہ قومی سیاست میں انصاف کی تحریک برپا کرنے کے درپے تھے تو ان کا ایک انٹرویو کسی نجی چینل پر نشر ہوا۔ ابلاغ میں سوشل میڈیا نے آج کی جدت اور وسعت اختیار نہ کی تھی، کہ ان کا انٹرویو ہر کسی کی سماعت اور بصارت کو فیض یاب کر سکتا۔ تب موصوف ایک بھاری بھرکم ٹیلی ویژن سیٹ اور سی ڈی پلیئر اپنی کار میں رکھ کر سفر کرتے اور جہاں جاتے پہلے اپنا وہ انٹرویو سنواتے اور پھر تعریف بٹورتے۔ لاہور میں ایک معروف ادبی شخصیت جو بائیں بازو کی فکر کے بھی حامل تھے، لاہور ڈیفنس میں رہائش پذیر تھے۔ وہ اعلیٰ درجے کے مہمان نواز تھے لیکن ساتھ ہی مہمان کو اندر بٹھا کر باہر جرمن شیفرڈ کتا کھلا چھوڑ دیتے۔
ان کی گفتگو کا کم سے کم دورانیہ چار پانچ گھنٹے ہوتا، اب مہمان بے چارے میں اتنی جرأت کہاں کہ مہمان خانے کا دروازہ کھولے اور باہر چلا جائے اور باہر غراتے جرمن شیفرڈ سے کون نپٹے؟ یہ رویہ بھی ہمارے یہاں عام ہے کہ کسی کو موبائل پر کال کرتے ہیں تو بجائے یہ پوچھنے اور سمجھنے کہ نہ جانے اگلا کس صورتحال سے دو چار ہے اپنا فلسفہ اور روز کی آپ بیتی سنانے بیٹھ جاتے ہیں۔ بعض کرم فرما توکسی کتاب کے کئی کئی صفحات سنانے لگتے ہیں۔
سماجی رابطوں میں سب سے معروف یو ٹیوب، کتاب رخ (فیس بک) اور واٹس ایپ زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ کتاب رخ پر اکثر لوگ ”میں“ کی تکرار اس قدر کرتے ہیں جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ نہ ہوتے تو نہ جانے کیا ہوتا؟ ایسے بھی ہیں جو یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ کتاب رخ پر میرے دوستوں کی تعداد کی حد مکمل ہو چکی ہے، اب کوئی اور زحمت نہ کرے یعنی بتانا یہ مقصود ہے کہ متاثرین کی تعداد پانچ ہزار ہو چکی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ میں اب فلاں فلاں کو ان فرینڈ کرنے لگا ہوں اور خبردار وہ اب دوبارہ جرأت نہ کریں۔
اب ان سے کوئی پوچھے کہ جب آپ کتاب رخ پر کسی کو دوست بناتے ہیں تو کیا اس کا بھی اعلان کرتے ہیں؟ اگر کسی کے خیالات پسند نہیں تو خاموشی سے قطع تعلق کر لیں، یہی بہتر ہے۔ جاگیر دارانہ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت ہمارے معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ جہاں درخواست (ریکوسٹ) کا لفظ آیا وہیں ہمارے اندر کا جاگیر دار اور وڈیرہ جاگ اٹھتا ہے۔ میں نے ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ فیس بک پر دوستی کی درخواستوں کو یوں قبول کرتے گویا کہ درخواست گزار پر احسان عظیم کر رہے ہوں۔
فیس بک پر کتنے لوگ ہوں گے جن سے ہم کبھی ملے ہوں یا بات کی ہو؟ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فیس بک کے دوست اگر کسی جگہ اتفاقاً اکٹھے ہو جائیں تو بتانا پڑتا ہے کہ میں فیس بک پر آپ کے احباب میں شامل ہوں۔ ادبی تقریبات میں اس قسم کے واقعات عام ہیں۔ ایک رویہ فیس بک پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ خواہ کسی مشہور اور پنج ستارہ ہوٹل کی پارکنگ ہی میں کار کھڑی کی ہو لیکن ”چیک ان“ کا سٹیٹس ضرور لگاتے ہیں۔ بعض تو ایسے بھی ہیں کہ اپنے باورچی خانے میں صبح، دوپہر اور رات بننے والے پکوانوں کی تصاویر بھی باقاعدگی کے ساتھ فیس بک پر آویزاں کرتے ہیں اور ایسے بھی جو روز اپنی نئی تصویر ”آج کی تصویر“ کے عنوان کے ساتھ آویزاں کرتے ہیں۔
کسی ادیب، دانشور اور لکھاری کا اپنے کتب خانے میں بیٹھ کر بات کرنا اور بات ہے، لیکن خود نمائی کے شوقین ایسے دانشور بھی ہیں کہ یو ٹیوب یا کسی ویڈیو کلپ میں اپنے خطاب کے دوران کتابیں اس طرح سجاتے ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کتابیں اپنے مطالعے یا ریفرنس کے لیے نہیں بلکہ یہ دکھانے کے لیے ہیں کہ موصوف کے پاس کون کون سی کتابیں ہیں۔
واٹس ایپ کا حال اور بھی خراب ہے۔ کسی فرد کا دیگر افراد کو منتخب کر کے گروپ بنا لینا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ گروپ کا بنیادی مقصد کسی خبر، معلومات، حکایت یا مزاح میں سب کو بیک وقت شریک کرنا ہوتا ہے۔ لیکن لوگ یہاں آپس کی گفتگو ”چیٹنگ“ شروع ہو جاتے ہیں اور گروپ کے دیگر لوگ اپنے موبائل پر انگلیاں دکھا دکھا کر پاگل ہو جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی جدت اور وسعت کو ہم علم، حقائق اور نظریات کے پھیلاؤ کے بجائے خود نمائی، دروغ گوئی اور مذہبی اور سیاسی عصبیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔
تبصرے بند ہیں.