محبتوں کی سرزمین بھلوال!

266

موٹر وے پر لاہور سے اسلام آباد کی طرف سفر کرتے ہوئے سالم انٹر چینج پر پہنچیں تو یہاں سے مغرب کی طرف تقریباً گیارہ کلو میٹر کے فاصلے پر سرگودھا کی تحصیل بھلوال واقع ہے جو دنیا بھر میں بہترین کِنو کی پیداوار کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔ ویسے تو یہ پورا علاقہ اپنی صاف ستھری آب و ہوا، کھلے ڈُلے ماحول، خالص دیسی خوراک، باغات، نہروں، تعلیم، کاروبار، لوگوں کے آپس میں محبت بھرے میل جول، امن امان اور زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات کی دستیابی کے حوالے سے ایک پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے مثالی علاقہ ہے۔ مگر ان تمام خوبیوں اور سہولیات سے ہٹ کر بھی یہ علاقہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔ اس لیے کہ میرا سارا بچپن، لڑکپن اور اوائلِ جوانی یہیں کھیلتے کودتے اور ہنستے گاتے گزرے ہیں۔ یہ آج سے کوئی تیس پینتیس برس پرانی بات ہے والد صاحب چودھری گلزار احمد اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اُس وقت محکمہ واپڈا میں سینئر سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ اُن کی لاہور سے بھلوال ٹرانسفر کے سلسلے میں ہماری فیملی مونا واپڈا کالونی شفٹ ہوئی تھی۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کسی بھی خاندان کے لیے اپنا گھر بار اور گلی محلہ چھوڑ کر ایک نئی جگہ بسنا قدرے مشکل کام ہے پتا نہیں کیوں میرے دل میں ایک نئی جگہ اور نئے ماحول میں نئے لوگوں سے ملنے کی ایک انجانی سی خوشی تھی۔ میں اس وقت چھٹی جماعت کا طالب علم تھا مجھے آج بھی وہ لمحات اچھی طرح یاد ہیں پوری فیملی کے ساتھ ٹرک میں گھر کا سامان لاد ے ہم راتوں رات لاہور شہر میں شادباغ کے گلی محلوں سے نکل کر اگلی صبح ایک ایسی بستی میں آ گئے جہاں گرد و غبار، گاڑیوں کا دھواں اور کسی قسم کا شور شرابا نہ تھا۔ صاف ستھری آب و ہوا، پینے کے لیے کسی پہاڑی چشمے جیسا قدرتی ٹھنڈا میٹھا پانی، پرندوں کے چہچہانے کی آوازیں اور آنکھوں کو بھلا لگتا شفاف نیلا آسمان۔ بھیرہ روڈ پر بھلوال شہر سے تین چار کلو میٹر کے فاصلے پر نہر کنارے رنگ برنگے پھولوں، درختوں اور باڑوں سے سجی یہ چھوٹی سی کالونی اس وقت اپنے پورے جوبن پر اور خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ جن لوگوں نے اس دور میں مونا واپڈا کالونی کو دیکھا ہے وہ اس بات کی گواہی دیں گے کہ چار دیواری کے اندرگنتی کے چند خاندانوں پر مشتمل یہ چھوٹی سی بستی اس قدر صاف ستھری، دلکش اور پُرسکون تھی کہ گرد و نواح سے لوگ خاص طور پر اسے دیکھنے آتے تھے۔ کالونی میں بچوں کے کھیلنے کے لیے کرکٹ گراؤنڈ اور بڑوں کے لیے الگ سے آفیسر کلب تھا جہاں لانگ ٹینس، بیڈ منٹن کورٹس کے ساتھ ٹیبل ٹینس اور کیرم بورڈ جیسی کھیلوں کی سہولیات بھی دستیاب تھی۔ البتہ یہاں پتنگ بازی، گلی ڈنڈا، بنٹے اور لٹو جیسے خالص لاہوری کھیل نہیں تھے جن کی کمی میں ایک عرصے تک محسوس کرتا رہا۔ اس کے باوجود دیگر بہن بھائیوں کی نسبت
مجھے اس نئے ماحول کو اپنانے میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگا۔ چند ہی روز میں کالونی کے ہم عمر بچوں کے ساتھ میں اس طرح گُھل مِل گیا گویا ہماری برسوں کی شناسائی ہو بلکہ ایک آدھ شوخے اور شرارتی بچے کو تو میں نے شروع دن سے ہی اپنا بھرپور تعارف بھی کرا دیا۔ جس کے بعد کالونی کے وہ بچے جو مجھے لاہوری بچہ سمجھ کر ”ایزی“ لے رہے تھے اُن پر بھی میرا اچھا خاصا رعب بن گیا۔ بچپن اور لڑکپن کی درمیانی سرحد پر بے فکری عمر کا یہ وہ دور تھا جس میں ہر کوئی خواہشوں کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں اور دل پر اپنی ذات کے غرور کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ یاروں دوستوں کے ساتھ زندگی مونا واپڈا کالونی میں اپنے گھر سی۔تھری، چاچے نذرے کی کنٹین، نہر کی پٹڑی، چاندنی چوک، کرکٹ گراؤنڈ اور کالونی کی چھوٹی سی مسجد سے لے کر سکول کی بس اور بھلوال شہر میں واقع پہلے تعلیم الاسلام مڈل سکول اور بعد میں گورنمنٹ ہائی سکول تک محدود تھی۔ رب کے کرم سے دل کو گرمانے اور آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والے ماں باپ، بہن بھائی، یاروں دوستوں اور پیاروں کے سنگ ہر طرف سَت رنگے چاہ، سُکھ اور خوشیاں تھیں۔ دل میں نت نئے شوق بھی تھے اور انہیں پورا کرنے کا جوش بھی۔ لااُبالی پن کی ایک الگ سی دنیا تھی جس میں یاروں بیلیوں کے ساتھ مرضی کے دن اور مرضی کی راتیں تھیں۔ رات دیر تک کبھی کرکٹ گراؤنڈ میں اور کبھی نہر کنارے کھلے آسمان کے نیچے تاروں کی چھاؤں میں دوستوں کے ساتھ بے فکری کے قہقہے، ہنسی مذاق اور لمبی لمبی بے مقصد باتیں تھیں۔ نئی نئی جوانی کے خمار نے خوابوں اور خیالوں کے آسمانی پنگھوڑے پر اس طرح سوار کیا ہوا تھا جہاں اپنی ذات سے باہر کوئی اور دکھائی دیتا تھا اور نہ ہی دیکھنے کی خواہش تھی۔ نامعلوم فطرتاً میرا مزاج شاعرانہ تھا یا اس ماحول میں کوئی ایسا جادو تھا کہ ساتویں یا آٹھویں جماعت سے ہی میرا رجحان موسیقی، شاعری، رسالوں اور فلموں میں بڑھتا چلا گیا اور سکول کالج کی تعلیم میں صرف واجبی سی دلچسپی رہ گئی۔ یہیں سے مجھے اپنے پسندیدہ گانے سنتے اور شاعری پڑھتے پڑھاتے لکھنے لکھانے کا شوق بھی پیدا ہو گیا۔ جس کے بعد میں نے بھلوال شہر کی ماہانہ ادبی نشستوں میں سرگودھا ڈویژن کے زبردست کرکٹر اور شاعر دوست اکمل تبسم کے ساتھ باقاعدگی سے جانا شروع کر دیا۔ اِن نشستوں میں نئے لکھنے والوں کے ساتھ اصغر حسین شامی اور ڈاکٹر جاوید آغا جیسے پنجابی اردو کے منجھے ہوئے سینئر شعرا بھی شریک ہوتے تھے جنہیں سُن کر ہمارے جیسے نو آموز لکھنے والوں کی ابتدائی شعری تربیت بھی ہوتی تھی۔ اسی طرح کی علمی ادبی محفلوں اور یاروں دوستوں کے ساتھ دیگر کھیل تماشوں میں محبتوں سے گزرا میری زندگی کا یہ وہ سنہری دور تھا جس کی حسین یادیں آج بھی خوشبو کی طرح میرے دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہیں۔ جب بھی تنہائی میں ان گزرے دنوں کی یاد آتی ہے تو مونا واپڈا کالونی اور بھلوال کے اپنے ان دوستوں اور پیاروں کی سلامتی کے لیے آنکھوں کے نم ہوتے گوشوں کے ساتھ دل سے بے اختیار ڈھیروں دعائیں نکلتی ہیں۔ گذشتہ دنوں محبتوں کی اسی سرزمین شہر بھلوال میں ہمارے شاعر اور صحافی دوست خواجہ ادیب ناصر نے صفہ کالج بھلوال کے پرنسپل رانا طارق صاحب کے تعاون سے اصغر حسین شامی صاحب کی صدارت میں میرے اعزاز میں ایک خوبصورت مشاعرے کا اہتمام کیا۔ یقین جانیں میں صاحب صدر اور مہمانان خصوصی محترم ڈاکٹر جاوید آغا صاحب اور اسسٹنٹ کمشنر بھلوال سفیان دلاور کے ہمراہ تقریب میں جتنی دیر سٹیج پر بیٹھا رہا۔ دوستوں کی محبتوں کو سمیٹتے اورنوجوان شعراء کا خوبصورت کلام سنتے ہوئے مجھے یہی محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا خوبصورت ماضی ایک بار پھر سے لوٹ آیا ہو۔ خیر ہو محبتوں کی سرزمین بھلوال اور اہلیانِ بھلوال کی۔

تبصرے بند ہیں.