بلاول، غصہ بنتا ہے؟

60

ن لیگ کی ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ان جماعتوں کے رہنماؤں کی ن لیگ کے رہنماؤں سے جوابی ملاقاتوں کے نتیجے میں سندھ میں جو سیاسی ماحول جنم لے رہا ہے یہ پندرہ سال سے سندھ سیاست کی اجارہ دار پیپلزپارٹی کیلئے بلاشبہ تشویش کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے آصف زرداری کی جانب سے پنجاب میں مستقل ڈیرے ڈالنے کے اعلان کے غبارے سے فی الحال ہوا نکلی ہوئی لگتی ہے۔ پنجاب کی بجائے مستقل ڈیرہ سندھ میں ہی لگایا گیا ہے جو اس حقیقت کی از خود دلیل ہے کہ اب جیب کی گھڑی اور گڑھے کی مچھلی نہیں ہے بلکہ سابقہ سیاسی گرفت برقرار رکھنا چیلنج بن چکا ہے۔ یہ امکان تو ہے کہ اس مرتبہ وزیر اعلیٰ مخالف اتحاد کا بن جائے لیکن یہ درست نہیں سندھ سے پیپلز پارٹی کا سیاسی بسترہ گول ہو جائے گا۔ یہ بہت مضبوط اپوزیشن بن سکتی ہے جو جمہوری استحکام کا تقاضا بھی ہے۔

گزشتہ دو تین سال کے دوران سندھ کے مختلف علاقوں میں جو جائزہ لیا یہ حقیقت سامنے آئی ن لیگ کے وابستگان سخت شکوہ کناں رہے کہ ان کی قیادت نے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر سندھ بلا وجہ زرداری کو سونپ رکھا ہے۔24 اکتوبر 2023ء کو سندھ، ن لیگ، حیران کن پذیرائی کے عنوان سے کالم کا اقتباس بعض سندھی مہربانوں کے ساتھ کراچی سے بدین تک سفر کا موقع ملا۔ ٹھٹھہ، سجاول سمیت مختلف چھوٹے بڑے قصبوں اور گوٹھوں میں جہاں آصف زرداری، فریال تالپور اور بلاول کے مقامی لیڈروں کے ساتھ بینرز، پوسٹر اورپارٹی پرچم نظر آئے۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمن، راشد محمود سومرو اور مقامی لیڈروں کے تصاویر کے ساتھ جمیعت علمائے اسلام کے بینرز پوسٹر اور جھنڈے نظر آئے۔ میاں نواز شریف، مریم نواز کے مقامی لیڈروں کی تصاویر کے ساتھ بینرز، پوسٹر اور پارٹی پرچم دیکھ کر تعجب ہوا کہ ان علاقوں میں ن لیگ کی سرگرمیاں کبھی دیکھنے، سننے میں نہیں آئیں۔ اس کے باوجود بہت چھوٹی سطح پر سہی عملی وابستگی تعجب کا باعث تو ہے اور اب جو ن لیگ نے پہلی مرتبہ سندھ بالخصوص اندرون سندھ سنجیدگی سے توجہ مبذول کی ہے، بشیر میمن کو نیا صوبائی صدر مقرر کیا گیا ہے جن کے متحرک ہونے سے پورے سندھ میں ن لیگ میں زندگی کی لہر دوڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ سچی بات ہے ایک بیوروکریٹ اور جس کا تعلق زیادہ تر پولیس کے محکمے سے رہا ہے اور سیاسی پس منظر بھی نہیں رکھتا، سیاسی جماعت کا صوبائی سر براہ مقرر کرنا جن لوگوں کو کچھ عجیب سا لگا تھا ان میں یہ عاجز بھی شامل تھا لیکن ثابت ہو گیا کہ نواز شریف کا یہ فیصلہ سیاسی دانش کا مظہر ہے۔ بشیر میمن جس طرح سے ن لیگ کو فعال بنانے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں پرانے ساتھی کو متحرک کرنے اور نئے ساتھی پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، جی ڈی اے اور ایم کیو ایم کے اتحاد سے ن لیگ پہلی مرتبہ سندھ کی اجارہ دار سیاست کیلئے چیلنج بن رہی ہے۔ بلاول کا شدید ردعمل کا شکار ہونا باعث تعجب نہ ہونا چاہیے۔

جوں جوں 8 فروری نزدیک آرہی ہے سیاسی ماحول میں گرمی بڑھ رہی ہے۔ ا س کی تپش شاید بلاول زیادہ محسوس کر رہا ہے اس لئے آتش زیر پا ہو رہا ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لیا جائے تو یہ غیر فطری نہیں ہے۔ ظاہر ہے اگر کوئی کسی کو گھر میں گھس کر مارنے کا اعلان کرے اور پھر اس اعلان کو عملی شکل دینے کی تیاریاں بھی شروع کر دے تو اسے غصہ تو آئے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو خاندان کے بعد اب زرداری خاندان سندھ کو اپنا قلعہ ہی نہیں بلکہ موروثی جائیداد سمجھتے ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں آصف زرداری نے انتخابی بساط بچھانے والوں سے بڑی ہوشیاری کے ساتھ یہ بات منوالی تھی کہ کراچی اور حیدر آباد بے شک پی ٹی آئی کے حوالے کر دیئے جائیں مگر مجموعی طورپر سندھ پر ان کی گرفت برقرار رہنے دی جائے پھر اس کی قیمت اس دور کی اسٹیبلشمنٹ کے ایماء پر بلوچستان میں ن لیگ کی مخلوط حکومت توڑنے اور صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں کردار ادا کرنے کی صورت ادا کی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے اپنی سیاست کی نشو ونما کے امکانات پیدا کرنا صرف بلاول زرداری کے والد محترم آصف زرداری کا تمغہ امتیاز نہیں ہے بلکہ ان کے نانا جان ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ملک کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے زیر سایہ سیاسی پنگوڑے میں قدم رکھا تھا اور یہ بھی بھٹو کے جمہوری ذہن کا ہی شاہکار ہے کہ ضلع کے ڈپٹی کمشنر کے جنرل ایوب کی کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر اور ایس پی کو جنرل سیکرٹری بنانے کی تجویز پیش کی تھی جسے باقاعدہ ڈکٹیٹر بھی قبول کرنے کی جرأت نہ کر سکا تھا۔ جمہوریت کے نام پر بھٹو کی فسطائیت کو جن صحافیوں نے بھگتا ہے ان میں یہ عاجز بھی شامل ہے۔ بلاول چاہے تو پورے ثبوتوں کے ساتھ اس فسطائیت کا چہرہ بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ صرف نانا جان ہی نہیں والدہ محترمہ کی فوجی ڈکٹیٹر سے ڈیلیں بھی کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ وہ کردارآج بھی بقید حیات ہیں جو ان ڈیلوں کا حصہ رہے ہیں۔ واجد شمس الحسن بھٹو خاندان کے بہت قریب رہے ہیں میں جن دنوں روزنامہ مشرق میں نیوز ایڈیٹر تھایہ اخبار نیشنل پریس ٹرسٹ کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ واجد شمس الحسن اس کے چیئرمین تھے۔ ان کی تقرری بے نظیر بھٹو نے بطو ر وزیر اعظم کی تھی۔ واجد شمس الحسن کی بھٹو خاندان میری یادوں میں، نامہ کتاب میں برطانیہ کے ہائی کمشنر، برطانوی وزیر خارجہ جیک سڑا، امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس، نائب وزیر خارجہ رچرڈباوچر کے باہمی اور بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف سے رابطوں کے نتیجے میں فائنل ڈیل دبئی میں بے نظیربھٹو، ان کے ساتھ مخدوم امین فہیم اور رحمن ملک جبکہ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی اور پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز تھے، طے پائی تھی۔ اس لئے بلاول کا ڈیل کرنے والوں پر اعتراض خود اپنے گھرانے کو نشانہ بنانا ہے۔ یاد رہے واجد شمس الحسن جس طرح کل بے نظیر کے ساتھ تھے آج بھی آصف زرداری کے ساتھ شیر و شکر ہیں۔ بے نظیر کی جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کسی مخالف کا شوشہ نہیں بلکہ انتہائی قابل اعتماد اور نہایت قربت رکھنے والے بہی خواہ کا انکشاف ہے۔

جس طرح پنجاب او دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی کو اپنی سیاسی پیش رفت کا آئینی حق حاصل ہے اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیاں شروع یا جاری رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر اشتعال میں آنے کی بجائے بہتر ہے بلاول سندھ کو رول ماڈل بنا کر اپنی پندرہ سالہ کارکردگی سامنے لا کر لو گوں کی سیاسی حمایت حاصل کرے مثلاً وہ کراچی اور حیدر آباد کو اپنی حکومت کی اعلیٰ ترین کارکردگی کا اعلیٰ ترین مثال بنا کر پیش کر سکتا ہے یعنی ہم نے (پیپلز پارٹی کی حکومت نے)ان شہروں میں ہر قسم کی آلودگی کا خاتمہ کر کے دنیا میں سب سے زیادہ آلودگی سے پاک شہروں کا درجہ دے دیا ہے ان شہروں میں کچرے، گندگی، سڑکوں پر گڑوں کے بہتے پانی کا نام و نشان نہیں ہے۔ سڑکوں کی صفائی کے ساتھ دو رویہ شاداب پودوں اور رنگ برنگے پھولوں کے باعث پورے شہر ایک چمنستان میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گلیوں تک میں گھروں کے صحنوں سے زیادہ صفائی نظر آتی ہے۔ سانس کے مریضوں کو ڈاکٹر دوائی دینے کی بجائے ان شہروں میں جا کر سانس لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان شہروں کے ہر گھر میں انتہائی صحت بخش پینے کا شفاف پانی پہنچا دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کراچی اور حیدر آباد میں منرل واٹر کمپنیوں کو تالے لگ گئے ہیں۔ پیرس کے لوگ پیرس کو کراچی جیسا اور نیویارک کے لوگ نیویارک کو حیدر آباد جیسا بن جانے کی آرزو کے اسیر ہو چکے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.