بروقت انتخابات ناگزیر ہیں!!

40

الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے۔ دو مہینوں کے بعد یعنی 8 فرور ی کو انتخابات کا انعقاد طے ہے۔ آٹھ فروری کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی افواہیں زیر گردش ہیں۔اس ضمن میں رنگ برنگی گفتگو سننے کو مل رہی ہے۔ کچھ لوگ ڈھکے چھپے اور کچھ کھلم کھلا انتخابات میں تاخیر کی بات (بلکہ حمایت) کر رہے ہیں۔ مختلف کالموں، تجزوں اور تبصروں کے ذریعے عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ نگران حکمران نہایت تحرک اور فعالیت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ دن رات محنت اور خدمت میں مصروف ہیں۔حمایت کی جارہی ہے کہ اس اچھی کارگزاری کو جاری رہنا چاہیے۔ معیشت میں آنے والی بہتری کو بھی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں اسٹاک ایکس چینج کے مثبت رجحان، ڈالر کی قیمت میں کمی اور دوست ممالک سے ملنے والی متوقع امداد کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ ان سب باتوں کو ملا کر باور کروایا جا رہا ہے کہ قومی صورتحال استحکام کی جانب گامزن ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید بہتری ہوتی ہے تو انتخابات میں تاخیر ہو سکتی ہے۔

پی۔ڈی۔ایم کے دور حکومت میں بھی اس طرح کی باتیں سننے کو ملا کرتی تھیں۔ایک وقت آیا جب کہا جانے لگا تھا کہ شہباز حکومت کی مدت میں ایک یا دو سال کی توسیع ہو سکتی ہے۔ جواز دیا جاتا تھا کہ شہباز شریف نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے اور یہ کہ معاشی بہتری کے لئے حکومتی تسلسل ضروری ہے۔ اس وقت بھی جمہوریت اور آئین پسند حلقے اس خیال کو پسند نہیں کرتے تھے۔ اللہ کا شکر کہ اتحادی حکومت اپنے وقت پر رخصت ہو گئی۔ اب نگرانوں کی کارکردگی اور معاشی اشاریوں میں بہتری کو جواز بنا کر ایک مرتبہ پھر اس طرح کی باتیں ہورہی ہیں۔جہاں تک نگران حکومت کی کارکردگی کا تعلق ہے تو صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا ایک حلقہ گزشتہ کئی مہینوں سے نگرانوں پر یہ تنقید کر رہا ہے کہ نگران حکومتیں ان کاموں میں مصروف ہیں، جو انکے دائرہ اختیار میں نہیں آتے۔ نگران حکومت کا اصل کام انتخابات کی تیاری کرنا، انتخابی عمل کی نگرانی کرنا اور انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔ لیکن فی الحال ا نتخابی عمل کے حوالے سے کوئی تیاری دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کو یہ بتانے کے بجائے کہ کتنے ترقیاتی کام مکمل ہو گئے ہیں۔ کس نگران نے کہا ں کہاں کا دورہ کیاہے۔ کس کس سرکاری ادارے کے سربراہ کو تنبیہہ کی ہے۔ کس کس سے ملاقات کی ہے۔ عوام کو بتایا جائے کہ انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کیا تیاریاں ہو رہی ہیں۔ اس عمل کی شفافیت کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ابھی تک اس طرح کی کوئی معلومات عوام تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ اس سے تاثر ملتا ہے جیسے انتخابات ابھی کوسوں دور ہیں۔ بالکل اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی سیاسی سرگرمیاں یا کوئی ہلچل دیکھنے کو نہیں مل رہی۔

اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ معیشت میں بہتری کے کچھ اشاریے دکھائی دئیے ہیں۔ اللہ کرئے کہ قومی معیشت مزید پھلے پھولے۔ تاہم ڈالر میں چند روپے کی کمی او ر بیرونی امداد کی امید خوش آئند سہی، اس کا عوام الناس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ عوام کو فائدہ تب ہو گاجب مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی۔ فی الحال تو مہنگائی کی شرح خطے میں بلند ترین سطح پر ہے۔ اشیائے خورد و نوش، پٹرول، گیس، بجلی کے بل، ادویات، ان سب چیزوں کی قیمتوں نے مل کر عوام کی زندگی مشکل بنا رکھی ہے۔ عام آدمی کو کوئی غرض نہیں کہ ڈالر کی قیمت کیا ہے اور سٹاک ایکسچینج میں کس قدر مثبت رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اسے اپنی روز مرہ ضروریات زندگی کے سستا ہونے سے غرض ہے۔

ہم سن جانتے ہیں کہ انتخابات کا بروقت انعقاد ایک آئینی تقاضا ہے۔ الیکشن کمیشن، نگران حکومتیں اور دیگر اداروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کا بروقت انعقاد یقینی بنائیں۔ انتخابات میں پہلے ہی تاخیر ہو چکی ہے۔ پنجاب کی نگران حکومت کو تو غالبا ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے والاہے۔ نہایت ضروری ہے کہ اس حوالے سے بے یقینی پھیلائی جائے، نہ نت نئے مباحث شروع کئے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی ہونے سے متعلق افواہوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انتخابات طے شدہ تاریخ کے مطابق ہوں گے۔ اس کے باوجود بے یقینی کی کیفیت قائم ہے۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ یہ افواہیں اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) پھیلا رہے ہیں۔ یہ لوگ عمران خان کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں اور الیکشن میں تاخیر چاہتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) کا موقف ہے کہ وہ انتخابی کمپین تیار کرنے میں مصروف ہے اور بروقت انتخابات چاہتے ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

انتخابات میں پہلے ہی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ ابھی چند دن پہلے میڈیا میں عام انتخابات کی تاریخ سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا اضافی نوٹ زیر گردش تھا۔ اس نوٹ میں جج صاحب کا کہنا ہے کہ”انتخابات کے انعقاد میں 90 دن سے زیادہ کی تاخیر آئین معطل کر دینے کے مترادف ہے۔ الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے انتخابات کے لئے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔“ نوے روز میں الیکشن کے انعقاد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا تھا کہ اگر میڈیا یا کسی اور نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی تو سمجھا جائے گا کہ ایسا کرنے والے آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اب کچھ حلقے اس بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے چند دن پہلے ایک ٹویٹ میں چیف جسٹس صاحب کی توجہ اس جانب دلائی ہے کہ کچھ لوگ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد پتھر پر لکیر ہے۔ صدیقی صاحب نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔ کاش چیف جسٹس صاحب اس معاملے کا نوٹس لے لیں تاکہ افواہوں کا یہ سلسلہ بند ہو سکے۔

تبصرے بند ہیں.