کسی بھی ملک کی ترقی میں صنعت اور تجارت کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جیسے جیسے تمدن اور علم نے جدت اور ترقی اختیار کی ہے اسی طرح صنعت اور تجارت نے بھی وسعت اختیار کی ہے۔ اس حوالے سے طالب ِ علم نے آج کے تاجر اور صنعت کار کے مختلف پہلوؤں پر لکھنے کا ارادہ باندھا ہے۔ اس کے لیے اخوت فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ”کامیاب لوگ“ کے مطالعے سے مثبت پہلو اور قیمتی معلومات علم میں آئیں۔ جنہیں اس سلسلے کے پہلے کالم میں اول اول بیان کیا ہے۔
یوں تو یہ کتاب خاص طور پر چنیوٹ کے کاروباری افراد جنہیں چنیوٹی شیخ کہا جاتا ہے، کے بارے میں ہے۔ لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب بتاتے ہیں کہ یہ کتاب انہوں نے کسی ایک فرد یا گروہ کے لیے نہیں لکھی ہے بلکہ چنیوٹی شیخ تو محض ایک استعارہ ہیں، ان کا مقصد چند کامیاب لوگوں کی کہانی سنا کے تمام محنت کرنے والوں کی عزت کا احساس پیدا کرنا ہے۔ کتاب میں تیس کے قریب معروف کاروباری شخصیات کی کہانی ہے، کہ کس طرح انہوں نے نامساعد حالات میں اپنے کاروبار کو چلایا اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔ کس طرح بھوک اور غربت کا حل بھیک کے بجائے اپنی ذات پر اعتماد اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کو اپنی طاقت بنایا۔ کتاب کے بنیادی طور پر تین حصے ہیں۔ کتاب کا پہلا حصہ چنیوٹ شہر کی گم گشتہ کہانی پر مشتمل ہے۔ منظر اور پس منظر۔ یہ شہر کب آباد ہوا۔ چنیوٹی شیخ یہاں کب آئے۔ پھر یہاں سے نکل کر دور دراز شہروں میں کیوں پہنچے۔ دوسرا حصہ اس کہانی کی تفصیل ہے۔ یہاں سے نکلنے والوں نے اجنبی شہروں میں کس طرح محنت کی اور کس طرح اپنے کاروبار کی بنیاد رکھی، تیسرا اور اہم حصہ ان عوامل اور خوبیوں کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے جن کی بدولت یہ لوگ کامیابی کی طرف پہنچ پائے۔
کتاب کے دوسرے حصہ جو معروف کاروباری افراد کی کہانیوں پر مشتمل ہے، کے مطالعے سے زندگی میں کامیابی سے متعلق قیمتی معلومات ملتی ہیں۔ ان معروف کاروباری شخصیات کی داستان پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ تجارت میں کامیابی دولت یا داؤ پیچ سے نہیں اصول سے ہوتی
ہے۔ خاندانی اتفاق، دن رات محنت اور سادگی ترقی کی بنیاد ہے۔ یہ داستان ہمیں بتاتی ہے کہ کاروباری امکانات دنیا کے تمام ممالک کے مقابلے میں یہاں زیادہ ہیں۔ ملوں اور فیکٹریوں سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ کاروبار کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ گلی محلے یا شہر کے لوگوں کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو جوڑنے کا راستہ ہے۔ محنت اور کفایت شعاری کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نفع سے کوئی جائیداد خرید لی جائے یا کاروبار ہی میں لگا دینا چاہئے۔ کاروباری شخص اگر نقصان کو روگ بنا لے تو آگے نہیں بڑھ سکتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے اور ناکامی کی صورت میں بھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ چنیوٹی شیخ برادری نے جہاں محنت کو اپنا شعار بنایا ہے وہاں اس محنت سے حاصل ہونے والی دولت کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے بجائے چار طرح سے معاشرے کو یہ دولت لوٹاتے ہیں۔ ایک ٹیکس اور دیگر حکومتی واجبات کے ذریعے، دوسرا خیرات اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے، تیسرا انفرادی عطیات سے اور چوتھا کارپوریٹ فاؤنڈیشن کے ذریعے۔ ہر کاروباری کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جاری کاروبار کے ساتھ نئے کاروباری منصوبوں پر بھی سوچ بچار کے بعد عملی طور پر کوشش کرے کہ ہر کاروبار کی ایک عمر ہوتی ہے اور وہ جدت کا تقاضا کرتا ہے۔ کاروبار میں موقع کو غنیمت جاننا چاہیے۔ فرد کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ اس کے پاس انتخاب کے لیے زیادہ راستے نہ ہوں۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے بعد کاروبار میں شریک کیا جانا چاہیے۔
نقصان اور بربادی میں بھی ایمانداری اور ساکھ کی بقا کو قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ٹاٹا گروپ کے میاں محبوب اقبال ٹاٹا ایک واقعہ سناتے ہیں کہ 1960ء میں ڈھاکہ سے ان کا چمڑے کا جہاز آ رہا تھا۔ راستے میں بارش کی وجہ سے چمڑے کو نقصان پہنچا۔ ملازمین نے انشورنش کمپنی کو نقصان کا کلیم بھجوا دیا، جس کی کل رقم 80 ہزار روپے بنی تھی۔ انشورنش کمپنی نے اس شرط پر رقم دینے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا کہ سامان انشورنش کمپنی رکھے گی اور کلیم کی مد میں 80 ہزار کے بجائے 65 ہزار ادا کرے گی۔ بات طے ہونے کے بعد رقم کا چیک مل گیا۔ میاں محبوب اقبال نے رقم کا چیک والد صاحب کو دکھایا کہ وہ ان کی کاروباری سمجھ بوجھ کی داد دیں گے۔ چیک دیکھ کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے اور نقصان زدہ مال دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، جو ابھی ان کے گودام میں ہی موجود تھا۔ مال کا بغور جائزہ لینے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کلیم کی رقم کا چیک ان کے نقصان سے کہیں زیادہ ہے۔ انہوں نے چیک انشورنش کمپنی کو واپس کیا اور معذرت کی کہ ہمارا کلیم 65ہزار نہیں بلکہ صرف اڑھائی ہزار روپے بنتا ہے۔ یہ اس انشورنس کمپنی کی تاریخ کا منفرد واقعہ تھا۔
سفائر گروپ کے میاں محمد عبداللہ سناتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں کی کامیابی کی ایک وجہ خوف خدا بھی ہے۔ ہم باقاعدہ حساب کرنے کے بعد زکوٰۃ کا مکمل تخمینہ لگاتے اور ادائیگی میں کوئی کمی نہ ہونے دیتے۔ اس مقصد کے لیے ان کے بزرگوں نے باقاعدہ ایک منشی رکھا ہوا تھا۔ جب مشرقی پاکستان میں ان کا کاروبار عروج پر تھا تو ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ڈھاکہ سے ایک بار کھالوں اور چمڑے کی ایک بہت بڑی کھیپ بحری جہاز کے ذریعے چٹاگانگ جا رہی تھی۔ میرے دادا کو اطلا ع ملی کہ یہ ایک جہاز ایک حادثے کے بعد پانی میں ڈوب گیا ہے۔ جو کہ ایک بڑا نقصان تھا۔ دادا نے فوراً منشی کو بلایا اور کھاتوں کا معائنہ شروع کر دیا۔ کچھ وقت کھاتے دیکھتے رہے اور پھر بڑے اطمینان سے کہنے لگے کہ ہمارا اتنا بڑا نقصان نہیں ہو سکتا۔ منشی نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ”میں نے تمام بہی کھاتے دیکھ لیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے زکوٰۃ کی ایک ایک پائی ادا کر رکھی ہے“۔ کچھ ہی دیر بعد انہیں دوبارہ اطلاع ملی کہ جہاز تو ڈوب گیا لیکن اس پر لدا ہوا سارے کا سارا سامان بچا لیا گیا۔ ان کے دادا اکثر اس واقعے کو دہراتے اور کہتے کہ زکوٰۃ سے بڑی کوئی انشورنش نہیں ہے۔ اسی واقعے سے مجھے ایک نجی بنک کی انشورنس کمپنی کے اعلیٰ ترین افسر احتشام اللہ محمد صاحب نے بھی سنایا کہ وہ کراچی میں کے ایک پوش ایریا میں ایک بڑی دکان پر خریداری کے لیے گئے اور دکان کے مالک کو انشورنش کرانے کی ترغیب بھی دے دی۔ دکاندار نے تقریباً یہ ہی بات کی جو میاں محمد عبداللہ کے دادا نے کی کہ زکوٰۃ سے بڑی کیا انشورنس ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)
Next Post
تبصرے بند ہیں.