آئی ایم ایف: زمیں میری مرضی تیری

55

چند ماہ کی نگران حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ایک بار پھر گیس کو ”تیلی“ لگا دی، دوسری طرف نیپرا  نے بھی صارفین کیلئے بجلی مزید مہنگی کر دی، نوٹیفکیشن کے مطابق صارفین کیلئے بجلی 40 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کی گئی نیپرا  نے کہا کہ بجلی ستمبر کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی، بجلی صارفین سے اضافی وصولیاں نومبر کے بلوں میں کی جائیں گی بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی، تکنیکی سطح کے مذاکرات میں آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ گیپ کو کم کرنے کیلیے نجکاری تیز کرنے کا مطالبہ کیا تھا، یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ حکومت عالمی بانڈ مارکیٹ میں جاری کرنے کے آپشن پر بھی غور کرے، ایف بی آر نے بھی ٹیکس وصولی میں شارٹ فال کی صورت میں فوری طور پر نئے اقدامات پر اتفاق کیا تھا، اب پالیسی سطح کے مذاکرات میں ان تمام مطالبات اور تجاویز کے تفصیلی جائزے اور غور  کے بعد پالیسی سطح کے فیصلوں پر اتفاق ہو گا جس کی روشنی میں اقتصادی جائزے کی تکمیل ہوگی، اور اگر اقتصادی جائزہ کامیابی سے مکمل ہو جاتا ہے تو پھر آئی ایم ایف جائزہ بورڈ سے دسمبر میں اس جائزے کی منظوری کے ساتھ ساتھ قرضے کی اگلی قسط جاری کرنے کی منظوری کا امکان ہے، حکومت نے آئی ایم ایف کو نجکاری پروگرام کی پیش رفت سے آگاہ کردیا جبکہ حکومت نے نجکاری پروگرام پر تیزی سے کام جاری رکھنے کی بھی یقین دہانی کرا دی، پاکستان میں باوا آدم ہی نرالا ہے ادارے ہمارے ہیں انہیں فروخت کرنے کیلئے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا پڑتے ہیں پی آئی اے ہو یاکوئی قومی ملکیت کا ادارہ اس پر اثرانداز آئی ایم ایف ہے قرض لینے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ گرمی آتی ہے تو بجلی نہیں آتی لیکن بجلی مہنگی کردی جاتی ہے سردیوں میں گیس نہیں آتی لیکن بل آ جاتے ہیں کوئی صارف ”رو“ پٹ بھی نہیں سکتا کیونکہ کوئی سنتا ہی نہیں، پٹرول مہنگا ہو تو ملک میں مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر چلی جاتی ہے لیکن حکومت کہتی ہے کہ عام آدمی پر مہنگائی کا بوجھ نہیں پڑے گاجو سفید جھوٹ ہوتا ہے حالانکہ پٹرول کی قیمت بڑھتے ہی ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے کہا جاتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کے ساتھ ساتھ فاتح مغربی طاقتوں نے ایک نیا عالمی معاشی نظام تشکیل دیا جس کا نام انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) رکھا گیا تھا آئی ایم ایف کا قیام 1944ء میں عمل میں آیا اور اس کا مقصد مختلف ملکوں کی مالیاتی اور معاشی پالیسیوں کا جائزہ لینا ہوتا ہے، ان ممالک کی معیشت کے استحکام کے لیے پالیسی حکمت عملی پر مشاورت فراہم کرتا ہے تاکہ وہ کسی مالیاتی بحران کا شکار ہوئے بغیر اپنے شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنا سکیں، ادارہ اپنے رکن ملکوں میں جدید معاشی نظام کے قیام کے لیے تربیت بھی فراہم کرتا ہے،آئی ایم ایف کے اہداف میں تجارتی اور معاشی ترقی اور خوش حالی میں رکاوٹ بننے والی پالیسیوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی شامل ہے دوسری طرف افسوسناک امریہ ہے کہ اب آئی ایم ایف پربھی مغرب کا کنٹرول ہے اور جس ملک کو تگنی کا ناچ نچانا ہو اسے قرض کیلئے ناک سے لکیریں نکلوائی جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کرسخت شرائط پر کشکول بھرا جاتا ہے، آئی ایم ایف میں چند مغربی ملکوں جیسا کہ امریکا، یورپی یونین کے پاس اکثریتی ووٹنگ کا حق ہے اسی لیے امریکا اور یورپ کی جانب سے آئی ایم ایف کا سربراہ مقرر کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف اس بات کی یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ وہ ملک اپنے نظام میں ایسی بہتری لائے کہ اس کو پھر آئی ایم ایف کے پاس قرض کے لئے نہ آنا پڑے، جیسا کہ سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکسوں کی وصولی میں اضافہ، اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات کا خاتمہ اور حکومتی خسارے کو کم سے کم کرنا شامل ہوتا ہے لیکن پاکستان جیسا ملک بار بار کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے کی گردان کرتا ہے پھر وہیں ”متھا“ ٹیکتا ہے، لاکھ منت مرادوں کے باوجود پاکستان کی معیشت خرکاروں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے اور ہر آتی جاتی حکومت کا پہلا کام آئی ایم ایف پروگرام کیلئے ترلے لینا ہوتا ہے سعودی عرب جیسا دوست ملک بھی آئی ایم ایف کی طرح پاکستان کو بھی اپنے اشرافیہ سے ٹیکس وصول کرنے کا درس دیتا ہے جو کبھی پاکستان سے بھیک مانگتا اورحج پر جانے والوں کو لوٹا جاتا تھا اور یہ سب نکمے سیاستدانوں کے کرتوتوں کی وجہ سے ہے ہر حکومت عوام سے ہی قربانی مانگتی ہے چاہے وہ مریں یا جئیں، المیہ یہ ہے کہ سیاست میں زندہ رہنے کے لئے سیاستدان کوئی نہ کوئی بیانیہ بناتے ہیں چاہے وہ یہ ہی کیوں نہ کہہ دیں کہ اقتدار میں آ کر ہم آئی ایم ایف کو لات ماردیں گے حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہوتا ہے کئی حکمرانوں نے کہا لیکن کسی نے لات نہ ماری اور نہ ہی عوام کی حالت بہتر کرنے کیلئے کوئی کوشش کی پاکستانی عوام بھولے بھالے ہیں ہر کسی ایرے غیرے پہ اعتبار کر لیتے ہیں، شرمناک بات یہ ہے کہ جھوٹ پکڑا جانے کے باوجود سیاستدانوں کوندامت کا احساس نہیں ہوتا بلکہ اب تو ڈھٹائی سے جھوٹ اتنا بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے ہوں یا بجلی سستی کرنے کے دلاسے سب وقت آنے پر بھلا دیئے جاتے ہیں اور معذرت تک نہیں کی جاتی اور سارا مدعا سابق حکمرانوں پر ڈال دیا جاتا ہے جب تک آئی ایم ایف سے جان نہیں چھڑائی جائے گی تب تک عوام زندہ درگور ہوتے رہیں گے، کاش ہمارے حکمران سدھر جائیں، مسلم لیگ ن ایک بار پھر اقتدار کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہے اور اس سلسلے میں نواز شریف نے ملک بھر کے دورے شروع کر دئیے ہیں جبکہ ایم کیو ایم، جے یو آئی، باپ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں اور اتحاد کی باتیں ہو رہی ہیں تاکہ شہر اقتدار پر قبضہ کیا جائے موجودہ حکومت نے بھی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ نہ صرف سخت شرائط طے کیں بلکہ عوام کیلئے بڑی مشکلات پیدا کر دی ہیں، اگر سود کی مد میں ادائیگیوں کو نکال دیا جائے تو ملک کو حاصل ہونے والا ریونیو ملکی اخراجات کے برابر یا اس سے زیادہ ہوگا۔ بجٹ میں مالیاتی خسارہ ایسی شرح پر رکھا جائے گا جو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرتا ہو، ملکی ترقی کیلئے ٹیکس ریونیو بڑھایا جائے گا،ٹیکس نیٹ میں شامل لوگوں پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا اور ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا ہونگے ورنہ آئی ایم ایف سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی ملکی معیشت کیلئے فیصلہ سرمایہ کار کرے کہ کہاں اچھا ریٹرن ہے اور کہاں وسائل لگانا ہیں نہ کہ ٹیکس پالیسی اس بات کا تعین کرے کہ وسائل کہاں جارہے ہیں اور کہاں جانے چاہئیں، چھوٹے سرمایہ کارکسی بھی مارکیٹ کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ بڑوں کو نواز  نے کی شکایات دور ہو سکیں ویسے بھی پاکستان سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے جو معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل بنانا ہوگا اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا ہو گا زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان نے دس ارب ڈالر  کے چاول، گندم، دالیں وغیرہ منگوائے ہیں جو پریشان کن بات ہے۔

تبصرے بند ہیں.