اگر ن لیگ یہ وعدہ کرکے مکر گئی ہے کہ اگلے وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری ہوں گے تو پیپلز پارٹی کے حالیہ گلے، شکوے بالکل درست ہیں لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر طعنے اور شکائتیں بے معنی ہیں، جمہوری اصولوں کے تحت ہر پارٹی کا حق ہے کہ وہ حکومت میں آنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرے، پاکستان میں جو مخصوص اور محدود سیاسی ماحول ہے اس کا تقاضا ہے کہ عوام سے رابطہ رکھنے، ووٹ لینے کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد بھی حاصل کی جائے،حالات و واقعات کے مطابق مقتدر حلقے مختلف اوقات میں مختلف تجربے کرتے رہتے ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت کی صورت میں ہائبرڈ نظام کا تجربہ بری طرح پٹ جانے کے بعد کچھ حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جارہا تھا کہ اگلی حکومت پیپلز پارٹی کی ہوگی، پیپلز پارٹی کے زیادہ تر لیڈر اس حوالے سے کامل یقین کی حد تک پر اعتماد تھے، بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے ن لیگ سے رابطے اور استحکام پاکستان پارٹی کے قیام نے پیپلز پارٹی کو اس خواب غفلت سے جگایا ورنہ یہی سمجھا جارہا تھا کہ پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کے بعد سارا اچھا مال خود بخود جھولی میں آگرے گا،یہ حقیقت ہے ماضی ہو یا حال دونوں پارٹیوں (پی پی اور ن لیگ) نے ایک دوسرے کو چکر دے کر اپنا چکر چلانے کی کوشش کی، اس مرتبہ بھی یہی ہورہا تھا،پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ماضی کے تلخ تجربات کے باعث نواز شریف کو واپس نہیں لائے گی، پی ڈی ایم کی حکومت کی سولہ ماہ کی کارکردگی کے سبب (جس کی بنیادی وجہ یقینا ًپی ٹی آئی حکومت کی سیاسی، معاشی اور سفارتی تباہ کاریاں تھیں) شہبازشریف اس پوزیشن میں نہیں ہونگے کہ موثر انتخابی مہم چلا سکیں کیونکہ اتحادی حکومت ہونے کے باوجود سارا ملبہ ن لیگ پر ہی گرے گا، یوں پیپلز پارٹی کے لیے راستہ صاف ہو جائے گا لیکن اب نواز شریف جس انداز سے واپس آئے ہیں اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ اگلی حکومت ن لیگ کی ہوگی یا یوں کہہ لیں کہ پیپلز پارٹی کی نہیں ہوگی، پیپلز پارٹی لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کررہی ہے، اچھی بات ہے ایسا ہونا بھی چاہیے لیکن کھل کر نہیں کہہ رہی کہ اس سے کیا مراد ہے، اگرچہ اعتزاز احسن کو چیئرمین پی ٹی آئی کی معاونت کیلئے وقف کیا جاچکا ہے لیکن یہ عمل بھی رائیگاں ہی جائے گا،مقدمات تو بھگتنا ہی ہوں گے، پیپلز پارٹی کی قیادت بھی پی ٹی آئی کی حامی کہاں ہے! یہ بھی اندازے کی غلطی ہے کہ اس طرح کے مطالبات کے ذریعے فیصلہ ساز حلقوں کو دباؤ میں لایا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس طرح کی چالیں الٹا گلے پڑ جائیں اور جن کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے وہ ناراض ہوکر کچھ ایسا کر بیٹھیں جو پیپلز پارٹی کی مشکلات میں مزید اضافے کا سبب بن جائے، پی ٹی آئی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے تجربات ویسے بھی کبھی ثمر آور ثابت نہیں ہوئے، صرف دو مثالیں ہی کافی ہیں، 2011 میں پی ٹی آئی کی پورے دھوم دھڑکے سے لانچنگ کے وقت آصف زرداری نے اپنے طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ عمران خان کو پنجاب میں مضبوط کیا گیا تو اس سے ن لیگ کے ووٹ بنک پر نقب لگے گی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے ووٹ کاٹیں گے تو میدان پیپلز پارٹی کے لیے صاف ہوجائے گا لیکن جو ہوا وہ پیپلز پارٹی کیلئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا، پنجاب میں ن لیگ کو نقصان نہیں پہنچا مگر پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا، دوسری مثال 2018 کے انتخابات کے بعد عمران خان کو وزیر اعظم اور علوی کو صدر بنانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چلنا تھا مگر اس کا بھی تباہ کن نتیجہ نکلا، آصف زرداری اپنی ہمشیرہ فریال تالپور اور پارٹی کے مرکزی رہنماؤں سمیت جیل میں ڈال دئیے گئے، اب حالات مختلف ہیں پیپلز پارٹی اور زیر عتاب پی ٹی آئی کا اتحاد ہوگیا تب بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہونے والا،صاف نظر آرہا ہے اس مرتبہ شہری سندھ میں ایم کیو ایم کو بھی الیکشن لڑنے کے مساوی مواقع دئیے جائیں گے، کراچی میں یہ ایم کیو ایم کا ہی مینڈیٹ تھا جو چھین کر پی ٹی آئی کو دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کا موقع بھی نہیں ملا،میئر شپ ملنے کے بعد پیپلز پارٹی نے اپنے طور یہ حق سمجھ لیا تھا کہ کراچی، حیدر آباد سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں بھی بٹور لے گی، یقیناً ایسا نہیں ہوگا،دیہی سندھ میں ایلیکٹ ایبلز پر مشتمل کنگز پارٹی جی ڈی اے کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر ان کا جے یو آئی سے انتخابی اتحاد ہو گیا تو لاڑکانہ سمیت کئی حلقوں میں کانٹے کے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے، اس موقع پر صرف ن لیگ کے حوالے سے ڈیل کی باتیں کرنا مضحکہ خیز ہے، کون ہے جو ڈیل نہیں مانگ رہا، اڈیالہ جیل میں قید اْمّہ کا نام نہاد لیڈر تک ڈیل کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے لیکن اگر کوئی ڈیل کرنے یا این آر او دینے یا کان دھرنے پر تیار نہیں کوئی دوسرا کیا کرسکتا ہے، اس دعویٰ میں بھی کوئی وزن نہیں کہ ایک شخص (نواز شریف) کیلئے انتخابات کو لیٹ کیا جارہا ہے، مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ سمیت سندھ کے دونوں ممبران نے کیا سوچ کر مردم شماری کی منظوری دی تھی جس کا واضح آئینی نتیجہ ایک ہی ہوتا ہے کہ پہلے حلقہ بندیاں پھر عام انتخابات ہوں گے، ایسا نہیں لگتا کہ اس طرح کی سیاست کرنے سے پیپلز پارٹی کو کوئی خاص فائدہ ہوگا، بالکل ویسے ہی جیسے ن لیگ کی مخالفت میں عمران خان کی خدمت کرتے کرتے اعتزاز احسن نے انہیں جیل پہنچا دیا اور اب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں حامد گروپ کو بھی ساتھ ہی لے ڈوبے، سیاسی جماعتوں کو آپس میں اختلاف کرنے کا حق ہے، مقابلہ کرنے کا بھی، ہاتھ نہ پہنچے تھو کڑوی کے مصداق ڈیل کی آفر نہ ملنے پر دکھائی جانے والی غیر ضروری پھرتیاں کھسیانی بلی کھمبا نوچے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اب آصف علی زرداری کہہ رہے ہیں کہ میں نے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا لیکن انہوں نے عوام کیلئے کام نہیں کیا، میں اب نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دوں گا۔اس پر پہلا مصرعہ حذف کرکے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے“ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“۔
تبصرے بند ہیں.