سیاستدان ایسے رنگ بدلتے ہیں جیسے ملک کے چار موسم، جب مطلب ہو تو زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور جب دانا پانی ”مک“ جائے توکسی اور کے ”بنیرے“ پر جا بیٹھتے ہیں جمہوریت کے نام پرعوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے حالانکہ جس جمہوریت کو ہم کندھے پر اٹھائے پھر رہے ہیں، اس کا عوام کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے نسل در نسل الیکشن الیکشن کھیلا جا رہا ہے باپ ن لیگ میں ہے تو بیٹا پیپلز پارٹی میں ہے جبکہ دوسری طرف بیٹی تحریک انصاف کے نعرے مارتی ہے گھر میں بیٹھ کرتینوں عوام کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہیں 2021 میں کسی کو خیال بھی نہ تھا کہ عمران خان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے انہیں بھی شائد یہ امید نہ تھی کہ وہ دن کو وزیر اعظم اور رات کو سابق وزیر اعظم بن جائیں گے لیکن ان ہو نی ہو کر رہتی ہے کبھی ٹلتی نہیں پھر تیرہ جماعتوں پر پی ڈی ایم کی پیدائش ہو ئی جن کا دعویٰ تھا کہ مہنگائی ختم کرنے کیلئے آئے ہیں جبکہ عمران خان کے دور میں بلاول بھٹو نے مہنگائی کیخلاف لانگ مارچ کا ”چورن“ بھی بیچا تھا سولہ ماہ اکٹھے حلوہ کھانے پر اب دست وگریباں ہیں لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں پی پی پنجاب کو فتح کرنے کے خواب دیکھ رہی تھی انہیں یہ وہم تھا کہ عمران خان کو ایک ایک کرکے چھوڑنے والے زرداری کے سپر سٹور پر آئیں گے جو جہانگیر ترین کے در پر جا بیٹھے الیکشن قریب آتے ہی اب وفا داریاں بدلی جا رہی ہیں اپنے پرائے اور پرائے اپنے ہو رہے ہیں پچھلے دنوں قومی مفاہمت کا آغاز نگراں وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شفقت محمود سے ملاقات کرکے کیا، شفقت محمود نے شفاف انتخابات کیلئے تمام جماعتوں کو مساوی مواقع دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ ہمیں الیکشن مہم چلانے کی اجازت نہیں، دوسری جانب مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ملاقات سیاسی نہیں تھی، جبکہ ملکی سیاست میں مفاہمت کی بازگشت زیادہ زوروں پر ہے، ایک دوسرے کی شکلیں تک نہ دیکھنے والے جن کا مرن جین ختم ہو گیا تھا 2018 کے بعد پہلا باضابطہ رابطہ ہو گیا، ایک دوسرے کے سخت حریف پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) میں تعزیت کے نام پر سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر قیادت پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور ملکی سیاسی حالات پر بھی تبادلہ خیال کیا، وفد میں سابق وفاقی وزیر علی محمد خان اور بیرسٹر محمد علی سیف بھی شامل تھے یاد رہے کہ چند روز قبل مولانا فضل الرحمان نے تجویز پیش کی تھی کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے جس سے ایک نیا اتحاد تشکیل دینے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے حالیہ دنوں میں مولانا فضل الرحمان سے سابق صدر آصف زرداری، سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار، سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں، محمد علی درانی نے مولانا سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ مولانا سیاسی مفاہمت کے لیے کردار ادا کرنے پر رضامند ہیں ان ملاقاتوں کے بعد مولانا کے سیاسی قد کاٹھ میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جبکہ فضل الرحمن سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات، پی ڈی ایم طرز پر نیا اتحاد بنانے پر غورکیا گیا، سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات محمد علی درانی پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کیلئے راستہ ہموار کر رہے ہیں انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی، مصالحت چاہتی ہے وہ پی ٹی آئی جس کے قائد کہا کرتے تھے چوروں ڈاکوؤں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا اب انہی سے مفاہمت کیلئے ترلوں پر اتر آئے ہیں جبکہ بشریٰ بی بی بھی اندر کھاتے راستہ مانگ رہی ہیں؟ محمد علی درانی صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بھی ملاقات کرچکے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ملاقاتوں کا ایجنڈا کیا ہے، سیاستدان مل بیٹھیں تو یہ نیک شگون ہو گا کیونکہ عوام ملک میں ٹکراؤ کی کیفیت سے بیزار ہیں ایک دوسرے کا وجود برداشت نہ کرنے والے مل بیٹھتے ہیں تو یہ ملک اور قوم کیلئے یہ ایک مثبت سوچ ہو گی جس کے نتیجے میں امید کے وہ راستے نکلیں گے جو ملک کو اس وقت درپیش مسائل سے نکالیں گے، سیاستدانوں کی مفاہمت کے نتیجے میں ملک اور جمہوریت آگے بڑھے گی، ٹکراؤ کی سیاست کسی کے مفاد میں نہیں یہ لکھی پڑھی بات ہے ماضی میں بے نظیر اور نواز شریف میں اٹ کھڑکا چلتا تھا پھر ایک وقت آیا کہ میثاق جمہوریت کرنا پڑا اب بھی مستقبل کے راستے مذاکرات سے ہی نکلیں گے اور گرینڈ ڈائیلاگ شروع کرنے سے پہلے ایجنڈا سیٹ کرنے کی اشدضرورت ہے اگرتمام جماعتیں اتفاق کریں تو مذاکرات ریاست کی سطح پر ہونے چاہئیں اور زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے چاہتے ہیں کہ راستہ نکلے اور مشکلات کم ہوسکیں، نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے تاش کا پتا جو مذاکرات کی شکل میں پھینکا ہے یہ اچھا عمل ہے، اگر نگران حکومت تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کے درمیان مفاہمتی مذاکرات شروع کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تو یہ ملک کیلئے موجودہ حالات میں بہت ہی اچھا اقدام ہو گا، ادھر پی ٹی آئی رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جے یو آئی ف کے ساتھ ملاقات کی تصویریں اور ویڈیو جاری کرنے کو انتہائی نامناسب قرار دیا ہے، حافظ حسین احمد نے کہا کہ جے یو آئی کے در پر حاضری کا مطلب ہے کہ اڈیالہ جیل سے نوشتہ دیوار پڑھ لی گئی ہے، انتخابات کے حصول کیلئے سیاسی پارٹیوں کو یکجا ہونا پڑے گا، سیاسی جماعتیں آج مل کر نہ بیٹھیں تو پھر نہ وہ رہیں گے نہ ہم رہیں گے، کل کے حریفوں کو آج کا حلیف بن کر ایک ہی ٹرک پر کھڑے ہوئے دیکھ رہا ہوں، استحکام پاکستان پارٹی بھی عرصہ سے پرندے اکٹھی کر رہی تھی اپنے پہلے پاور شو میں تین سو یونٹ بجلی مفت، بائیک والوں کو آدھی قیمت پر پٹرول ملے گا کا منشور دیدیا ہے پیٹرن انچیف جہانگیر خان ترین اور صدر عبدالعلیم خان نے اس موقع پر سچ بول ہی دیا کہ عوام اب کسی قیمت پر آزمائی ہوئی سیاسی جماعتوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں، آئندہ انتخابات میں نئی قیادت سامنے آئے گی، غریب آدمی روٹی، کپڑے اور پینے کے صاف پانی کو ترس کر رہ گیا ہے۔ 40 سال سے اقتدار کی باریاں لینے والے، پنجاب میں 7، سندھ میں 6 اور کے پی میں 2 مرتبہ اقتدار کا مزہ لوٹنے والوں نے عام آدمی کے لئے کچھ نہیں کیا،جبکہ پی ٹی آئی وفد سے ملاقات کے چند روز بعد ہی مولانا فضل الرحمن آگ کے شعلے برسا نے لگے ہیں جس کے بعد مفاہمتی عمل کو دھچکالگے گا مولانا نے عمران خان کو یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہوئے کہ کہا اس کو ہم نے شکست دے دی، آج یہودیوں کا ایجنٹ مکافات عمل کا شکار ہے، سندھ میں ن لیگ ایم کیو ایم اور پنجاب میں پی پی اور تحریک انصاف میں پیارکی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں،آج حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اب میثاق معیشت ناگزیرہو گیا ہے، ساری قوم سابق وزیر اعظم نواز شریف کے پاکستان واپسی پر سیاست میں تلخی کا ماحول پیدا کرنے کے بجائے مفاہمت کے پیغام کو سراہتی ہے، امید ہے جو بھی نئی حکومت آئے گی وہ میثاق معیشت کی جانب پیشرفت کرے گی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت متعددبار میثاق معیشت کی بات کر چکی ہے اس لئے انہیں چاہیے کہ وہ اسے اپنے منشور کا حصہ بھی بنائیں، دوسری جماعتوں کو بھی اس کیلئے قائل کیا جائے،پاکستان اب مزیدسیاسی عدم استحکام کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا، دھرنوں اور احتجاج کی سیاست نے ملک کا بڑا نقصان کیا ہے اوپر والوں کو بھی کسی لاڈلے کی سپورٹ نہیں کرنی چاہیے تاکہ جمہوریت کے نام پر لوگوں کے حقوق غصب نہ کیے جائیں جو بھی حکومت آئے اسے 5 سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہیے ادارے اپنی اپنی حدود میں رہیں اور معیشت کو سیاست سے الگ کیا جائے سیاستدانوں کی ملاقاتوں کی صورت میں اگر نیا سیاسی اتحاد بنتا ہے تواس میں ملک کا مفاد عزیزہونا چاہیے ناکہ ماضی کی تاریخ دہرائی جائے اگر اب بھی سبق نہ سیکھا تو نئے اتحاد اور نئی حکومت بھی کوئی معرکہ انجام نا دے پائے گی۔
تبصرے بند ہیں.