اس ماہ کے شروع میں خبر گرم تھی کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان انڈیا میں ہونے والے جی-20 ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے تین دن کے دورے پر انڈیا جانے سے پہلے 3 گھنٹے کے لیے پاکستان میں ٹھہریں گے اور آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس خیالی بحث میں یہ بھی کہا گیا وہ پاکستانی ایئر سپیس سے انڈیا کی حدود میں داخل ہوں گے تو انڈیا کو یہ پیغام جائے گا کہ جی-20 کی اہمیت کچھ بھی ہو سعودی عرب کسی صورت پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا اور ولی عہد کا انڈیا سے پہلے پاکستان کا دورہ اس کا ثبوت ہو گا۔ ہم نے تو اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ یہ کیسی Level Playing ہے کہ انڈیا میں تین دن اور پاکستان میں محض 3 گھنٹے کا قیام کیا معنی رکھتا ہے مگر پاکستانی میڈیا میں یہ خبر اڑا دی گئی کہ سعودی ولی عہد کی طرف سے پاکستان کے لیے کم از کم 25 بلین ڈالر کا انویسٹمنٹ پیکیج کا اعلان ہو گا۔ مگر الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔
سعودی ولی عہد خاموشی سے پاکستان کو سائیڈ لائن کرتے ہوئے انڈیا پہنچ گئے اور ہمارا دفتر خارجہ اور قومی میڈیا اس پر کوئی ڈھنگ کی وضاحت بھی پیش نہ کر سکا۔ جو سفارتی وضع داری کا دو ملکوں کے درمیان توازن رکھنے کا اصول ہوتا ہے پاکستان اور انڈیا کے معاملے میں سعودیہ نے اس کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ اس پر پاکستان میں خاموشی طاری ہے جب انڈیا اس کو اپنی بہت بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہا ہے کہ سعودی ولی عہد نے انڈیا میں دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کے قیام کا اعلان کر دیا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو انڈیا کی بڑھتی ہوئی معیشت میں تیل کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہے کہ سعودی اور انڈیا آئل ریفائنری کا موجودہ ڈھانچہ اس کے لیے کم پڑ گیا ہے دوسرا سعودی عرب نے اپنے تیل کے وافر ذخائر کی سٹوریج کے لیے انڈیا کا انتخاب کیا ہے۔
اس پس منظر میں انڈیا کے ایک اخبار میں ایک کارٹون چھپا ہے جس میں مودی اور محمد بن سلمان ایک اوپن گاڑی میں سوار ہو کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گانا گا رہے ہیں کہ یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے جبکہ اس شاہراہ کے ایک دور دراز کونے میں ایک پنکچر شاپ ہے جہاں پاکستان کی پھٹی پرانی گاڑی ٹائر پنکچر کے لیے کھڑی ہوئی ہے اور بڑی حسرت اور بے بسی کے عالم میں انڈیا اور سعودی عرب کی نئی دوستی کو دیکھ رہی ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں ایک دفعہ سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کا اعلان ہوا مگر وہ دورہ بھی ملتوی ہو گیا جس کی وجوہات منظر عام پر نہ آسکیں اس مہینے دوبارہ ایسا ہوا اب اکتوبر میں پھر اس واجب الادا دورے کی خبریں پھر آرہی ہیں دیکھیں کیا بنتا ہے ……پاکستان اگر گزشتہ ایک دہائی کے عرصے میں یعنی 2015ء سے جب سے محمد بن سلمان نے سعودی عرب کا عملاً اقتدار سنبھالا ہوا ہے۔ اگر سعودی کے ساتھ ہمارے فول پروف تعلقات استوار ہو جاتے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔
پاک سعودی تعلقات کو دو گہرے دھچکے ایسے لگے ہیں جن کا ذکر ضروری ہے۔ 2015ء میں یمن سعودی جنگ کے موقع پر سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی امفاد کی درخواست کی اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے۔ نواز شریف نے عالمی میڈیا کے سامنے امداد سے معذرت کر لی۔ بات یہاں تک رہتی تو بھی تھا اس ضمن میں پاکستان پارلیمنٹ سے کل قرار داد منظور کرائی گئی کہ پاکستان اس جنگ میں غیر جانبدار رہے گا۔ سعودی عرب نے اس بات کا بُرا منایا۔ اس کے بعد وزیراعظم عمران خان کے دور میں جن کوالالمپور میں مسلم ممالک کی تنظیم OIC کے مقابلے میں ملائیشیا، انڈونیشیا، ترکی اور ایران نے مل کر ایک نیا فورم بنانے کی کوشش۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے سعودی ناراضی کے باوجود اس میں شرکت کا اعلان کر دیا اور بات اتنی بڑھ گئی کہ سعودی عرب نے آخری کلمات میں دھمکی آمیز وارننگ کے ذریعے عمران خان کو اس کا نفرنس میں شرکت سے روک دیا۔ بعد ازاں ترک صدر طیب اردوان نے عالمی میڈیا کو بتا یا کہ پاکستان کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر عمران خان کوالا لمپور گئے تو سعودی عرب تمام پاکستا نیوں کو اپنے ملک سے نکال کر ان کی جگہ انڈیا سے مین پاورلے آئے گا پھر ایک دفعہ عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کیلئے گئے تو سعودی ولی عہد نے انہیں اپنا ذاتی شاہی ایئر جیٹ دیا مگر وہاں جاکر اسلامی ممالک کے غیر عرب سربراہوں کے ساتھ مل کہ عمران خان نے OIC کے خلاف بیان دیدیا جس سے ناراض ہو کر سعودی عرب نے اپنا شاہی طیارہ واپس بلا لیا اور عمران خان کو کمرشل فلائٹ سے وطن واپس آنا پڑا۔
مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تک جتنی امداد پاکستان کی سعودی عرب نے کی ہے یہ اپنی مثال آپ ہے صرف مسئلہ ہماری سفارت کاری کا ہے جس وجہ سے سعودیہ نے پاکستان کے ساتھ فاصلے بڑھالیے ہیں۔ یہ دور تجارت اور تعلقات کا دور ہے۔ سعودی عرب کے پاس اتنا وافر پیسہ آچکا ہے کہ انہیں سمجھ نہیں آرہی کے اس کو کہاں کہاں خرچ کیا جائے وہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش میں میں دوسری طرف سیاسی طور پر سعودی عرب اب چائنا اور روس کے ساتھ مل چکا ہے جس کا امریکہ کو کافی رنج سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سعودی عرب اور روس کا آپس کا گٹھ جوڑہے تاکہ قیمت کو 100 ڈالر فی بیرل تک پہنچایا جائے جس میں انہیں خاصی کا میابی ہوئی ہے یہاں تک کہ بائیڈن یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ اگر وہ دوبارہ صدارت کا انتخاب ہار گئے تو اس کی وجہ سعودی عرب ہو گا جس کی تیل کی قیمتوں نے امریکہ میں افراط زر پیدا کی اور عوام نے صدر کے خلاف ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
شہباز شریف کے اقتدارکے آخری دنوں میں سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل (SIFC) کے نام سے ایک قومی ادارہ بنایا گیا جس کا مقصد بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانا ہے۔ اس پر سعودی عرب کے ساتھ کوشش ہو رہی ہے۔ سعودی عرب پاکستان میں افغانستان اور ایران کی سرحد کے نزدیک ریکوڈک مائینز میں کافی دلچسپی لے رہا ہے جس میں 7 کھرب ڈالر سے زائد کا تانبا اور سونا و دیگر معدنیات موجود ہیں یہ علاقہ صوبہ بلوچستان میں واقع ہے۔ ایک کینیڈین کمپنی Barrick Gold کو وہاں تانبے اور سونے کی تلاش کا 7 ارب ڈالر کا ٹھیکہ ملا ہے جس پر جلد ہی کام شروع ہوگا۔
کمپنی کو اس وقت ایک طرف تو سکیورٹی خدشات ہیں جس وجہ سے پاکستان کے دفاعی ادارے کو اس میں بطور سٹیک ہولڈر شامل کیا گیا ہے دوسری جانب کمپنی کو پاکستان پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے ٹیلی تھیان کمپنی کو چیف جسٹس افتخار چودھری کے دور میں مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب بیرک گولڈ کمپنی کی کوشش یہ ہے کہ وہ اس ٹھیکیداری میں سعودی عرب کو اپنا حصہ دار بنائے تاکہ حکومت پاکستان سعودی عرب کے احترام کی وجہ سے وہاں رکاوٹ نہ ڈالے۔ دنیا بھر میں تانبے کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے یہ منصوبہ پاکستان کو تمام مشکلات سے نجات دے سکتا ہے۔ سعودی عرب کی پاکستان کی طرف رغبت کی بڑی وجہ بھی یہی منصوبہ ہے۔ ان حالات میں 25-30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ مسئلہ صرف قومی قیادت کا بحران سے جو موقع سے فائدہ اٹھانے کا شعور نہیں رکھتے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.