میرے بزرگ، نصرت جاوید صاحب کی خدمت میں

92

غلطی مجھ سے یہ سرز د ہوئی کہ نصرت جاوید صاحب کے چند خیالات پر ان سے اختلاف کربیٹھا، اس اختلاف پر تفصیلی بات تو بعد میں ہوگی لیکن پہلے نصرت صاحب کے چند گلے، شکوؤں کا جائزہ لیکر نہایت احترام سے جواب دینا چاہوں گا۔
نصرت جاویدصاحب نے مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا کو پی ٹی آئی کے گالم بریگیڈ سے تشبیہ دیتے ہوئے گلی کے غنڈے قرار د ے دیا ہے۔ حضور اگر واقعی ن لیگ کا سوشل میڈیا بھی پی ٹی آئی کی روش پر چل پڑتا ہے تو پھر ملک کی رہی سہی ساکھ، اخلاقیات اور توازن کا بیڑا ہی غرق ہوجائے گا۔آپ نے جو تصویر کشی کی ہے، وہ فرط جذبات میں بہہ کر کی ہے۔
نصرت جاوید صاحب ایک زمانے سے میرے فیورٹ رہے ہیں، ان کا اندازِ گفتگو مجھ جیسے طالبعلموں کو لبھاتا رہا ہے، سچی، کھری اور دیانتداری سے حقائق بیان کرنا ہم نے آپ جیسے ذی شعور اساتذہ سے ہی سیکھا ہے، اسی لئے آپ کی خد مت میں عرض ہے کہ آپ کی طرف سے جب کہیں ڈنڈی مارنے کا تاثر ملے گا، تو ہمیں اس کا دکھ بھی اسی طرح زیادہ ہوگا، کیونکہ آپ سے لگاؤ بھی تو جذباتی ہے۔ فرط جذبات میں کہیں نہ کہیں مجھ سے بھول ہو گئی، اور شاید کچھ ایسے الفاظ ادا ہو گئے جنہیں حقیقت میں ادا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس پر میں اپنے بزرگوار سے انتہائی مودب انداز میں معذرت کا طلب گار ہوں۔
تیسری بات نصرت صاحب نے یہ کی کہ انہیں بزرگی کا طعنہ دیا گیا ہے، نہیں جناب، طعنہ ہرگز نہیں دیا بلکہ بزرگی کی بدولت آپ کی بات کو معتبر جانتے ہیں اسی لئے آپ سے اختلاف کیا تھا اور عرض کی تھی کہ آدھا سچ مت بولیں، پورا سچ جو کہ میاں نوازشریف اور ن لیگ کی امانت ہے اسے عوام کے سامنے رکھیں۔
آپ نے کالم کے آغاز میں مجھے حسین نواز کا چہیتا ویلاگر قرار دیا تھا، آپ چونکہ سکہ بند صحافی ہیں میں نہیں چاہوں گا کہ آپ ناقص معلومات کی بنیاد پر اتنا بڑا دعویٰ کردیں۔ آپ نے اگر میرے بارے میں معلومات اکھٹی کرنا تھی تو براہ راست فون کرلیتے، شاید اس سے اچھی انفارمیشن دیتا لیکن غلط معلومات کی بنیاد پر میرا فیورٹ صحافی اگر کوئی غلط دعویٰ کرے گا تو میری بھی دل آزاری اس لئے ہوئی کہ آپ کی قابلیت اور صحافتی ساکھ متاثر ہوگی۔
اب اس جڑ کو پکڑتے ہیں جہاں سے میرے بزرگ نصرت جاوید صاحب ناراض ہوئے ہیں، نصرت جاوید صاحب نے لکھا کہ انہوں نے ٹی وی پر ایک پروگرام میں کہا کہ اب اگر لاہور یا گوالمنڈی سے نوازشریف، شریف خاندان کا کوئی فرد یا اُن کا نامزد کردہ امیدوار الیکشن لڑے گا تو ہار جائے گا۔ اسی بات پر میں نے اختلاف کیا تھا، جس کا کالم میں بھی آدھا ذکر ہی کیا گیا، حالانکہ میں نے اپنی ناقص عقل کے مطابق چند منطقی دلائل بھی پیش کیے تھے جنہیں نصرت صاحب نے اپنے گلے، شکوؤں میں اڑا دیا۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ آخری وقت میں گوالمنڈی کب گئے، لوگوں سے کب گفتگو کی؟ کیا واقعی وہ نوازشریف کو ووٹ نہیں دینا چاہتے؟ اور پھر کیا نوازشریف صاحب واپس آگئے ہیں؟ کیا انہوں نے حلقے کا وزٹ کیا اور وہاں کے لوگوں نے میاں نوازشریف کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے؟
اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو پھر آپ نے مفروضات کی بنیاد پر اتنا بڑا دعویٰ کیسے کردیا؟ یعنی وہ چیز جو ابھی ہوئی ہی نہیں اسے حرف آخر قرار دینا شروع کردیا۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ نوازشریف صاحب کی واپسی کا انتظار کرتے، دیکھتے ان کے استقبال پر عوام کیا تاثر دیتی ہے۔ اگر گوالمنڈی سے نوازشریف نہیں جیتے گا تو پھر کون جیتے گا؟ پیپلز پارٹی جن کا پورے لاہور میں نام و نشان نہیں، کیا عمران خان کو ووٹ ملیں گے، جن کی وہاں سے جیتنے کی کوئی تاریخ نہیں اور موجودہ حالات میں جس عمران خان نے پورے ملک کو آگ میں دھکیلا، بحرانوں کا شکار کیا، فوجی تنصیبات پر حملے کرائے، کیا عوام ایسے شخص کو ووٹ دیں گے؟
میرے بزرگ دانشوروں سے درخواست ہے کہ قوم کو ضرور بتائیں سولہ ماہ کی تمام کارکردگی کو ایک طرف رکھ کر اگر محض ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی اچیومنٹ دیکھیں تو وہ ہی سب سے بڑی ہے، وہی ملک و قوم پر احسان ہے۔ جو پارٹی یا لیڈر نفع نقصان تولے بغیر ملک وقوم کی خاطر فیصلے کرے اور پھر ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب بھی ہوجائے، کیا ان کی سیاست ختم کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں یا پھر قوم کے سامنے پورا سچ رکھ کر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؟ ہمارے تجربہ کار صحافی دوستوں نے نہیں دیکھا عمران خا ن نے اپنی ہچکولے کھاتی حکومت کے آخری دنوں میں ملک و قوم کو ایک طرف رکھ کر ایک سیاسی تاجر کی طرح بارودی سرنگیں بچھائیں اور حتی الامکان آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کی، یہاں تک کہ پٹرول کی قیمت کو چند ماہ کے لئے فکس کردیا تاکہ طویل مدتی معاشی سرنگ کی بنیاد رکھی جاسکے۔ یہ بحث بہت طویل ہے، بہت کچھ ہے، ان چند دلائل کیساتھ ہی اس موضوع پر کہوں گا کہ پورا سچ یعنی ن لیگ، نوازشریف کی قربانیاں، سیاسی سرمائے کی قربانی، تمام حقائق قوم کی امانت ہیں یہ بھی بیان کیے جائیں۔
سعودی عرب سے جب میاں صاحب واپس آئے تھے تو ائیر پورٹ پر استقبال کے مناظر پوری قوم  نے دیکھے، اور پھر انہیں کیسے ڈکٹیٹر  نے جبری طور پر واپس بھجوا دیا تھا، آپ کو یہ بات کرنی چاہیے کہ آج تک کسی ڈکٹیٹر  نے جمہوری لیڈر کی عوامی مقبولیت کو قبول ہی نہیں کیا، دوسری بار جب واپس آئے تو انہیں بیٹی سمیت جیل میں ڈال دیا گیا۔ آپ ڈیل کی بات کرتے ہیں میاں نوازشریف کو اس بار عمرانی پروجیکٹ نے سازش کے تحت بیرون ملک جانے پر مجبور کیا۔ پروجیکٹ عمران خان نے میاں نوازشریف پر جیل اتنی تنگ کردی کہ ان پر موت کے سائے منڈلانے لگے، ان کی صحت اتنی گرادی گئی کہ ایک وقت پر تو عمران حکومت کے پاؤں تلے سے بھی زمین نکل گئی کہ انہونی ہوگئی تو جوتوں کے بغیر ہی بھاگنا پڑے گا۔
کیا آپ اس امر سے بے خبر ہیں کہ عمران خان کے دور میں ایک اعلیٰ ترین افسر کی جانب سے چند شخصیات کو زہر دینے کی کوشش کی گئی، ہمارے دوست شفقت عمران اس کی تصدیق کرچکے ہیں کہ عمران خان کے دور میں مریم نواز، نوازشریف، حامد میر، اسد طور، ابصار عالم صاحب قاتلانہ سازش میں محفوظ رہے ہیں جبکہ چند لوگ اس کوشش کی نذر بھی ہوگئے جن میں جسٹس سیٹھ وقار بھی شامل ہیں۔
میاں نوازشریف کی صحت کو جان بوجھ کر اس حد تک گرایا گیا کہ انہیں مجبوراً یہاں سے جانا پڑا، کیونکہ نوازشریف جیل میں رہ کر ان کے لئے حد سے زیادہ خطرناک ہو رہا تھا اور آپ کس عدالتی نظام کی بات کرتے ہیں، جس نظام کوایک خاص افسر چلایا کرتے تھے، کیا جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے انکشافات کو بھول گئے ہیں، جن چند عدالتی کرداروں  نے نواز شریف کو ایک سازش کے تحت سزا سنائی کیا ان کی پابندی کی جاتی؟ میں تو سمجھتا ہوں درحقیقت یہ انصاف کا قتل ہے کہ ارشد ملک کے اعترافات کے بعد تاحال نوازشریف کی سزائیں برقرار ہیں۔ ثاقب نثار،دوبااثر افسران اور عمران خان گٹھ جوڑ اور ان کے اعترافات کے بعد تو عدلیہ کو از خود یہ سزائیں ختم کرکے اپنی ساکھ کو بحال کرنا چاہیے تھا۔
جس عدالتی نظام میں سرنڈر کرنے کی بات میرے بزرگ نے کی ہے، جب اس سے متعلق عدلیہ کے اپنے لوگوں نے گواہیاں دیں کہ کمپرومائزڈ ہے، خاص افسر کی ڈکٹیشن پر چلتا ہے تو پھر وہاں سرنڈر کیوں کیا جاتا؟ اب جب اُن باقیات کا خاتمہ ہوا ہے یاپھر وہ گھر چلے گئے، عدالتی نظام میں شفافیت نظر آئی ہے تو میاں نوازشریف واپس آرہے ہیں۔ بلاجھجک آرہے ہیں، اور قانون کے مطابق مقابلہ کریں گے کیونکہ اب انہیں انصاف کی پوری توقع ہے۔ جہاں سازش کے تحت اپنی جان تک خطرے میں ہو، کیا شریعت بھی وہاں اجازت دیتی ہے کہ جان بوجھ کر اپنی جان کو خطر ے میں ڈالیں؟ امید کرتا ہوں میر ی اس لایعنی گفتگو کا میرے عزت مآب بزرگ برا نہیں منائیں گے۔ آخر میں میر تقی میر کا شعر اور اجازت:
گلو گیر ہی ہوگئی یاوہ گوئی
رہا میں خاموشی کو آواز کرتا

تبصرے بند ہیں.