چور نہیں چور کی ماں کو پکڑو

33

جرائم کا خاتمہ کبھی ممکن نہ تھا لیکن جرائم میں کمی لانا پنجاب پولیس کے لئے اب ناممکن بنتا جا رہا ہے، ہونا تو یہ چائیے تھا کہ محکمہ میں ترقیوں کا عمل شروع ہونے سے انصاف کا عمل بھی شروع ہو جائے، عرصہ دراز سے ایک ہی رینک میں رہنے والے پنجاب پولیس کے بیشتر ملازمین جرائم پیشہ افراد کاساتھ نبھانے پر مجبور تھے۔ آئی جی پنجاب کو کیا پتا تھا کہ محکمہ میں ترقی کی صورت میں حق دار کو اس کا حق دیا جا رہا ہے، لیکن محکمہ میں بہت سے ایسے ملازم بھی ہیں جو ڈاکووں، چوروں، منشیات فروشوں، جواریوں اور بدمعاشوں کی سہولت کاری کر کے ڈیوٹی فرائض کا حصہ سمجھتے ہوئے جرائم کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، پیسہ وصولی کر رہے ہیں، گھر بنا رہے ہیں، پلاٹ لے رہے ہیں۔ پولیس ملازمین کے گھروں کا کچن چلا رہے ہیں۔تھانوں کا خرچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ کب تک پنجاب پولیس ایسے ہی سہولت کاری کرتی رہے گی۔ اور ہاں واضح رہے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی روزانہ سخت کرائم میٹنگ میں سب پولیس ملازمین اورافسروں کو کان ہو چکے ہیں۔ سی سی پی او کی سخت پالیسی کے پیش نظر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ عارضی لاتعلقی کا اعلان کر رکھا ہے، لیکن حقیت یہ ہے کہ جرم کے پیچھے پولیس ملازم ہی ہیں۔ جو پولیس ملازم کریمینلز کی سرپرستی اور سہولت کاری کر رہے ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی مقصود ہے۔ پولیس کا کام شہریوں کو تحفظ دینا ہے نہ کہ جرائم میں ملوث افرادکو تحفظ دے کر سہولت کار کا کردار نبھانا۔
صوبے بھرمیں عدم تحفظ کا شکار شہریوں کے جان و مال کو محفوظ بنانا محکمہ پولیس کے لئے خواب بن کر رہ گیا ہے۔ مہنگائی کے ہاتھوں تنگ شہری لٹ رہے ہیں، مر رہے، صوبے میں عدم تحفظ بڑھ چکا ہے۔جہاں جرم کے خوف سے لوگ اچھی گھڑی بھی نہیں رکھ سکتے، خواتیں سونا نہیں پہن سکتیں، کاروباری حضرات موبائل فون نہیں رکھ سکتے، پھریہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟
عرصہ دراز سے کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر رینک اور ڈی ایس پی سے ایس پیز رینک تک پولیس ملازمین کی ترقیوں کا عمل سست ترین ہونے سے پنجاب پولیس کے ملازمین میں کام کرنے کی صلاحیت کم ہوتی چلی گئی۔تاہم ترقیوں کا عمل اچانک تیز گام کی صورت اختیار کر گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا ترقیوں کا عمل تیز ہونے سے پولیس کا جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کا بندوبست بھی کر سکتے۔ جرائم پر قابو پانے کے لئے کریمینلز کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات میں تیزی لانا بھی مقصود ہے۔ شہر، شہر اور صوبے کا ہر دوسرا شہری کب خود کو محفوظ تصور کریں گا۔
کہا جاتا ہے کہ اگر تھانہ کا ایس ایچ او، سرکل کا ڈی ایس پی اور ڈویڑن کا ایس پی ڈیوٹی کو ایمانداری سے پوری کریں توجرائم میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ پولیس ملازمین جرم میں برابر کے شریک اورسہولت کاری میں ملوث پائے جاتے ہیں۔
جب انصاف کا بول بالا نہ ہو، جب طاقتور کمزور پر حاوی ہو، جب عوام کو تعلیم سے دور رکھا جائے، جب ملک پرمافیاکا راج ہوگا توصوبے میں جرائم بڑھتے رہیں گے۔ جرم کی سب سے بڑی وجہ نا انصافی ہے۔ اگر لوگوں کوانصاف ملنا شروع ہو جائے تو کوئی جرم نہیں ہوگا۔اگر قانون کا خوف ہو گا تو جرم نہیں ہوں گے۔ قانون تو ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہونے سے کریمینل کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔
جرائم بڑھنے کے ویسے تو کئی اسباب ہیں لیکن نا اہلی، بے روزگاری، معاشی بدحالی اور کرپشن اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ جرائم پیشہ افراد معاشرے کی ہر سطح تک پھیل چکے ہیں۔ جس نوجوان کو دو منٹ میں دو ہزار روپے جرائم سے مل جائیں اس کو کوئی معمولی نوکری جرم سے باز نہیں رکھ سکتی۔اغوا برائے تاوان، شوٹروں کے ہاتھوں قتل کی وارداتیں، ڈکیتی، راہزنی جیسے جرم  نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔ ریاستی ادارے اور خاص طور پر شہر شہر اور پنجاب بھر کی پولیس کریمینلز  کے خلاف ڈٹ کر کام کرنے سے گریزاں ہیں۔
دکھ کی بات ہے کہ پنجاب پولیس بہت وعدے کرتی ہیں لیکن پولیس کے نظام کو نہیں بدلتی۔ جب مجرم کو سزا نہیں ملے گی اور اور قانون نافذ کرنے والے اور انصاف دینے والے ادارے خرید وفروخت کریں گے تو صورت حال ایسی کیوں نہ ہوگی۔ گن پوائنٹ پر ڈکیتی ہوئی اور باوجود اطلاع دینے کے پولیس اس وقت پہنچے جب ڈاکو واردات کے بعد محفوظ پناہ گاہ پہنچ جائے۔ جب عوام کا جان و مال ہی محفوظ نہیں تو کوئی کس پر اعتبار کرے؟ جب متاثرین کوانصاف کے تقاضوں کو اپناتے ہوئے میرٹ کے مطابق انصاف نہیں ملے گا تو یقینا جرم بڑھے گا؟
پولیس کا ہے کام، تحفظ عوام کا، لیکن یہاں عام آدمی سے زیادہ کریمینلز زیادہ محفوظ ہیں۔ جرائم پیشہ افراد علاقے، شہر اور صوبے میں مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پولیس کی کیا مجال کہ جرائم پیشہ افراد کے اڈوں پر چھاپے مارنے کی جرات بھی کر سکے۔ لیکن عام آدمی کے گھر ریڈ کر کے اپنے آقاؤں کو ضرور خوش کر دیتے ہیں، عام آدمی کے گھر ریڈ کر کے علاقے میں خوف پھیلانا پولیس کو ضرور آتا ہے۔ لیکن جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ثبوت بھی ہوں، وہاں پولیس قانونی کارروائی کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ وہاں کارروائی نہیں کی جاتی، کوئی ایسا غیر قانونی کام نہیں جس کے پیچھے پولیس نہیں۔ پولیس کاپیچھے ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کریمینلز کا مقابلہ ہو رہا ہے بلکہ الٹا ان کی سہولت کاری کرنا ضرور مقصود ہوتا ہے۔
لاہور کی حدتک تودیکھنے میں آرہا ہے کہ گھناؤنے جرائم میں کمی ہورہی ہے اور یقینا اس کمی کے پیچھے سی سی پی او کے اٹھائے گئے سخت اقدامات ہیں۔ لیکن بات صرف لاہور کی نہیں پورے پنجاب کی ہے، دوسرے شہروں میں ایسا ہی شکنجہ کسناچاہئے، عموماً اس قسم کا رحجان عارضی ہی ہوتا ہے کیونکہ کچھ عرصہ بعد چیک اینڈ بیلنس کا نظام غیرمتوازن ہو جاتا ہے۔
سی سی پی او چاہئے جو شکنجہ وہ کس رہے ہیں وہ ٹیڑھی ہڈیوں کے سیدھا ہونے تک مزید کستے رہیں اور اس کا دائرہ بھی وسیع کریں تاکہ عام شہری خود کومحفوظ سمجھے۔ شکنجہ ڈھیلا کیا گیا تو ملازمین اور افسروں کی کرپشن کا یہ وائرس معاشرے کیلئے انتہائی جان لیواثابت ہوگا۔ ہماری صرف تجویز ہے فیصلہ آپ کا ہے۔ انصاف دیں گے تو آگے خیر کی توقع ہے نہیں تو……اس لیے ضروری ہے کہ محکمہ کے اندر گھس بیٹھے جو چوروں کی مائیں ہیں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچائیں ورنہ آئی جی پنجاب کا ”عوام دوست پولیس“ کا نعرہ دیوانے کا خواب ثابت ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.