کہیں اٹل فیصلوں سے عوام کی مایوسی میں اضافہ نہ ہو جائے؟

25

کبھی بھی کسی نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ چھہتر برس کے بعد ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب ہو جائیں گے کہ زندگی ہچکیاں لینے لگے گی رزق کا حصول انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ حکمران طبقات بے بس نظر آئیں گے؟
نگران حکومت آئی تو انتخابات کروانے کے لیے ہے مگر اس کے تیور سے لگ رہا ہے کہ وہ طویل عرصہ حکمرانی کے مزے لوٹے گی اور اپنے تئیں معیشت کو پٹڑی پر چڑھانے کے لیے پوری کوشش کرے گی مگر جس طرح یہ معاشی بھنور سے نجات کا طریقہ ڈھونڈ رہی ہے اس سے تو عام آدمی زندہ در گور ہو جائے گا۔
جی ہاں! موجودہ حکومت کہتی ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کے ان معاہدوں کو چھونا بھی نہیں جو سابقہ حکومتیں کر کے گئی ہیں اس نے پچھلے تمام منصوبوں کو جاری رکھنا ہے تا کہ ملک کے حالات بہتر ہو سکیں۔ اس کے اس عمل سے لوگ کس قدر متاثر ہوں گے اس سے اسے کوئی سروکار نہیں نہ ہی وہ کوئی اجتماعی ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے لہٰذا آنے والے دنوں میں جس چیز کو بھی ہاتھ لگایا جائے گا وہ چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا دے گی۔ بجلی کی قیمتوں کو دیکھ لیجیے وہ کہاں سے کہاں پہنچ گئیں جس پر پورے ملک میں شور مچ گیا ہے۔ مظاہرے ہو رہے ہیں، ہڑتالیں کی جا رہی ہیں مگر حکومت صاف کہہ رہی ہے کہ کوئی ریلیف نہیں ملے گا بل ادا کرنا ہی ہوں گے وہ سوچے اور دیکھے جو بل آ رہے ہیں وہ واقعی درست ہیں یا ایسے ہی آنکھیں بند کرکے گھروں میں پھینکے جا رہے ہیں مگر وہ کوئی زحمت نہیں کر رہی لوگوں کی توجہ اِدھر اْدھر کرنے کی غرض سے اجلاسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے جو ابھی تک کسی بہتری کی طرف جاتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
نگران حکومتی عہدیدار ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہو کر فرماتے ہیں کہ وہ کسی صورت بلوں میں کمی نہیں لا سکتے کیونکہ پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تھا لہٰذا اس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی اگر کی گئی تو وہ اگلی قسط روک دے گا
ہاں اگر کوئی ریلیف دینا ممکن ہوا تو آئی ایم ایف سے پوچھ کر دیا جائے گا۔ یہ ہے ہماری آزادی جو ہم نے انگریزوں سے حاصل کی تھی۔
افسوس ہمارے حکمرانوں نے محض اقتدار اور لوٹ کھسوٹ کے لیے لوگوں کے سر جھکا دیئے وہ اپنے بڑے بڑے گھر بنانے میں مصروف رہے اور غریبوں کی جھونپڑیوں میں الم ومصائب کو دھکیلتے رہے یہ حکمران کبھی بھی عوامی بن کر نہیں رہے انہوں نے غور کیا تو اپنے لیے کوئی منصوبہ بنایا تو بھی اپنے لیے یعنی اپنی ذات کو عیش و آرام میں رکھنے کے لیے یہ لوگ بڑی آشیر بادی طاقتوں کے ملازم بنتے رہے جوآج ہمارے فیصلے کرتے ہیں ہمیں ڈکٹیٹ کرتے ہیں کیا اچھا ہے کیا برا ہے اس کا تعین ہم نے نہیں کرنا اس کا اختیا ربھی ان کے پاس ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ جو حکومت ہوتی ہے اور ”منتخب“ ہو کر آتی ہے اس کا کیا کام ہے پھر انتخابات کا تکلف کیوں کیا جاتا ہے کہ اس نے بھی تو اپنی مرضی نہیں کرنی عوام کی خواہشات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھنا ہوتا اسے صرف اور صرف آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور مغربی ممالک کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔آئی ایم ایف کے احکامات کی تو وہ پابند ہوتی ہے تو پھر کیوں جمہوری عمل کے جاری رہنے کا کہا جاتا ہے کہ اسے رکنا نہیں چاہیے۔ وہ عمل تو ابھی تک جاری بھی نہیں ہوا کیونکہ جب حکمرانوں کو عوامی ضروریات احتیاجات اور امنگوں کو پیش نظر ہی نہیں رکھتا۔ ان کو اس کی اجازت ہی نہیں ملنی تو اسے جمہوری عمل نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال وطن عزیز کے لوگوں کا حال بہت ہی خراب ہے وہ اپاہجوں کی سی زندگی بسر کر رہے ہیں ان کو یہ کہنا کہ بل جتنے آئے ہیں وہ دینا ہوں گے بہت افسوس ناک ہے۔ جناب عالی! وہ اتنے بل دینے کی پوزیشن میں ہی نہیں یہاں ہم یہ عرض کر دیں کہ اس میں وہ طبقہ جو تنخواہ دار ہے وہ سب سے زیادہ متاثر دکھائی دیتا ہے مزدور محنت کش اور چھوٹے دکاندار وہ تو سر پر بانہیں رکھے ہوئے ہیں مگر ان کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ احتجاج کے بارے میں تو نگرانوں نے واضح کر دیا ہے کہ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر وہ بھول رہے ہیں کہ احتجاج ہی تو ایک ہوتا ہے جس سے کسی حکومت کو فرق پڑتا ہے اور وہ شروع ہو چکا ہے، بجلی کے بلوں کو تو ایک طرف رکھیے اب پٹرول مہنگا ہونے پر یہ احتجاج اور شدید ہو جائے گا کیونکہ ایک بار پھر عام آدمی کی جان نکلے گی بلکہ نکلنے کا آغاز ہو چکا ہے۔
وہ بھی کیا دن تھے جب بجلی کے بغیر بھی ہم لوگ زندہ تھے اور خوش تھے کوئی فکر نہ فاقہ تھا اب جب ہماری عادت بدل گئی ہے تو جان کے لالے پڑ گئے ہیں مگر حکمران ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں جو فیصلے کرتے ہیں درست کرتے ہیں مگر عوام کو ان سے تکلیف ہو ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا نے لگے تو ان فیصلوں کو ٹھیک کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لہٰذا نگران جو کچھ کر رہے ہیں یا کرتے جا رہے ہیں وہ عوام کے مفاد میں ہرگز نہیں وہ آئی ایم ایف سے تو ڈرتے ہیں یا اس کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تو وہ چوبیس کروڑ لوگوں کو کیا معمولی سمجھتے ہیں انہیں ناراض کر کے کوئی کیسے عیش و آرام میں رہ سکے گا کیونکہ وہ شور مچائیں گے تو نیند کیسے آئے گی۔ بہر کیف اگر عوام کے لیے پریشانیاں ہیں تو حکمرانوں کو بھی چین نہیں آئے گا ابھی تو سرکاری محکموں کے ملازمین نے انگڑائی لے کر سڑکوں پر آنا ہے ان کی پنشن ختم کی جا رہی ہے۔ ہماری ناقص رائے یہی ہے کہ ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس اس کے خزانے میں لائی جائے آئی ایم ایف سے مطالبہ کیا جائے کہ عوام کے مجموعی حالات کے پیش نظر اس کی تمام شرائط پر من و عن عمل درآمد کرنا ناممکن ہے۔ تمام بڑے بڑے سرمایہ داروں کو کہا جائے کہ وہ اپنی دولت ایک بار سرکار کو ادھار دیں۔ سرکاری افسروں کی مراعات کو منجمد کر دیا جائے صنعتکار اب تک جو بجلی چوری کے مرتکب ہوئے ہیں ان سے پچھلے پیسے وصول کیے جائیں عوام کو دہکتے انگاروں پر لٹانا جائز نہیں وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اب کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں؟

تبصرے بند ہیں.