بھوک اور غربت نامراد بیماریاں ہیں اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج کم از کم پاکستان جیسے ملک میں موجود نہیں لگتا۔پہلی بیماری کا تعلق پیٹ سے ہے اور پیٹ دنیا میں ایک دوزخ ہے اور موخرالذکر بیماری کا تعلق خاندان کے سب افراد کے ساتھ ہے۔اگر غربت ہے تو خاندان کی اقدار اور عزت تو خاک میں گئی۔آج سے تیس سال پہلے دیہات کی زندگی بہت سادہ تھی۔نمود و نمائش کو بہت کم اختیار تھا کہ وہ کسی گھر کا رخ کرے۔بھولے سے اگر کوئی پتلون اور شرٹ پہن لیتا تو بزرگ اسے گھورے جاتے بلکہ گاؤں کے کتے بھی اسے عجیب نظروں سے دیکھتے بلکہ اکثرو بیشتر تو کاٹنے کو ڈورتے۔ جیب خرچ نام کی کوئی چیز نہ ہوتی تھی۔کبھی کبھار ایک آدھ روپیہ مل جاتا تو اس دن خوشی کی انتہا نہ رہتی۔گاؤں کی دکانوں (جسے عرف عام ہٹی کہتے تھے) سے چینی والی ٹافیاں،بنانا کریم بسکٹ،پیلے رنگ کی بسکٹیاں اور میٹھی اور نمکین پھلیوں کے علاوہ نمکین دال ملا کرتی تھی۔تین چار دن کے بعد ان میں سے کسی ایک چیز کو خریدنا ہماری کل عیاشی ہوا کرتی تھی۔شہتوت کی لگروں کھونڈی بنا کر ہاکی کھیلنا اور کپڑے دھونے والے دھاپے سے کرکٹ کھیلنا ہمارا خوب مشغلہ تھا۔جب ہم ساتویں کلاس میں ہوئے تو تب ہم چند دوستوں نے پندرہ روپے کی کثیر رقم اکٹھی کرکے ٹیپ بال والا کرکٹ کا بیٹ خریدا تھا اور بال خریدنے کے لیے کئی دن انتظار کرنا پڑا۔بال خریدی تو پتہ چلا کہ بال کو محفوظ رکھنے کے لیے ٹیپ الگ سے خریدنا ہوگی۔اب ہمیں ایک اور دریا کا سامنا تھا سو ایک دن یہ مرحلہ بھی طے ہو گیا اور ہم کرکٹ کھیلنے کے قابل ہو گئے۔ایک دفعہ ایک دکاندار میدے کی بنی ہوئی رنگ برنگی برفی لایا اور اس نے یہ برفی اپنی دکان میں ایک تھال میں سجا کر رکھی۔ میں سکول آتے جاتے اس برفی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا۔آخر کارمیں کئی دنوں کی محنت شاقہ کے بعد اس برفی کی تین ٹکڑیاں خریدنے میں کامیاب ہو گیا۔ خریدنے کے بعد دل کو دھڑکا سا لگ گیا کہ یہ ٹکڑیاں بہت جلد ختم ہو جائیں گی۔میں نے تھوڑی تھوڑی کرکے دو ٹکڑیاں کھا لیں اور تیسری ٹکڑی کھانے سے پہلے اچانک دماغ میں ایک ترکیب آئی کہ اس کو زمین میں بو دیتا ہوں اور جب برفی کا یہ پودا بڑا ہوگا تو اس پر برفی کی ٹکڑیاں لگیں گی اور مجھے برفی خریدنی نہیں پڑے گی اور نہ ہی ابا اور اماں سے پیسے مانگنے پڑیں گے۔میں نے آرائیں ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے برفی کو زمین نرم کرکے بو دیا اور اسے پوری ذمہ داری کے ساتھ پانی بھی دیتا رہا اور دیکھ بھال بھی کرتا رہا۔آٹھ دن ہونے کو آگئے مگر کسی طرح کا پودا زمین سے باہر نہ نکلا۔میں نے پریشانی کی حالت میں زمین کو کھود ڈالا تاکہ دیکھوں کہ بیج کہیں گل سٹر تو نہیں گیا۔زمین کھودتے ہوئے ابا نے دیکھ لیا اور پوچھا کیا کر رہے ہو؟۔میں نے ابو کو سارا ماجرا سنا دیا۔ابو بولے ایسی چیزیں بونے سے نہیں اُگتی۔صرف اناج بونے سے اگتا ہے۔پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر کچھ ایسی دل شکن ویڈیو دیکھنے کو ملیں کہ بس سانس نکلنا باقی رہ گئی۔میرے دیس کی بیٹی پانی میں روٹی بھگو کے کھا رہی ہے۔ایک بیٹی میری طرح روٹی بو رہی ہے تاکہ اس پودے پر روٹیاں آئیں گی اور ہمیں پھر روٹیوں کے لالے نہیں پڑیں گے۔ہمیں روٹی مانگنی نہیں پڑے گی۔
بقول نظیر اکبر آبادی
پوچھا کسی نے کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے سے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو یہ چاند سمجھیں، نا سورج جانتے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
حیرت اس بات کی ہے کہ کاکڑ صاحب اکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اتنی بھی مہنگائی نہیں کہ عوام پہیہ جام ہڑتال کریں؟بجلی کے بل عوام کی بس سے باہر ہو جائیں؟چینی کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں؟ پٹرول اس حد تک بڑھ جائے کہ عوام رونے پر مجبور ہو جائے؟گیس کی قیمتیں روز بڑھنے لگیں؟ چکن، انڈے، بریڈ اور بیکری کی دیگر اشیاء کی قیمتیں سن کر ہوش اڑ جائیں؟ اور بچے ایسی چیزوں کو ترسنے لگیں؟اور وزیر اعظم پھر کہے کہ مہنگائی نہیں ہے۔جن لوگوں کی بجلی فری ہو،پٹرول فری ہو،گاڑیاں فری ہوں،گھر فری ہوں،نوکر فری ہوں،کچن کے استعمال کی چیزیں فری ہوں،تعلیم فری ہو،عوام کے ٹیکس کا پیسہ فری ہو۔سہولیات فری ہوں۔جیبیں گرم ہوں ان کو مہنگائی کہاں سے نظر آئے گی۔ مہنگائی تو ان کونظر آئے گی جو یہ سوچیں گے کہ برفی بونے سے پودا اگے گا اور پھر اس پر برفی لگے گی۔مہنگائی تو ان بچوں کو نظر آئے گی جو یہ سوچتے ہیں کہ روٹی بونے سے روٹیاں اُگیں گی۔مہنگائی تو ان کو نظر آئے گی جو بجلی کے بل دیکھ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔مہنگائی تو انہیں نظر آئے گی جو اپنی لاڈلیوں کی بالیاں بیچ کر بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔مہنگائی تو ان کو نظر آئے گی جو صرف مزدوری کرتے ہیں۔مہنگائی تو ان کے لیے ہے جو بے روز گار ہیں۔مہنگائی تو ان کے لیے جو اعلیٰ ڈگریاں لے کر دھکے کھا رہے ہیں۔مہنگائی تو ان کے لیے جنہیں ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر نصیب نہیں ہے۔مہنگائی تو ان کے لیے ہے جو فٹ پاتھوں پر سو رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب خدارا غریب عوام کے مسائل کو سمجھیں اور ان کی سطح پر آکر یہ مسائل حل کریں اور اس قدر مہنگائی سے غریب کا آخری نوالہ نہ چھینیں۔ ارباب اختیار آئیے اور خدا خوفی سے آئیے پھر سے اپنے گاؤں (پاکستان) چلتے ہیں یہاں پیٹ بھرنے کو روٹی تو ملے۔یہاں زندگی کی چہل پہل تو۔یہاں ہجرت نہ ہو حقیقی آزادی ہو۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.